جنرل راحیل شریف اپنے منصب کی تین سالہ میعاد پوری کرکے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ دو روز میں وہ باقاعدہ ریٹائر ہو جائیں گے اور ان کی جگہ ایک نیا جنرل پاکستانی فوج کی کمان سنبھال لے گا۔ رہے نام اللہ کا۔ جنرل صاحب کو غیر معمولی جوش و خروش سے رخصت کیا جا رہا ہے۔ ایک دن وزیر اعظم ہائوس میں ان کے لئے پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ بہت دنوں بعد ہنستے، مسکراتے، ہلکے پھلکے نظر آتے وزیر اعظم نے باقاعدہ لکھی ہوئی تقریر داغی اور اعلان کیا کہ میں اور جنرل راحیل مل کر کئی سکیورٹی چیلنجز سے کامیاب گزرے۔ تین سال ان کے سٹریٹیجک مشوروں پر اعتماد کیا‘ اور آئندہ بھی ان سے مشورے کرتا رہوں گا۔ ان کی قیادت میں فوج نے نہ صرف بیرونی خطرات بلکہ دہشت گردی کی لعنت کا بھی مقابلہ کیا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ جنرل راحیل نے ہمیشہ فرنٹ سے قیادت کی۔ انہوں نے مسلح افواج اور ملک کے لئے ان کی خدمات کو مثالی غیر معمولی اور بے لوث قرار دیا اور واضح طور پر کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو موجودہ نسل کے بہترین فوجی رہنمائوں میں سے ایک ثابت کیا ہے۔ جواب میں جنرل راحیل شریف نے یوں اظہار تشکر کیا: میں آپ کے محبت بھرے الفاظ اور حمایت پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ اگلے روز وزیر اعظم ترکمانستان کے دو روزہ دورے پر روانہ ہو گئے تو صدرِ مملکت نے اپنا دسترخوان بچھا دیا‘ اور شاندار الفاظ میں ان کے ''ممنونِ احسان‘‘ ہوئے۔
جنرل راحیل شریف کی طرح پاکستانی فوج کے کئی سابق سربراہوں کو باقاعدہ ریٹائرمنٹ نصیب ہوئی ہے۔ ان کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی تو چھ سال اس منصب پر فائز رہ کر گھر سدھارے تھے۔الوداعی عشائیے انہیں بھی نصیب ہوئے لیکن وہ شاندار الفاظ ان کے میزبانوں نے ان کی نذر نہیں کئے، جنرل راحیل کو جن کا حقدار گردانا گیا۔ جنرل کیانی ہی پر کیا موقوف جنرل موسیٰ خان، جنرل ٹکا خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ کے حصے میں بھی وہ کچھ نہیں آیا جو جنرل راحیل پر نچھاور کیا گیا۔ مذکورہ بالا احباب ان سربراہان میں شامل نہیں تھے‘ جن کو ہائے ہائے کے نعرے رخصت پر مجبور کرتے رہے۔ ان سب نے اپنی میعاد پوری کی اور باقاعدہ ریٹائر ہوئے لیکن جنرل راحیل کی سج دھج ان ہی کے لئے خاص ٹھہری۔ یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا۔
یہ بھی دلچسپ معاملہ ہے کہ وزیر اعظم نے ان کے جانشین کا اعلان کئی روز پہلے نہیں کیا۔ قیاس کے گھوڑے دوڑائے جاتے رہے اور وزیر اعظم پر کئی اہل دانش (پنجابی محاورے کے مطابق) کچیچیاں ''وٹتے‘‘ رہے کہ انہوں نے فیصلے میں دیر کیوں لگا دی‘ لیکن وزیر اعظم اپنی دھن کے پکّے ہیں۔ فیصلہ تو وہ یقینا کر چکے تھے لیکن آخر تک راز کی طرح اس کی حفاظت کرتے رہے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو معلوم ہوا کہ قرعہ فال جنرل زبیر حیات اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام نکل آیا ہے۔ سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ وزیر اعظم کے حقِ انتخاب کا انکار کیا جا سکتا ہے‘ نہ ان کے اسلوب کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف اگرچہ تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں‘ لیکن چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر کا بلا شرکتِ غیرے اختیار وہ چوتھی مرتبہ استعمال کر رہے ہیں۔ جب جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ طلب کیا گیا (یا انہوں نے خود اس کی پیشکش کی) تو اس وقت (آئین میں ترمیم کے بعد) صدر پاکستان کا یہ صوابدیدی اختیار وزیر اعظم کو منتقل کیا جا چکا تھا کہ وہ مسلح افواج کے سربراہان کا تقرر کرے۔ پہلی نگاہِ انتخاب جنرل پرویز مشرف پر پڑی اور ان کے سر پر تاج رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل موصوف کو ان کے منصب سے ہٹا کر خواجہ ضیاء الدین کو جرنیلی کے پھول لگائے گئے‘ لیکن اس حکم کو جنرل پرویز مشرف اور ان کے حامی جرنیلوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ باغی قابض ہو گئے اور وزیر اعظم کو حوالۂ زنداں ہونا پڑا۔ راوی کے پلوں سے بہت سا پانی گزر جانے کے بعد تین سال پہلے وزیر اعظم نواز شریف کو ایک بار پھر فوجی سربراہ کے تقرر کا اختیار استعمال کرنے کا موقع ملا تھا۔ جنرل راحیل شریف اگرچہ سینئر ترین جنرل نہیں تھے، لیکن ان کے انتخاب کی داد ہر شخص دے رہا ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران انہوں نے نہ صرف اہلیت ثابت کی بلکہ لوگوں کے دلوں میں گھر بھی کر لیا۔
جنرل راحیل کے عہد میں جو کچھ پیش آیا، اس کی تفصیل میں جانے کا محل نہیں۔ ضربِ عضب اور کراچی آپریشن کی کامیابی نے ان کے قد میں اضافہ کیا۔ ان کے تحرک اور قائدانہ صلاحیت کے مظاہروں نے انہیں غیر معمولی پذیرائی بخشی۔ پاکستان یقینا آج تین سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ پُرامن اور زیادہ محفوظ ہے۔ سول، ملٹری تعلقات کے حوالے سے زیر و بم دیکھنے میں آئے، معاملات الجھ کر سلجھتے اور سلجھ کر الجھتے رہے۔ دھرنوں کی سیاست کے پیچھے بہت کچھ دیکھا اور دکھایا جاتا رہا، آئی ایس پی آر کی طرف بھی انگلیاں اٹھتی رہیں لیکن جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر رینگتی ہی رہی۔ جنرل راحیل نے اقتدار سنبھالا تھا تو ان سے مل کر آنے والے ایک سینئر اخبار نویس نے مجھے بتایا تھا کہ تین نکات ان کی توجہ کا مرکز رہیں گے۔1، جنرل پرویز مشرف کی ''رہائی‘‘... 2، دہشت گردی کا خاتمہ اور 3، ایک حساس ادارے کے سربراہ کو نشانہ بنانے والے میڈیا گروپ کا احتساب۔ بعد کے واقعات نے جو کچھ ثابت کیا ہر دیکھنے والی آنکھ اس کا بخوبی جائزہ لے سکتی ہے۔
جنرل راحیل ریٹائرمنٹ کے بعد گالف کھیلیں گے، وزیر اعظم نواز شریف کو مشاورت فراہم کریں گے یا اپنی مقبولیت کو آزمانے کے لئے کوئی قدم اٹھائیں گے۔ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ عہدِ راحیل کا تفصیلی جائزہ لینے والے اس سے انکار نہیں کر سکیں گے کہ یہ ایک غیر معمولی جرنیل کا غیر معمولی عہد تھا۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]