چترال سے اسلام آباد آنے والے پی آئی اے کے طیارے کو جو حادثہ پیش آیا، اس نے پوری قوم کو صدمے سے دوچار کر دیا۔47 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ہر شخص غم میں ڈوب گیا۔ مرحومین میں سے چند کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ باقی میتوں کی ڈی این اے ٹیسٹوں کے ذریعے پہچان کا عمل جاری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ چند روز میں یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا تو تمام جاں بحق ہونے والوں کو سپرد خاک کیا جا سکے گا۔ ہر شخص دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر عطا کرے۔ صدمہ جتنا بھی بڑا ہو، صبر دینے والا صبر عطا کرتا ہے تو زندگی کا قدم آگے بڑھتا ہے۔ اگر غم کے ساتھ صبر کی تخلیق نہ کی گئی ہوتی تو دنیا کب کی ویرانہ بن چکی ہوتی۔ افسردگی اور بے چارگی کے علاوہ کوئی اور چیز دیکھنے کو نہ ملتی۔ انسانی زندگی آخری سانس لے چکی ہوتی اور آج جو ہم اپنے چاروں طرف چکا چوند دیکھتے ہیں، یہ چراغ کیا، آفتاب لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتی۔ صبر کی مرہم غم کو مندمل کرتی ہے اور کاروانِ انسانیت مصروف سفر رہتا ہے: ؎
اٹھے بادہ کش ہزاروں ہوا مے کدہ نہ خالی
وہی رنگ ہیں بزم کے وہی روز جام چھلکے
مسلمانوں کی زندگی آخرت سے جڑی ہے کہ آخرت کے بغیر ان کے ہاں زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ مسلمان بننے کے لئے بنیادی شرط آخرت پر یقین ہے، اسی سے جزا اور سزا کا تصور بھی جڑا ہوا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، جو کچھ اچھا یا بُرا یہاں کیا جائے گا، اس کی سزا اور جزا یہاں نہ ملے تو بھی مرنے کے بعد ملے گی کہ موت کوئی دوامی حقیقت نہیں ہے۔ یہ اک زندگی کا وقفہ ہے، یعنی آگے چلیں گے دم لے کر۔ جس طرح انسان نیند سے بیدار ہوتا ہے، اسی طرح موت کی آغوش سے بھی نکلے گا اور اس سب کچھ کا حساب دے گا جو اس نے یہاں کیا ہو گا۔ اسی تصور آخرت سے منسلک بات یہ ہے کہ مسلمان معاشرے مادر پدر آزاد نہیں ہو سکتے۔ وہاں احتساب کا کڑا نظام رائج ہو گا تو اس دنیا کو بھی جنت بنایا جا سکے گا۔ جہاں جزا اور سزا کا اہتمام نہ کیا جائے (یا نہ کیا جا سکے) وہ معاشرہ دوزخ بن کر رہ جائے گا۔ اس میں کتنے ہی لائوڈ سپیکر لگا کر اذانیں دی جائیں اور گلی گلی درود و سلام کی جتنی بھی محفلیں منعقد کر لی جائیں، قدم قدم پر جتنی بھی مسجدیں بنا دی جائیں، ایک ایک آدمی پر خواہ ایک ایک مولوی کھڑا کر دیا جائے، وہاں اسلام نام کی کوئی شے ڈھونڈے سے نہیں ملے گی کہ اسلام نام ہے سلامتی کا۔ سلامتی ممکن نہیں اگر افعال و اعمال پر پوچھ گچھ نہ ہو۔ اگر ڈاکو نے بھی تمغہء امتیاز حاصل کر لینا ہے تو پھر اپنے ہاتھوں سے اپنا رزق حلال پیدا کرنے کی سعی کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟
یہ ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہے۔ اسی ماہ قریباً پندرہ سو سال پہلے حضور اکرمﷺ دنیا میں تشریف لائے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ ایک اللہ کو مان کر ایک ہو جانے کا درس دیا اور بتایا کہ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص جواب دہ ... انہوں نے جو معاشرہ تخلیق کیا اور اس کے نتیجے میں جو اسلامی ریاست قائم کی، اس کا بنیادی جوہر ہی یہ تھا کہ ہر شخص قانون کے سامنے برابر ہے، جو جیسا کرے گا اسے ویسا ہی بھرنا ہو گا۔ رسول اکرمﷺ کی زندگی قول اور فعل کے کسی تضاد سے پاک تھی۔ ان کی قائم کردہ ریاست کا بھی بنیادی وصف یہی تھا کہ اس کے کارکنوں اور شہریوں میں قول اور فعل کو ہم آہنگ بنانے کی کوشش ہر آن جاری رہتی تھی۔ اس میں تضاد کی نہ تحسین کی جاتی تھی نہ اسے قبول کیا جاتا تھا۔ جو کہتے ہو وہی کرو اور جو کرتے ہو وہی کہو۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جس دین کا آغاز صرف ایک شخص سے ہوا تھا کہ جب رسول اللہﷺ مبعوث ہوئے تو وہ روئے زمین پر واحد مسلمان تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں افراد اس کے دائرے میں داخل ہوئے اور اپنے رہبر کی زندگی کو اپناتے گئے۔ اس چراغ سے چراغ روشن ہوتے رہے۔ رسول اللہﷺ نے کسی کو زبردستی کلمہ نہیں پڑھایا۔ کسی کو جبراً اپنے حلقے میں شامل نہیں کیا کہ تبدیلی کا رضاکارانہ عمل ہی اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے اور نتیجہ خیز بھی: ؎
زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
آج جب کہ ہم عید میلادالنبیؐ منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور گھر گھر قمقمے روشن کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ہمارے ارد گرد افراتفری اور نفسانفسی ہے۔ ہمارے طاقتور، طاقت حاصل کرتے جا رہے ہیں اور ہمارے کمزور کمزور تر ہو رہے ہیں۔ نہ کسی کو احتساب کا ڈر ہے نہ انصاف مل پا رہا ہے۔ لاٹھیوں والے بھینسیں لئے چلے جا رہے ہیں اور جن کے ہاتھ خالی ہیں، وہ انہیں ملتے چلے جانے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر پاتے۔ دعویٰ اسلام کا ہے لیکن بداخلاقی، ناانصافی، لاقانونیت اور حرام خوری کے مظاہرے غیر مسلم معاشروں سے بڑھ کر ہمارے ہاںدیکھنے میں آ رہے ہیں۔ جب کوئی حادثہ ہوتا ہے یا یہ کہیے کہ کوئی واردات ہوتی ہے تو ہم شور و غل مچاتے ہیں لیکن ذمہ داروں کا تعاقب نہیں کر پاتے۔ ہمارے 'گناہ گار‘ پارسا اور ہمارے پارسا گناہ گار بنائے جا رہے ہیں اور ہم قوالی کے علاوہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ربیع الاول کے مبارک مہینے میں ہونے والے طیارے کے حادثے کے بعد بھی وہی کچھ ہو گا جو اس سے پہلے ہوتا چلا آیا ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب کوئی اور حادثہ پیش آئے گا تو پھر یہی ڈرامہ دہرا دیا جائے گا۔ ایسے ہی ٹسوے بہائے جائیں گے اور پھر کسی اور حادثے کا انتظار شروع کر دیا جائے گا۔
ہم اس انتظار میں بوڑھے ہو رہے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمیں ٹھیک کرے جبکہ تبدیلی کا عمل اندر سے شروع ہوتا ہے۔ ربیع الاول کا مہینہ یہی پیغام دے رہا ہے۔ یہ ہمارے سامنے جو حادثہ ہوا ہے، اس کا شکار ہونے والا ایک شخص یہ حقیقت ایک بار پھر کھول (اور کھل) کر بیان کر گیا ہے۔ جنید جمشید نامی ایک پاپ سنگر جس نے تین عشرے پہلے اپنے نغموں سے دھوم مچا دی تھی اور نوجوانوں کے دلوں پر حکومت قائم کر لی تھی۔ شہرت کے آسمان پر پہنچ کر اسے کسی کی نگاہ نے (نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں) یکسر بدل ڈالا۔ تبلیغی جماعت کے کسی کارکن کی بات اس کے دل میں ایسی اتری کہ قلبِ ماہیت ہو گئی۔ اس نے موسیقی اور اس کے لوازمات کی دنیا چھوڑ کر ایک دوسری دنیا میں قدم رکھ لیا۔ اپنے آپ کو تبلیغ اسلام کے لئے وقف کر دیا۔ قرأت، نعت اور درود کی محفلوں کو آباد کیا اور ایک نئے رنگ سے دلوں میں گھر کر گیا۔ تلاشِ رزق نے اسے تجارت کی طرف راغب کیا اور وہ نئی رفعتوں سے ہم کنار ہوا۔ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کے ہجوم میں تبدیلی کی علامت، بلکہ اعلان بن گیا۔ اسلام کے طریقِ انقلاب پر ایک بار پھر مہر توثیقِ ثبت کر گیا۔ اب وہ شہادت کی چادر اوڑھ کر سو گیا ہے لیکن اس کا کلمہء شہادت یہ سوال ہم سب کے سامنے رکھ گیا ہے کہ تبدیلی کی خواہش رکھنے والے اپنے آپ کو تبدیل کیوں نہیں کرتے؟ اپنے قول پر اپنی ذات کو گواہ کیوں نہیں بناتے، اپنے فعل کی شہادت کیوں نہیں لاتے؟
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]