اب تک کی خبر تو یہی ہے کہ عمران خان 18 اگست کو پاکستان کے 20ویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھائیں گے۔ اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو ان سے پیشتر 19 حضرات یہ حلف لے چکے ہیں۔ ان میں منتخب بھی تھے اور نامزد بھی۔ عبوری بھی اور دستوری بھی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان مملکتِ خدا دادِ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے، تحریک پاکستان کے (قائد اعظم کے بعد) دوسرے بڑے رہنما تھے۔ متحدہ ہندوستان کے ایک بڑے جاگیردار، جن کی جاگیر دو ضلعوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ پاکستان پہنچے تو خالی ہاتھ تھے۔ ملکیتی اراضی دیارِ غیر میں پڑی رہ گئی، دہلی میں اپنی طویل و عریض رہائش گاہ حکومتِ پاکستان کی نذر کر دی اور وہ اب بھی بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر کی رہائش گاہ ہے اور ان دنوں کی یاد دلاتی ہے جب دینے والے ہاتھ لینے والوں سے زیادہ معتبر جانے جاتے تھے، اور انہی کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عامۃ الناس اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھتے تھے۔ لیاقت علی خان کو تنخواہ پر گزارا کرنا پڑا‘ جو ہزاروں تو کیا سینکڑوں میں ہو گی۔ ان دنوں دونوں نئی مملکتوں کے باسی ایک دوسرے سے جائیدادوں کے تبادلے میں مصروف تھے۔ پاکستان اور ہندوستان سے رخصت ہونے والوں کو اس کی اجازت تھی۔ لائل پور (اب فیصل آباد) کے ایک سکھ زمیندار نے لیاقت علی خان سے رابطہ کیا کہ وہ کرنال میں اپنی زمین کے بدلے لائل پور کی ڈھیروں مربع اراضی ان سے حاصل کر لیں‘ لیکن لیاقت علی خان نے صاف انکار کر دیا۔ ان کا دو ٹوک جواب تھا: جب تک ہندوستان سے آنے والے تمام مہاجرین آباد نہیں ہو جاتے، لیاقت اپنی ''آباد کاری‘‘ کا نہیں سوچے گا۔ لیاقت بے زمین رہ گئے، ان کے پڑپوتے ابھی تک اپنی زمین کے حصول کے لئے مقدمہ لڑ رہے ہیں کہ ان کا کلیم منظور ہونے کے باوجود ان کے ہاتھ خالی رہے۔ (اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قابضین کی سنگ دلی کی یہ روح فرسا کہانی پھر کبھی بیان ہو گی)... لیاقت علی خان کو ایک سفاک شخص نے گولی کا نشانہ بنایا تو بینک میں ایک معمولی رقم ان کا ترکہ تھی۔ ان کی بیوی اور بچوں کے پاس کہیں رہنے کا گھر نہیں تھا۔ حکومت پاکستان نے انہیں سرکاری رہائش گاہ میں ایک مقررہ مدت تک رہنے کی خصوصی اجازت عطا فرمائی اور ان کی اہلیہ کا گزارہ الائونس مقرر کیا۔
لیاقت علی خان کے بعد کئی وزرائے اعظم آئے اور رخصت ہوئے، لیکن ان پر مالی بد معاملگی کا الزام نہیں لگایا جا سکا۔ خواجہ ناظم الدین ہوں یا بوگرہ۔ محمد علی ہوں یا سہروردی‘ ان کے دل ہوس سے خالی تھے۔ ایک ایک پیسے پر پہرہ دیتے۔ سرکاری اختیارات کو استعمال کر کے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ ان کے لئے ناقابل تصور تھا۔ ان کی انتظامی اور سیاسی بے تدبیریوں کی نشاندہی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کی دیانت اور امانت قابل ستائش رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ان کے مخالفین شدید نفرت کرتے تھے، جب فوجی قیادت نے ان کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو انہوں نے پورے ملک میں جشن منایا۔ حلوہ اتنی بڑی مقدار میں پکایا اور تقسیم کیا گیا کہ بازار سے چینی، گھی اور سوجی غائب ہو گئے۔ ان کی ستم رانیوں کی کہانیاں زبان زدِ عام تھیں۔ اس کے باوجود ان کی دیانت اپنی جگہ مسلم تھی۔ سرکاری وسائل یا اختیارات کے ذریعے ذاتی دولت میں اضافے کا ان پر بھی کوئی الزام نہیں لگایا جا سکا، لیکن 1985ء کے بعد جو جمہوریت بحال ہوئی محترمہ بے نظیر بھٹو اورمحترم نواز شریف ایک دوسرے کے مقابل آئے تو پھر وہ گرد اڑائی گئی کہ الحفیظ و الامان۔ ان دونوں نے (غلط یا صحیح سے قطع نظر) ایک دوسرے پر اتنی کالک انڈیلی کہ وزیر اعظم کا منصب ہی گدلا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں میاں نواز شریف نے اپنے آپ کو اُجلا ثابت کر کے میدان مار لیا... ان کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آئی ہو گی کہ ایک دن بے نظیر بھٹو کے مقام پر ان کو کھڑا کر دیا جائے گا، اور ان کی جگہ کوئی اور اپنے آپ کو اُجلا ثابت کر کے اقتدار لے اڑے گا۔
ہماری آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ واقع ہوا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے، ایک دوسرے پر پڑی ہوئی مٹی جھاڑی، لیکن وقت ہمیشہ کسی ایک مٹھی میں بند نہیں رہتا... وزیر اعظم نواز شریف اقتدار میں تھے کہ عمران خان نے ان کی صداقت اور امانت پر حملے کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سے ان کے خلاف پروانہ جاری ہو گیا۔ انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا، اور بعد میں احتساب عدالت نے انہیں قید کی سزا بھی سنا دی۔ وہ عمر بھر کے لئے کسی سرکاری یا عوامی منصب کے لئے نا اہل قرار دیئے گئے۔ یہ سب کیسے ہوا پردے کے پیچھے کیا ہوتا رہا، قانونی معاملات میں کہاں تجاوز ہوا یا کہاں نہیں ہوا‘ نواز شریف کی سزا کے پس پردہ محرکات کیا تھے، ان کا اصلی جرم کیا تھا اور سزا کس بات کی دی گئی یہ سب سوالات زیر بحث ہیں‘ اور عرصے تک رہیں گے۔ جس طرح بھٹو حکومت کو پھانسی کی سزا پر آج تک بحث جاری ہے‘ اور اس کے قانونی پہلوئوں پر بے اطمینانی کا اظہار کرنے والے آج بھی غول در غول موجود ہیں، اسی طرح نواز شریف کے خلاف فیصلوں پر بھی اظہار خیال ہوتا رہے گا... اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں، سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں... نیا پاکستان کا جو خواب انہوں نے دیکھا اور دکھایا تھا، اسے پورا کرنے کا موقع مل رہا ہے... سیاسی اور انتخابی تنازعوں سے قطع نظر ہماری خواہش ہو گی کہ عمران خان اپنے عہد پر پورا اتریں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بھی سقوط ڈھاکہ کے بعد نیا پاکستان بنانے کا اعلان کیا تھا، لیکن ان کے سات سالہ دورِ اقتدار کے بعد پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین مارشل لاء قوم کو بھگتنا پڑا۔
سقوط ڈھاکہ کے المیے کے بعد یہ بات زبان زد عام تھی کہ اب ملک پر کبھی فوج کی حکومت قائم نہیں ہو سکے گی‘ لیکن جنرل ضیاء الحق 11 سال تک اپنا ڈنکا بجاتے رہے۔ عمران خان کے حلف سے ایک دن پہلے اگست کی سترہ تاریخ ہے۔ اس روز جنرل ضیاء الحق اپنے متعدد فوجی رفقا سمیت فضائی حادثے کی نذر ہوئے تھے، تو وہ انتخابات ممکن ہوئے‘ جن کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن سکیں... جنرل ضیاء الحق کا نام آیا ہے تو یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ان کے زیرِ قیادت پاکستان نے سوویت یونین سے سقوطِ ڈھاکہ کا حساب چکایا۔ افغانستان میں روسی فوجیوں کے داخلے کے بعد انہوں نے اس کے خلاف عالمی مزاحمت کو منظم کرنے میں کردار ادا کیا، اپنی سرزمین اور وسائل افغان آزادی پسندوں کے لیے کشادہ کر دیئے۔ سوویت یونین کے دانت کھٹے ہوئے اور چند سال کے اندر اندر وہ پسپا ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سوویت یونین کا نام عالمی نقشے سے محو ہو گیا۔ یہ سب جملہ ہائے معترضہ تھے، کہنا صرف یہ تھا کہ عمران خان 18 اگست کو اپنے دور کا آغاز کریں تو انہیں 17 اگست کو بھی یاد کرتے رہنا ہو گا۔ پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں کو ملنے والا یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہئے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]