اگست کے مہینے میں یکے بعد دیگرے ہندوستان سے دو افسوس ناک خبریں آئیں۔ 16 اگست کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی چل بسے اور ٹھیک سات دن بعد کلدیپ نیئر نے آخری سانس لیے۔ دونوں حضرات نے طویل عمر پائی، اول الذکر نے 94 سال تو ثانی الذکر نے 95 سال اِس دُنیائے رنگ و بو میںگزارے۔ ایک کا میدان سیاست تھا دوسرے کا صحافت۔ لیکن دونوں کو پاکستان میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اور ان کا نام زبان پر آتے ہی دِل کو ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی۔ دونوں ہندو تھے، اور ہندوستانی بھی۔ ان کے پیش نظر ان کا اپنا مفاد رہتا تھا۔ لیکن وہ دور کی نگاہ رکھتے تھے، مستقبل میں جھانک سکتے تھے، اور پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنے کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ واجپائی 25 دسمبر 1924ء کو پیدا ہوئے تھے، گویا ان کا جنم دن وہی تھا، جو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے لیے کاتبِ تقدیر نے چُنا تھا۔ کلدیپ نیئر 14 اگست 1923ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے، یہی تاریخ پاکستان کے ظہور کی بھی ہے، گویا وہ اپنا جنم دن ہمارے پیارے وطن کے جنم دن کے ساتھ مناتے تھے۔ ان تاریخوں کے اثرات (شاید) ان کے اسلوب اور مزاج پر کچھ نہ کچھ اثر انداز ہوئے ہوں کہ ہندو جوتشیوں کے نزدیک تو پیدائش کا مقام اور تاریخ زائچہ نویسی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ واجپائی کی سیاست آر ایس ایس کے سائے میں پروان چڑھی، لیکن انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے جو پیش قدمی کی وہ تاریخ میں یاد رہے گی۔ وہ وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے، اور پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا سکّہ چل رہا تھا۔ وہ اسلام آباد آئے، تو اخبار نویسوں کے اس گروپ میں مَیں بھی شامل تھا، جس نے اُن سے کچھ تبادلہ ٔ خیال کیا۔ ان کے ٹھہرے ہوئے لہجے نے سب کو متاثر کیا تھا۔ وزیر اعظم بن کر انہوں نے اپنے مُلک کے ایٹمی پروگرام کی کامیابی کو واشگاف کرنے کا فیصلہ کیا، اور ایٹمی دھماکے کر ڈالے تو پاکستان کو بھی اپنے پروگرام سے گھونگھٹ اٹھانے کا جواز ہاتھ آ گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں جو کام پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا، ایٹمی دھماکے کر کے اس کا اعلان کر دیا گیا، اور بھارت کو یہ پیغام بھی مل گیا کہ ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ اچھی طرح یاد رہے کہ ایل کے ایڈوانی روز اشتعال انگیز بیان دیتے، اور پاکستان کو دھماکوں پر اُکساتے تھے، کہا جا رہا تھا کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو جعلی سمجھتے ہیں اور اُن کا خیال تھا کہ ایٹمی ہندوستان اب اِس خطے کی بالا دست طاقت بن چکا ہے۔ جب پاکستان نے ایٹمی اینٹ کا جواب ایٹمی اینٹ ہی سے دے دیا تو سرحد پار کے کئی بڑے بڑے دِل پکڑ کر بیٹھ گئے۔ وزیر اعظم واجپائی نے اپنے ایٹمی ہمسائے کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ٹھانی، اور دوستی بس میں بیٹھ کر لاہور پہنچ گئے۔ یہاں گورنر ہائوس میں انہوں نے جو خطاب کیا، آج بھی اُس کی گونج لاہور کی فضائوں میں سُنی جاتی ہے۔ انہوں نے مینارِ پاکستان کا دورہ بھی کیا، اور وہاں پر تاریخی فقرہ ادا کیا کہ پاکستان بھارت کی مہر سے نہیں چل رہا (وہ اپنے طور پر توانا اور زندہ حقیقت ہے)۔ ان کے اعزاز میں شاہی قلعے میں عشائیہ دیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے یہ کہہ کر مجھے ان سے ملوایا کہ یہ پاکستان کے مالک ہیں۔ انہوں نے چونک کر دیکھا تو بولے: روزنامہ ''پاکستان‘‘ ... ان کے ہاتھ کا لمس آج بھی تازہ محسوس ہوتا ہے۔
واجپائی کا کہنا تھا کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں، ہمسائے نہیں، پاکستان ہمارا ہمسایہ ہے، اور رہے گا، اس لیے اس کے ساتھ معاملات طے ہونے چاہئیں۔ ان کی اُردو نظم ''جنگ نہ ہونے دیں گے‘‘ کا بھی بڑا چرچا ہوا، اور تا دیر محفلوں میں اس کا تذکرہ ہوتا رہا... مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے، دونوں وزرائے اعظم نے اپنا ایک ایک نمائندہ پسِ پردہ مذاکرات کے لیے نامزد کر دیا، تاکہ کوئی ایسا حل تجویز کیا جا سکے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ پاکستان، ہندوستان اور کشمیری عوام میں سے کسی کو بھی شکست کا احساس نہ ہو، سب سمجھیں کہ انہیں کچھ نہ کچھ ہاتھ آ گیا ہے... لیکن کارگل کی لڑائی نے سب کچھ بھسم کر ڈالا۔ واجپائی نے علی الاعلان کہا کہ بھارتی دستور نہیں، انسانی دستور کے تحت حل دریافت کیا جائے گا۔ کارگل کے گھونسے نے وقت کو پھر پیچھے دھکیل دیا۔ اس ''وشواس گھات‘‘ پر وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی واجپائی نے کرچیوں کو اکٹھا کرنے میں مدد دی۔ آگرہ سمٹ نے دونوں رہنمائوں کو ساتھ بٹھایا، لیکن یکے بعد دیگرے ایسے واقعات پیش آئے کہ امن کا سورج گہنا گیا۔ واجپائی کا اقتدار ختم ہوا۔ من موہن سنگھ آئے، بہت کچھ طے ہوا، لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ نریندر مودی اب دہلی کے تحت پر براجمان ہیں، وزیر اعظم عمران خان مذاکرات پر آمادہ و تیار ہیں، لیکن برف کب پگھلے گی، یہ کہنا آسان نہیں ہے... واجپائی طویل علالت کے بعد اِس دُنیا سے سدھار گئے ہیں، لیکن اُنہیں یاد کیا جاتا رہے گا، جب بھی بھارت اور پاکستان قریب آئیں گے، ہوا کے ایک معطر جھونکے کی طرح وہ بھی پاس ہی محسوس ہوں گے۔
کلدیپ نیئر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ آزادی سے پہلے قانون کی ڈگری حاصل کر چکے تھے، اور اپنے آبائی وطن کو چھوڑنے پر کسی صورت تیار نہیں تھے، لیکن حالات نے اُنہیں دہلی جانے پر مجبور کر دیا۔ وہ اخبار نویس بنے، اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گئے، اُردو اور انگریزی‘ دونوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔ وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے سیکرٹری رہے، برطانیہ میں ہائی کمشنر مقرر کیے گئے، راجیہ سبھا کے رکن بھی نامزد ہوئے۔ اپنے سابقہ اور موجودہ وطن میں بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے جتن کرتے رہے۔ ان کا کالم کئی زبانوں کے درجنوں اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔ پاکستان میں بھی وہ اُردو اور انگریزی میں بیک وقت چھپتے تھے۔ یوم آزادی آتا تو سرحد پر شمعیں روشن کرتے، بھارتی مسلمانوں کے ساتھ مظالم پر بھی ان کا دِل کڑھتا، وہ سو فیصد سیکولر تھے، کئی بار دھوم دھام سے پاکستان آئے، بڑے بڑے وفود لے کر، اور خیر سگالی کا پیغام دے کر چلے گئے۔ سادگی اور منکسر المزاجی کا مظہر تھے۔ مَیں نے اپنے ماہنامہ ''قومی ڈائجسٹ‘‘ میں ان کی کتاب ''دور کے ہمسائے‘‘ (DISTANT NEIGHBOURS) قسط وار شائع کر دی۔ وہ لاہور آئے تو مجھے فون کر کے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جب میں پرل کانٹی نینٹل میں اُن کے پاس گیا تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ تم نے میری کتاب چھاپی ہے، اس کا معاوضہ ادا کرو... چند ہزار روپے مجھے اُنہیں پیش کرنا پڑے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان وہ ایک پُل تھے۔ ماضی کو انہوں نے دِل کا روگ نہیں بنایا، اس کے لگائے زخم مندمل کرنے میں لگے رہے۔ اب جنوبی ایشیا میں ان جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ وہ سو فیصد بھارتی تھے، لیکن دوہری شہرت کے حامل معلوم ہوتے تھے۔ یہاں پاکستان میں ان کا نام بار بار ''نائر‘‘ لکھا جاتا۔ وہ وضاحت بھی کرتے کہ بھائی یہ ''نیئر‘‘ ہے‘ اُنہیں پھر ''نائر‘‘ بنا دیا جاتا۔ انہوں نے اپنی جنم بھومی کو اپنے دِل سے الگ نہیں ہونے دیا۔ جو کچھ ان کی آنکھیں نہ دیکھ سکیں کیا خبر وہ ہماری آنکھوں کو نصیب ہو جائے، امن کا خواب آخر کب تک ادھورا رہے گا ؎
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)