آج کچھ لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا، اِس لئے چند مطبوعہ تجزیے، خبریں یا توقعات آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ان کے درمیان کوئی ربط ڈھونڈنے کی کوشش مَیں نے تو نہیں کی، لیکن اگر آپ چاہیں تو اپنے رسک پر ایسا کر سکتے ہیں۔ پہلے پڑھیے، برادر محترم ایاز امیر صاحب کے حالیہ کالم کے چند حصے۔ ان کی نظر پاکستان کی سیاست اور تاریخ پر بہت گہری ہے۔ عملی سیاست کے دریا میں بھی وہ غوطہ زن رہے ہیں، اور وہاں سے جو کچھ لائے وہ ہمیں دکھاتے اور سناتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی بات کہنے کا ایک خاص سلیقہ عطا فرمایا ہے۔ اپنی پسند اور ناپسند کے بارے میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے، اور خوب کھل کر اظہار کر گزرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ''ڈنڈے کا استعمال مگر مخمل میں لپٹا ہوا۔ باتیں منوائی جائیں مگر لبادۂ آئین اوڑھ کے۔ آئین کی ظاہرہ حکم عدولی ہرگز نہ ہو۔ فوجی ٹرکوں کو اسلام آباد کی طرف دوڑا دینا اور وہی گھسی پٹی رسم پوری کرنا‘ پہلے ٹی وی سٹیشن پر قبضہ، پھر کے بلاک (K-Block)، جو آئی بی کا ہیڈکوارٹر ہے کو محاصرے میں لینا اور پھر شام ڈھلے عزیز ہم وطنوں سے مخاطب ہونا اور بے معنی قسم کے وعدے کرنا۔ یہ ایک فرسودہ کہانی ہے، گزرے وقتوں کی داستان۔ ہمارے لیڈران تبدیل نہیں ہوئے، پرانے وقتوں میں بس رہے ہیں اور سوچ پہ تالے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن زمانہ آگے کو جا چکا ہے اور بحرانوں کے حل کے لئے نئی ترغیبات اور نئے ارادوں کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کے کرتب تو ہم دیکھ رہے ہیں۔ ان پہ تکیہ کیا جائے اور انہی پہ بات چھوڑ دی جائے تو موجودہ بحران لمبا ہوتا جائے گا۔ ...سعودی عرب میں شاہ سلمان کے ولی عہد پرنس محمد بن نائف تھے۔ وہ مرضی سے پرنس محمد بن سلمان کے حق میں دستبردار نہ ہوئے۔ رات کو بلاوا آیا، شاہ سلمان کے سامنے پیشی ہوئی، دیگر شہزادے انہیں ایک طرف لے گئے اور قائل کرنے لگے کہ ولی عہد کی پوزیشن سے دستبردار ہو جائیں۔ نہ مانے لیکن قائل کرنے کی کوشش جاری رہی۔ رات کے پہر گزرتے گئے۔ شہزادہ محمد بن نائف ذیابیطس کے مریض ہیں۔ چند سال پہلے بم حادثے میں زخمی بھی ہوئے تھے، جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ ان کا موبائل لے لیا گیا اور وہ کہیں کال نہ کر سکتے تھے۔ کہتے ہیں کہ دوا کا ٹائم آیا تو وہ بھی نہ لینے دی گئی۔ آخر مان گئے اور دُنیا نے ٹی وی پر وہ مناظر دیکھے جن میں موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان سبکدوش ولی عہد کے ہاتھ چوم رہے ہیں، اور اُن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیشہ آپ کی رائے کو قیمتی سمجھوں گا۔ چند روز پہلے کی پرج (purge) میں کئی اہم شہزادے اور سابق وزراء تحویل میں لیے گئے ہیں۔ یہ لوگ شہزادہ محمد کے مخالف سمجھے جاتے تھے، اور ان کے ہٹائے جانے سے کہا جا رہا ہے کہ ان کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہو گئی ہے۔ کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ریڈیکل (Radical) تبدیلیاں ایسے ہی نہیں آتیں۔ چیئرمین مائو کا قول تو ہم سب جانتے ہیں کہ طاقت بندوق کی نالی سے بہتی ہے۔ جنرل ڈیگال نے بھی یہی کچھ کہا کہ تلوار دنیا کی محور ہے اور اس کی طاقت حتمی ہے۔ اپنے تک ہمارے سیاست دانوں کو جو جمہوری اقدام لینے ہیں، وہ بھی نہیں لیں گے۔ ...قومی مفاد کے تقاضے شاہد خاقان عباسی خود نہ سمجھ سکیں گے۔ انہیں سمجھانے پڑیںگے۔ شہباز شریف ابھی تک اپنی خود ساختہ احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں۔ اپنے آپ کو اگلے وزیر اعظم کے رُوپ میں دیکھ رہے ہیں۔ دِل میں دھڑکا تو ہو گا کہ پردہِ سکرین کے پیچھے ماڈل ٹائون کیس اور حدیبیہ پیپر ملز والا قصہ موجود ہیں۔ ...اِس لئے شاہد خاقان کے ساتھ خادم اعلیٰ کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ تب ہی شروع ہو سکتا ہے، جب فیصلہ جہاں ہونا ہے، جنہوں نے چیئرمین مائو اور جنرل ڈیگال کے اقوال سے سبق اخذ کرنا ہے، ایسا کر دکھائیں۔‘‘
اب آیئے، آج کے اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر کی طرف کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے سے متعلق سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی گئی تھی، اُس کی سماعت سوموار سے شروع ہو گی۔ ایک اخباری کے مبصر نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ایک تین رکنی بینچ جو پیر کے روز اپیل پر کارروائی کرے گا، اس کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے ہیں جو چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج ہیں اور وہ پاناما کیس کا فیصلہ کرنے والے پانچ ججوں کے پینل کی سربراہی بھی کر رہے تھے۔ پاناما کیس میں 20 اپریل کے فیصلے کے بعد نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اَن گنت مرتبہ ان کے لئے اعتماد نہ کرنے کا اظہار کوئی راز نہیں ہے۔ پاناما کیس کی طویل سماعت کے دوران حدیبیہ پیپر ملز کیس کی ازسر نو تحقیقات کے حکم پر جسٹس کھوسہ کی رائے ان کے ریمارکس سے واضح ہو گئی تھی۔ نئے بینچ کے دیگر دونوں ججز، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے، جو پاناما پینل کا حصہ نہیں تھے۔ نیب کی جانب سے 20 ستمبر کو معزز عدالت میں اپیل جمع کرانے سے متعلق مخصوص حقائق پر نظر ڈالنا معلومات افزا ہو گا۔ 28 جولائی کے عدالت کے حتمی فیصلے میں نیب کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی، جس میں اسے لاہور ہائی کورٹ کے 11جولائی 2014ء کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لئے کہا گیا ہو۔ لاہور ہائی کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کے متعلق ریفرنس ختم کر دیا تھا۔ اس کے بجائے فیصلے میں یہ اختیار نیب پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرے، کیونکہ یہ حکم نامے کے الفاظ ''اگر اور جب‘‘ سے واضح تھا۔ 28 جولائی کے فیصلے کے پیراگراف نمبر12 میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کے وکلا کی یہ دلیل کہ جے آئی ٹی نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ کھول کر اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے، جبکہ اس کے ریفرنس کو لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا تھا، درست نہیں، کیونکہ جے آئی ٹی نے صرف اس سلسلے میں سفارشات کی ہیں، جس سے سپریم کورٹ بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے۔ نیب کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین قمر زمان کو جسٹس کھوسہ کے پانچ رکنی بینچ کے بعض ججوں کی جانب سے شدید خفگی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب انہوں نے اُنہیں صاف صاف بتا دیا تھا کہ ان کا ادارہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنے پراسیکیوٹر کی رائے کی بنیاد پر اپیل دائر نہیں کرے گا۔ اس پر ایک جج نے ریمارکس دیئے تھے کہ نیب آج مر گیا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ایک خبر شائع ہوئی، جس میں بتایا گیا تھا کہ انسداد بدعنوانی کے ادارے پر شدید دبائو ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز کیس میں شریف خاندان کے خلاف اپیل دائر کرے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ''اس ہفتے کے اوائل میں اسلام آباد کے ایک دفتر میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا، جس میں نیب کے کچھ سینئر حکام کو مدعو کیا گیا تھا۔ انہیں سرزنش کی گئی کہ نیب کیوں اپیل تیار نہیں کر رہی۔ ملاقات کی دیگر تفصیلات اور مقام بشمول وہاں موجود لوگوں کے نام ظاہر نہیں کئے جا رہے‘‘۔ نیب نے اس طرح کے کسی بھی دبائو کی تردید کی، لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ عدالت کے 28 جولائی کے فیصلے کے بعد اسے اپیل دائر کرنے میں 52 دن کیوں لگے۔
اب کراچی چلئے، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے قائد مصطفی کمال نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران، ایک ہو کر انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ فاروق ستار صاحب کے خلاف ان کی جماعت میں بغاوت ہوئی تو وہ سیاست سے دستبردار ہو گئے۔ پھر اپنی والدہ کے حکم پر واپس آئے، اور نئے جوش و جذبے سے ''مہاجر قوم‘‘ کے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کی پرانی اور نئی زندگی کے حوالے سے ایک انگریزی روزنامے کی رپورٹ یہ تھی کہ ڈی ایچ اے کے ایک سیف ہائوس میں دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کو طلب کرکے متحد ہونے کا حکم دیا گیا‘ اور تعمیل نہ ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی تھی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)