"MSC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے ’’روہنگیاز‘‘؟

پاکستانی سیاست کے بازار میں یوں تو بہت کچھ ایسا ہوا ہے، جو ''اُس‘‘ بازار میں بھی (دن دیہاڑے) نہیں ہو پاتا لیکن ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے تو ہر حد ہی پار کر دی ہے۔ انہوں نے صوبہ سندھ (خصوصاً کراچی) میں رہنے والے ''مہاجروں‘‘ کے حالات کو میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ جس طرح وہاں اس گروہ کی نسل کشی کی جا رہی ہے، اور اُس پر زمین تنگ کر دی گئی ہے، اسی طرح پاکستان میں اُردو بولنے والے مہاجروں کے لیے سانس لینا دوبھر ہو رہا ہے۔ اِس لیے روہنگیا کے حق میں مظاہرے کرنے والوں اور جلوس نکالنے والوں کو ان پاکستانی ''روہنگیاز‘‘ کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ برما کے مظلوموں کو بھول کر ان ''مبینہ‘‘ مظلوموں کا ڈھنڈورا پیٹا جائے‘ جن کی نشاندہی فاروق ستار کر رہے ہیں۔ یہ حضرت سیاست میں نووارد ہیں، نہ ایم کیو ایم میں۔ انہیں (نسبتاً) ایک معقول شخص سمجھا جاتا ہے، اور ایم کیو ایم ماضی میں جو کچھ کرتی رہی، اور اپنے مخالفوں کو جس طرح نشانہ بناتی رہی ہے وہ اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ الطاف حسین کی طرف سے وفاق پاکستان کے خلاف زہر گوئی کے بعد جب شدید ردعمل سامنے آیا تو فاروق ستار ان لوگوں میں تھے، جنہوں نے اپنا تعلق ان سے توڑ لیا، اور داد و تحسین کے مستحق ٹھہرے۔ اب وہ ایم کیو ایم پاکستان کی سربراہی فرما رہے ہیں۔ وہ کراچی کے میئر رہنے کے علاوہ کم و بیش تین عشروں سے صوبائی یا قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ صوبائی وزیر رہ چکے ہیں، اب بھی قومی اسمبلی کے رکن ہیں، بلکہ ایم کیو ایم کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر بھی ہیں۔ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے خواجہ اظہارالحسن سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔ عیدالاضحی کے روز ان پر قاتلانہ حملہ ہوا، تو پورے پاکستان میں اس کا صدمہ محسوس کیا گیا، اور ان کی درازیٔ عمر کے لیے دُعائیں کی گئیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سمیت تمام حکام اعلیٰ و ادنیٰ نے ان کی مزاج پرسی کی، اور ان کی سکیورٹی کو مزید سخت کرنے پر زور دیا۔
فاروق ستار اور ان کے تمام منتخب رفقا کو باقاعدہ تنخواہ ملتی ہے، مراعات حاصل ہیں۔ دندنانے، ورغلانے اور اُکسانے کے بے پایاں مواقع حاصل ہیں۔ وہ جو چاہے کہہ سکتے، جہاں چاہے جا سکتے، اور جس کو چاہے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان کے الفاظ براہِ راست بھی نشر ہوتے اور اخبارات میں نمایاں جگہ پاتے ہیں۔ کھانے، کمانے کے لیے پاکستان کی وسیع چراگاہ میسر ہے۔ بات بے بات عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق بھی حاصل ہے۔ سندھ کے شہروں میں کئی بلدیات پر ان کا قبضہ ہے۔ کراچی میں بھی ان کی جماعت کے میئر اپنے وجود کا احساس دِلا رہے ہیں۔ اگر ''نسل کشی‘‘ اسی کا نام ہے، ظلم اسی کو کہتے ہیں، تو پھر دُنیا کا ہر شخص تمنا کرے گا کہ اُسے ایسا ظلم نصیب ہو، اور ہر گروہ کہے گا کہ اُس کی ایسی ''نسل کشی‘‘ کا ارتکاب کیا جائے۔ فاروق ستار نے یا تو روہنگیا کے حالات معلوم نہیں کیے یا پھر انہیں سچ بولنے سے کوئی شغف نہیں ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اقوام متحدہ نے روہنگیا کو دُنیا کی سب سے مظلوم اقلیت قرار دیا ہے کہ جن کا کوئی وطن نہیں۔ کوئی سرزمین جنہیں اپنانے کو تیار نہیں۔ جس برما (میانمار) میں ان کو رہتے صدیاں بیت گئیں، ان کے آبائواجداد نے جس سرزمین کو اپنا وطن بنایا تھا، وہ ان کو باقاعدہ سرکاری طور پر ''اجنبی‘‘ قرار دے چکی ہے۔ ان کی شہریت تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ جہاں سے ان کے بزرگوں کی بڑی تعداد نے نقل مکانی کی تھی، وہ زمین بھی انہیں اپنا نہیں سمجھتی، ان پر اپنے دروازے کشادہ نہیں کر پا رہی... کشتیوں میں لدے سینکڑوں افراد سمندر کی نذر ہو چکے، لاتعداد مسلح فوجی جتھوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے، عورتیں بے آبرو، اور بچے بے سہارا ہو چکے ہیں۔ ان کی چیخیں گونج رہی ہیں، مگر ان کی امداد کیسے کی جائے، کون، کس طرح اُن تک پہنچے۔ یہ کچھ پتہ نہیں چل پا رہا۔ نوبل امن انعام جیتنے والی میانمار کی بالفعل حکمران آنگ سان سوچی خونچکاں واقعات کو جھٹلا رہی ہیں‘ لیکن اپنی سرحدیں بین الاقوامی امدادی اداروں پر کھول نہیں رہیں، تاکہ غیر جانبدار مبصرین اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھ سکیں کہ کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی؟
ہندوستان میں مقیم عالمِ اسلام کے ممتاز مفکر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم نے ایک بار دورۂ پاکستان کے دوران اہلِ پاکستان کو اپنے معاملات پر شکوہ سنج پا کر، فرمایا تھا کہ خوف محسوس ہوتا ہے‘ کہیں پاکستان کے لوگ کفرانِ نعمت کے سبب سزا کے حق دار نہ قرار پا جائیں۔ ان کا فرمانا تھا کہ پاکستان کے حالات اکثر مسلمان ممالک کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں۔ یہاں اسلامی تحریکوں کو جو ماحول میسر ہے، اور ان کے کارکنوں کو کام کرنے کی جو آزادی ملی ہوئی ہے، بہت سے مسلمان ممالک میں اس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کے باوجود بہت سے پاکستانیوں کی زبان پر شکووں اور شکایتوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ وہ ہر بات میں کیڑے نکالنے اور ہر کام میں منفیت تلاش کرنے کے مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ مولانا مرحوم کا خیال تھا کہ یہ رویہ نعمت کے انکار کا ہے، اور اس پر بھی گرفت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے تو اس حوالے سے نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ ایک ایسی کمیونٹی‘ جسے پاکستان کے ایک ایک انچ پر تصرف کا حق حاصل ہے‘ سرکاری ملازمتوں، تجارتی، صنعتی اور ثقافتی اداروں، منتخب اسمبلیوں ہر جگہ اس کی بھرپور نمائندگی موجود ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق اسے ہر وہ حق حاصل ہے جو کسی بھی دوسرے پاکستانی کو انفرادی یا اجتماعی طور پر حاصل ہے۔ جس سے تعلق رکھنے والے افراد اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہے ہیں‘ اور افواجِ پاکستان میں بھی سپاہی سے لے کر جنرل تک، ہر جگہ اپنا متحرک وجود رکھتے ہیں۔ جن کی نمائندہ کہلانے والی جماعت ایم کیو ایم نے برسوں کنگ میکر کا کردار ادا کیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے میں پیش پیش رہی ہے۔ اپنے مخالفوں کی لاشوں کو بوریوں میں بند کرنے کا اپنا ریکارڈ رکھتی ہے۔ ان کی زبانیں بند کرنے بلکہ انہیں گُدی سے کھینچ لینے سے بھی دریغ نہیں کرتی رہی، جس نے اپنے ''زیر قبضہ‘‘ علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم کیے رکھا، اور میڈیا کو یرغمال بنا کر اس کی آنکھوں پر اپنی مرضی کے خول چڑھائے رکھے، اُس جماعت سے تعلق رکھنے والے فاروق ستار اپنے آپ کو روہنگیا قرار دے رہے ہیں۔ اس سے بڑا جھوٹ پاکستان تو کیا روئے زمین پر نہیں بولا گیا ہو گا۔ تف ہے ایسی سیاست پر اور تف ہے ایسی تہمت پر۔ یا تو وہ خود بینائی سے محروم ہو چکے یا دُنیا کو بینائی سے محروم سمجھ رہے ہیں۔ پاکستان کی، اہلِ پاکستان کی، اور خود اہلِ کراچی کی اس سے زیادہ توہین کرنے کی جرأت شاید ہی کسی صحیح الدماغ شخص کو ہوئی ہو... فوری طور پر ان کا دماغی معائنہ کرایا جانا چاہئے، اگر ان کی دماغی صحت میں خلل کی تصدیق ہو جائے تو پھر ان کا مقام قومی اسمبلی نہیں مینٹل ہسپتال ہے... اگر وہ دماغی طور پر تندرست ہیں تو پھر نرم سے نرم الفاظ میں جو بات ان سے کہی جا سکتی ہے، وہ یہی ہے کہ غیر مشروط معافی مانگیں ایک نہیں، سو بار معافی۔
خالد کھرل مرحوم
پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات خالد کھرل نے بھی آخری ہچکی لے لی۔ وہ پنجاب کے ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ سول سروس سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بھی رہے۔ یہیں سے ذوالفقار علی بھٹو کا اعتماد حاصل کیا، اور انہی کے ہو رہے۔ مارشل لا آیا تو زیر عتاب آئے، لیکن بھٹو صاحب کے خلاف کسی بھی قسم کی گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ ایک عرصہ ''جلا وطنی‘‘ کاٹی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اُن کی بڑی قدر دان تھیں۔ ان کے زیر قیادت انتخاب لڑا، وزیر بنے۔ دیانت اور امانت کی ایک مثال تھے، لیکن ان کے خلاف اسلام آباد کے کنونشن سنٹر کے حوالے سے الزامات گھڑ لئے گئے کہ اس کی تعمیر کے وہ نگران تھے۔ پاکستانی سیاست کا المیہ یہ بھی ہے کہ دیانت پر کیچڑ اچھالنے والے موجود اور مصروف ہوتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے پیپلز پارٹی کے معاملات سے بددل ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ اُن کے بیٹے حیدر خاں کھرل اِسی میں سرگرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے کہ لاریب، آزاد اور خوددار شخص تھے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں