پاکستان کے نئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جو کچھ امریکہ جا کر کہا اُس پر بحث جاری ہے۔ کئی لوگ ان کے کئی نکتوں پر بحث کر رہے ہیں۔ گزشتہ چار سال میں سیاسی اور صحافتی حلقے یہ شور مچاتے رہے کہ پاکستان کو ایک مکمل وزیر خارجہ فراہم کیا جائے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اِس وزارت کا چارج اُن کے پاس تھا، اور اِس حوالے سے یہ دعویٰ بے بنیاد تھا کہ کوئی وزیر خارجہ موجود نہیں۔ پاکستان قائم ہوا تو ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے خارجہ امور کی وزارت اپنے پاس ہی رکھی تھی، کچھ عرصے بعد نگاہِ انتخاب سر ظفراللہ خان پر پڑی تو لیاقت علی خان نے یہ ذمہ داری ان کو سونپ دی۔ یہ سر صاحب کئی برس یہ ذمہ داری ادا کرتے رہے، اور انہی کے ہاتھوں پاکستان کو سیٹو (اور پھر سینٹو) کی رکنیت حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنایا جا چکا تھا (اور شاید دستوریہ تحلیل بھی ہو چکی تھی) کہ سر ظفراللہ منیلا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہوئے، اور کابینہ کی اجازت کے بغیر سیٹو میں شامل ہونے کا اقرار کر کے واپس آئے... ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو وزارت خارجہ انہوں نے بھی اپنے پاس رکھی۔ اس سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ میں بھی وہ وزیر خارجہ رہے تھے، اور ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ 65ء کی جنگ سے پہلے ان کی ''وزارت‘‘ نے اپنے صدر کو یقین دلایا تھا کہ کشمیر میں جنگ بندی لائن پر جنگ چھڑ گئی تو بھی بھارت بین الاقوامی سرحد کی طرف قدم بڑھانے کی جرأت نہیں کر پائے گا۔ معصوم (عرف بدھو عرف بے دماغ) فیلڈ مارشل نے اس پر یقین کر کے کشمیر کو بذریعہ جنگ حاصل کرے کا منصوبہ بنا ڈالا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر نے 6 ستمبر سے کئی روز پہلے ترک سفارت خانے کے ذریعے اسلام آباد یہ خبر پہنچائی کہ بھارت (6 ستمبر کے لگ بھگ) پاکستان پر باقاعدہ حملہ کر سکتا ہے۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے سیکرٹری عزیز احمد نے یہ فائل دبا لی اور اپنے صدر کو اس کی ہوا نہ لگنے دی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ''آزاد روی‘‘ کا مظاہرہ کیا، اور اپنے صدر اور وزیر اعظم سے الگ اپنا راستہ بنا لیا۔ اس پس منظر میں نواز شریف کی احتیاط نے انہیں محکمے کا چارج اگر اپنے پاس رکھنے پر مجبور کیا، تو اسے یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال وزیر کے درجے کے مشیر سرتاج عزیز موجود تھے، وزیر مملکت کا مقام رکھنے والے طارق فاطمی کی خدمات بھی حاصل تھیں، اِس لیے یہ کہنا درست نہیں تھا کہ وزارت خارجہ ''یتیم‘‘ ہے، لیکن یہ بات بار بار کہی اور دہرائی جاتی رہی، یہاں تک کہ گزشتہ دِنوں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایک گفتگو میں یہ بات ''بائی‘‘ (Buy) کر لی۔
نواز شریف وزارت عظمیٰ سے الگ کیے گئے تو وزارتِ خارجہ کا تاج خواجہ آصف کے سر پر رکھ آئے... وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالا ہو گا۔ خواجہ صاحب جب سے وزیر بنے ہیں اُن کے دِل میں پاکستان کا نیا بیانیہ ترتیب دینے کا شوق تیز ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہمارے ہمسایہ ممالک اور امریکہ کو تو بہت کچھ کرنا ہی چاہئے، لیکن پاکستان کو بھی اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے، گویا اپنی سرزمین پر موجود ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کا ہاتھ روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا چاہیے۔ امریکہ پہنچ کر بھی انہوں نے یہی بات دہرائی، لیکن تاریخی حقائق ان کی نظر سے اُوجھل ہو گئے۔ انہوں نے جماعت الدعوۃ اور حقانی نیٹ ورک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا، دونوں کو امریکہ کے (سابق) لاڈلے بچے قرار دے کر انہیں پاکستان کا بوجھ (LIABILITY) قرار دیا، اور کہا کہ ان سے نمٹنے کے لیے وقت دیا جائے۔ 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجوں کی مداخلت اور نائن الیون کے بعد ہونے والے نیٹو حملے کو ایک ہی قطار میں کھڑا کر دیا، اور جہادِ افغانستان کو ''پراکسی وار‘‘ قرار دیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کے اس تاریخی شعور پر ہر اُس شخص کو صدمہ ہوا، جو گزرنے والے واقعات سے کچھ بھی واقف ہے۔ 79ء میں سوویت فوجوں کی مداخلت کے بعد افغان مزاحمت کاروں کی امداد کرنے، اور مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کا فیصلہ پاکستان کا اپنا تھا، امریکہ، چین اور دوسرے ممالک اِس میں بعد میں شریک ہوئے۔ سوویت مداخلت کے خلاف جہاد کی برکت ہی سے پاکستان 71ء کی جنگ میں بھارت کے اتحادی سوویت یونین سے حساب برابر کرنے میں کامیاب ہوا، اور اس کے ساتھ ہی اس کا ایٹمی پروگرام بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ پایا۔ اس جہاد میں افغانوں کی امداد پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے، اور اگر پاکستانی وزیر خارجہ اسے ''پراکسی وار‘‘ کہیں گے تو اہلِ پاکستان انہیں اپنی توہین ہی کا مرتکب گردانیں گے۔
جہاں تک حافظ سعید کا تعلق ہے، ان کا اور جماعت الدعوۃ کا افغان جہاد میں کوئی کردار نہیں تھا۔ انہوں نے کشمیر میں آزادی کی تحریک کے ساتھ اپنے جذبات جوڑے تھے، ان کا ذکر اسی حوالے سے ہونا چاہیے۔ ان کی عزت اور ساکھ اسی تحریک سے وابستگی کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی قوم کا بڑا حصہ انہیں کشمیریوں کے جذبہ ٔ حریت کا بے باک ترجمان سمجھتا ہے۔ ان کا نام ادب اور احترام سے لیا جانا چاہیے۔ رہا حقانی نیٹ ورک کا معاملہ تو ایک ایسے وقت میں جب وزیر خارجہ خود اپنی گفتگو میں اس حقیقت پر زور دے رہے تھے کہ افغانستان کا 45 فیصد علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے، تو پھر وہاں کسی کارروائی کی ذمہ داری پاکستان پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ حقانی نیٹ ورک کو اب پاکستان میں ٹھکانہ تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ خواجہ آصف کی اِس بات سے اصولی اتفاق کے باوجود کہ پاکستان کی سرزمین کسی ہمسایہ مُلک کے اندر کسی پُرتشدد کارروائی میں معاونت کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہئے... یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ خواجہ صاحب کے الفاظ کا چنائو انتہائی نامناسب اور غیر محتاط تھا۔ وہ گورنمنٹ کالج کے کسی مباحثے میں تقریر نہیں کر رہے تھے، وزیر خارجہ کے طور پر بین الاقوامی فورم پر اظہارِ خیال میں مصروف تھے۔ اگر وہ تاریخ، نظریے اور لغت سے بے نیاز ہو کر اظہارِ خیال کی عادت پر نظر ثانی نہیں کر سکتے تو پھر انہیں وزارت پانی و بجلی میں واپس چلے جانا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
خواجہ آصف کی اِس بات سے اصولی اتفاق کے باوجود کہ پاکستان کی سرزمین کسی ہمسایہ مُلک کے اندر کسی پُرتشدد کارروائی میں معاونت کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہئے... یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ خواجہ صاحب کے الفاظ کا چنائو انتہائی نامناسب اور غیر محتاط تھا۔ وہ گورنمنٹ کالج کے کسی مباحثے میں تقریر نہیں کر رہے تھے، وزیر خارجہ کے طور پر بین الاقوامی فورم پر اظہارِ خیال میں مصروف تھے۔ اگر وہ تاریخ، نظریے اور لغت سے بے نیاز ہو کر اظہارِ خیال کی عادت پر نظر ثانی نہیں کر سکتے تو پھر انہیں وزارت پانی و بجلی میں واپس چلے جانا چاہیے۔