"MSC" (space) message & send to 7575

نواز شریف اور بھٹو

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کی دختر مریم کو اسلام آباد کی احتساب کورٹ نے علی الترتیب 11، اور 8 سال قیدِ سخت کی سزا سنا دی ہے۔ انہیں 165 کروڑ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا، لندن فلیٹس بھی ضبط کر لیے گئے ہیں۔ کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال کی سزا دی گئی ہے۔ نواز شریف اور مریم کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنی سزا ختم ہونے کے بعد مزید دس سال انتظار کرنا ہو گا۔ نواز شریف تو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی رو سے تاحیات نا اہل قرار پا چکے ہیں، اُن پر اِس تازہ نا اہلی کا کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا، لیکن مریم کو سترہ سال انتظار کرنا پڑے گا، تبھی وہ انتخاب میں حصہ لینے کی اہل قرار پائیں گی۔ لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے جن دو حلقوں سے وہ چند روز بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والی تھیں، وہاں اب متبادل امیدوار اُن کی جگہ لیں گے۔ اِس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل ہو سکے گی، اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی ضرورت ہوئی تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکے گا۔
احتساب عدالت کا یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے، سیاسی تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں کی بھاری تعداد کی یہی رائے تھی کہ ملزمان کو سزا ہو گی۔ تفصیل کے بارے میں تو اختلاف تھا، لیکن سزا نوشتہ ٔ دیوار لگ رہی تھی، احتساب عدالت کے فاضل جج صاحب نے کئی بار فیصلہ سنانے کا وقت بدلا، 11 بجے سے جو انتظار شروع ہوا تھا، وہ ساڑھے چار بجے کے بعد جا کر ختم ہوا۔ سوشل میڈیا پر کسی ستم ظریف نے صورتِ حال پر دلچسپ تبصرہ کیا کہ قوم کے ساتھ ساتھ جج صاحب بھی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسا بھی شاید پہلی بار ہوا کہ فیصلہ سناتے وقت اخبار نویسوں کو کمرۂ عدالت میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی، اور اس کی خبر نیب کے ایک افسر نے بڑے جوش و خروش سے قوم کو فراہم کی۔ نواز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ لندن میں ہیں۔ اپنی بیمار اور گرد و پیش سے بے خبر شریک حیات کی تیمارداری میں مصروف ہیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وطن واپس آنے کا اعلان کیا۔ اُن کی بیٹی نے بھی یہی عزم دہرایا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ وینٹی لیٹر سے اُن کی اہلیہ کو جونہی اتارا گیا، اور ان سے چند الفاظ کا تبادلہ ممکن ہوا، وہ پاکستان روانہ ہو جائیں گے، کہ وہ (جیل سے) ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ووٹ کی عزت کا جو جھنڈا انہوں نے اُٹھا رکھا ہے، اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ احتساب عدالت کے فیصلے میں نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں سزا نہیں سنائی گئی، کہا گیا ہے کہ اِس حوالے سے نیب اپنا مؤقف ثابت نہیں کر سکا، لیکن آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے جرم میں ان پر قید اور جرمانے کا بوجھ لاد دیا گیا ہے، جس طرح سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے پانامہ کا مقدمہ تھا‘ لیکن سزا اقامہ پر سنائی گئی، اِسی طرح نیب عدالت نے کرپشن کے حوالے سے جو ریمارکس دیے ہیں وہ نواز شریف کو پوری آواز سے اپنا مؤقف بیان کرنے کے لیے مہمیز دیں گے، اور عوام سے مخاطب ہو کر وہ اپنے آپ کو بے داغ کہہ سکیں گے۔ اقامہ کی بنیاد پر سزا دینے کا فیصلہ نافذ تو ہو گیا، اس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی، لیکن عمران خان بھی اُسے ''کمزور‘‘ قرار دیتے ہیں، نواز شریف کی سیاست کا چراغ اس نے بجھنے نہیں دیا۔ اب بھی اُنہیں اپنے بیانیے کو مضبوط بنانے کا موقع ملے گا، اور وہ اس کا بھرپور فائدہ اُٹھا سکیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے، نواز شریف بھی اسے سیاست کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ عمران خان اور دیگر مخالفین مختلف رائے رکھتے ہیں۔ خان صاحب کی طرح بغلیں تو دوسروں نے کم بجائی ہیں، لیکن کسی غم میں بھی مبتلا نہیں ہوئے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے جگہ جگہ مٹھائیاں تقسیم کی ہیں، بھنگڑے ڈالے ہیں، اور اپنے قائد کی اقتدا میں شاید (اِکا دُکا) نفل بھی ادا کر رہے ہیں۔
فیصلے کے قانونی پہلوئوں سے قطع نظر، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نواز شریف آج اس مقام پر ہیں جس پر 1978-79ء میں ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کا ووٹ بینک سب جماعتوں سے بڑا تھا، لیکن کسی قابلِ ذکر سیاسی یا مذہبی جماعت کے ساتھ ان کے رابطے ٹوٹ چکے تھے۔ مخالفین ان کے خون کے پیاسے تھے، مارشل لاء کے ذریعے ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو مُلک بھر میں حلوے کی اتنی دیگیں چڑھائی گئیں کہ سوجی اور چینی کی قلت ہو گئی۔ انہیں تختۂ دار پر چڑھایا گیا تو کوئی ایصال ثواب کے لیے ان کے پسماندگان کے پاس نہیں گیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان واحد سیاست دان تھے جنہوں نے تعزیت کا پیغام بھیجا... نواز شریف کے خلاف مقدمہ چلا تو ان کے مخالف مسرت کا اظہار کرتے رہے، ان کے حریفِ اوّل عمران تو براہِ راست مدعی تھے، پہلی سزا ہوئی تو تب بھی اہلِ سیاست کی زبانوں پر ہمدردی کا کوئی لفظ نہیں آیا، اب دوسری سزا ہوئی ہے، تو حریفانِ سیاست کی مسرت دیدنی ہے۔ جو خوشی کا اظہار نہیں کر رہے، اُنہیں بھی کوئی غم نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی اور اس کے مخالفوں کے درمیان محاذ آرائی کی بدولت پاکستان کو تاریخ کے طویل ترین مارشل لا کو بھگتنا پڑا، اب صورتِ حال مختلف ہے۔ دستور منسوخ یا معطل نہیں ہوا، لیکن زیر زمین جو کچھ ہو رہا ہے اُسے آنکھیں بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔ ہر ادارہ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے، لیکن پھر بھی بہت کچھ غیر معمولی ہے۔ اس کی ایک اپنی تفصیل ہے، جسے بیان کیا جاتا رہے گا... اہلِ سیاست کے لیے غور کا پہلو یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جینے کا حق دینے سے انکار کرتے ہیں تو بالآخر سب کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے۔ پاکستان قومی اتحاد جس طرح ہاتھ ملتا رہا، خدا نہ کرے کہ تحریک انصاف کو بھی کبھی ایسا پچھتاوا لاحق ہو۔ جس طرح بھٹو مرحوم اپنی تنہائی کے ذمہ دار تھے، اُسی طرح نواز شریف اور اُن کی جماعت کو بھی تنہائی کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے، جو بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار آتی ہے، اُسے اکاون فیصد کی حمایت حاصل ہو تو بھی 49 فیصد کو نظر انداز کرنے کو دانشمندی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ہمارے انتخابی نظام میں تو 30 سے 40 فیصد کے درمیان ووٹ لینے والا نشستوں کی اکثریت حاصل کر لیتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ووٹ بھی اسی کے درمیان رہا، اور مسلم لیگ (ن) بھی اسی حد میں رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مخالف متحد ہو کر (اسمبلی کے باہر) اکثریت حاصل کر لیتے ہیں۔ طرزِ حکومت اگر ایسا ہو کہ برسر اقتدار جماعت سے باہر رہنے والے اپنے آپ کو حصہ دار نہ سمجھیں تو پھر حکومت بخیر و خوبی چلائی نہیں جا سکتی۔ ہمارے ماحول میں ''ووٹ بینک‘‘ کسی اقتدار کی انشورنس نہیں بن سکتا۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر 25 جولائی کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس کے مخالف تجزیہ کار، اسے اُکسانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اور سڑکوں پر آ کر دھماچوکڑی نہ مچانے کو اس کی کمزوری قرار دے رہے ہیں، لیکن اس کی قیادت اور کارکن اس کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ لازم ہے کہ سیاست کی گاڑی کو انتخابات کی منزل تک پہنچایا جائے، تاکہ عوام کی عدالت اپنا فیصلہ سُنا سکے۔
اس میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ نواز شریف صاحب کو جلد از جلد واپس آ کر حالات کا سامنا کرنا چاہیے۔ اپنی اہلیہ کو خدا کے سپرد کر کے وہ اپنے لوگوں کے درمیان پہنچیں، تاکہ اُن کے حوصلے پست نہ ہونے پائیں۔ نواز شریف اِس سے پہلے بھی 14 سال قید، نا اہلی اور جرمانے کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار نے اُنہیں یہ تحائف دیے تھے، لیکن چند سال بعد ہی تاریخ کا رخ بدل گیا، اور وہ تیسری بار وزیر اعظم بن گئے... احتساب عدالت کا فیصلہ بھی ابتدائی ہے، انتہائی نہیں... اپیل کی عدالت، اور عوام کی عدالت پانسہ پلٹ سکتی ہیں، اس امید کے ساتھ قدم جمنے چاہئیں اور بڑھنے بھی چاہئیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں