"MSC" (space) message & send to 7575

کلثوم کا آخری احسان

محترمہ کلثوم نواز لاہور کی بیٹی بھی تھیں اور بہو بھی۔ اسی شہر میں پیدا ہوئیں۔ یہیں نواز شریف جیسا دولہا نصیب ہوا اور یہیں مٹی کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لئے سو گئیں۔ لاہور ان کا میکہ تھا اور سسرال بھی۔ انہوں نے زندگی کا بہت بڑا حصہ یہیں گزارا۔ ان کے شوہر عروج و زوال کے عجب مرحلوں سے گزرے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر یہاں جھنڈا گاڑا۔ تین بار وزیر اعظم بن کر اسلام آباد پہنچے، لیکن ایک بھی مدت پوری نہ کر سکے۔ پہلی بار صدر غلام اسحاق کے صوابدیدی اختیار کی بھینٹ چڑھے۔ دوسری بار جنرل پرویز مشرف اور ان کے ٹولے کی بغاوت نے اقتدار نگل لیا اور تیسری بار ایک ایسے عدالتی فیصلے کا لقمہ بن گئے جو ہماری تاریخ میں ہمیشہ زیرِ بحث رہے گا۔ بہت سے قانون دانوں اور سیاسی کارکنوں کی نظر میں اس کی اصابت پر سوال اٹھائے جاتے رہیں گے۔ بنیادی حقوق نافذ کرنے کے نام پر اسے بنیادی حقوق سلب کرنے کی کاوش قرار دیا جاتا رہے گا کہ ایسا فیصلہ جس میں نشانہ بننے والے کو اپیل کا حق حاصل نہ ہو بین الاقوامی اصولوں کی رو سے انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں سمجھا جاتا۔
نواز شریف ان دنوں اپنی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن صفدر کے ساتھ اڈیالہ جیل سے پیرول پر رہا ہیں۔ انہوں نے ایک قیدی کے طور پر اپنی اہلیہ کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ خود گاڑی چلا کر مولانا طارق جمیل کو جناز گاہ تک لائے۔ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے، ان کے غم میں شریک ہونے کے لئے پاکستان کے کونے کونے سے آئے تھے۔ شاید ہی کوئی شہر ہو جس کا نمائندہ یہاں موجود نہ ہو۔ ہر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ شریف میڈیکل سٹی کے وسیع سبزہ زار چھوٹے پڑ گئے تھے۔ عوام کا سمندر اس کوزے میں بمشکل سما رہا تھا۔ بہت سے لوگ میلوں دور پھنسے رہ گئے تھے کہ ان کے لئے پیش قدمی ممکن نہیں رہی تھی۔ کاروں، موٹر سائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کی گنتی کرنا ممکن نہیں تھا۔ میں ساڑھے تین بجے کے لگ بھگ جاتی امرا جانے والی سڑک پر پہنچا تو گاڑیاں چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھیں۔ شریف میڈیکل سٹی کے ساتھ واقع سوئی گیس سوسائٹی کی دیواریں توڑ کر راستے کشادہ کر دیئے گئے تھے، پارکنگ کے لئے انتہائی وسیع قطعات مخصوص تھے، جگہ جگہ رہنمائی کے نشانات بھی آویزاں تھے، لیکن آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ میرے ساتھ (ایک بڑے صنعتکار) برادرم وحید چودھری موجود تھے، ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا تو چھلانگ مار کر پیدل روانہ ہو گئے، میں یہ رسک لینے پر تیار نہیں تھا۔ جب آگے بڑھنا کسی طور ممکن نہ رہا، تو گاڑی سے باہر نکل کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ موٹر سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کو گننا ممکن نہیں تھا۔ مجھے دیکھ کر کئی بریکیں لگیں۔ گوجرانوالہ کے نوجوان محمد یاسر کی عقبی نشست کو قدرت نے خاص کر دیا۔ معلوم ہوا ارد گرد کے شہروں سے آنے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ ٹولیوں کی ٹولیاں روک رہی تھیں کہ سیلفیاں بنا سکیں۔ کہیں رکتے، کہیں چلتے، کہیں پولیس ناکے کو عبور کرتے آگے بڑھتے رہے۔ پولیس کے اہل کار پہنچانتے تو راستہ کھول دیتے۔ بالآخر اس ایمبولینس کے قریب جا پہنچے جو مرحومہ کا جسد خاکی شریف میڈیکل سٹی کے اندر لے جا رہی تھی۔ چند ہی لمحوں میں ''وی آئی پی‘‘ انکلوژر کے اندر پہنچ چکے تھے۔ یہاں سابق صدر ممنون حسین، سابق گورنر جھگڑا، مخدوم جاوید ہاشمی، سینیٹر رانا مقبول، کیپیٹل ٹی وی کے ریاض شیخ، بے باک قانون دان علی احمد کرد اور بہت سی ممتاز شخصیات پسینے میں شرابور، آگے دھکیلتے ہوئے ہجوم کے رحم و کرم پر تھیں۔ ایمبولینس میں سے جسد خاکی نکالنا ممکن نہ رہا کہ نہ کوئی قطار بن پا رہی تھی، نہ کوئی نظم قائم ہو رہا تھا۔ مولانا طارق جمیل کی آواز بلند ہوئی اور چند ہی لمحوں میں نماز جنازہ ادا کی جا چکی تھی۔ ان کی تقریر سے البتہ محروم رہے۔ انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور فضا آمین سے بھر گئی۔ ہجوم کی پیدا کردہ گرمی اور حبس نے سانس لینا دشوار کر دیا تھا، افضال ریحان اچانک نمودار ہوئے اور مجھے کھلی جگہ کی طرف دھکیلا۔ لاہور کے میئر کرنل مبشر کو اپنی گاڑی نظر آئی تو انہوں نے ساتھ بٹھا لیا۔ فرنٹ سیٹ پر غلام احمد بلور تشریف فرما تھے، ان کے پشتون محافظ بھی ارد گرد تھے۔ بصد مشکل پارکنگ ایریا کی طرف بڑھے اور دو چکر لگانے کے بعد ان کی گاڑی تلاش کی گئی، انہیں اس کے سپرد کر کے واپس روانہ ہوئے تو چیونٹی کی رفتار میں اضافہ ممکن نہیں تھا۔ چند فرلانگ کے بعد چیف رپورٹر جاوید اقبال، عمر شریف اور دیبا نظر آ گئے۔ انہوں نے اپنی تحویل میں لے لیا اور مشکل کچھ آسان ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی، گورنر سرور موجود ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جھلک بھی دکھائی دے گئی تھی۔ لیاقت بلوچ سے تو ملاقات بھی ہو گئی۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ یہ سب حضرات نواز شریف تک پہنچ پائے یا نہیں۔ ایک بات واضح تھی کہ محترمہ کلثوم نواز کو سب اپنا سمجھ رہے تھے، ان کی ملنساری، انکساری اور حسن کلام کی سب تعریف کر رہے تھے۔ نواز شریف کے ناقدوں اور مخالفوں کو بھی ان سے کوئی شکایت نہ تھی۔ ایک بڑے سابق سرکاری افسر اور انتہائی ممتاز مورخ اور دانشور ڈاکٹر صفدر محمود‘ جو شریف خاندان کے اقتدار پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں، ببانگ دہل یہ گواہی دے گزرے تھے کہ نواز شریف کی اہلیہ اور ان کے بچوں نے کبھی کارِ سرکار میں مداخلت نہیں کی تھی۔ کوئی سفارش کی نہ دبائو ڈالا، نہ رعب جمایا۔ محترمہ کلثوم نواز اردو ادب میں پی ایچ ڈی کر چکی تھیں۔ الفاظ کا چنائو ان کے وسیع مطالعے کی شہادت دیتا تھا۔ ان کے لہجے اور الفاظ میں ادب کی چاشنی موجود رہتی تھی۔ انہیں شاید ہی کسی نے غصے میں دیکھا ہو، ایک زمانے میں تو یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اپنے میاں کی تقریریں وہ لکھتی ہیں یا ان کی نظر سے گزر کر سٹیج تک پہنچتی ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد جب شریف خاندان کے مرد حوالۂ زنداں کر دیئے گئے تو میاں محمد شریف مرحوم نے اپنی بہو کو میدان میں نکلنے کی اجازت دے دی۔ ان کی جرات نے پرویز مشرف کی نیندیں اڑا دیں۔ نواز شریف سے ناراض سیاستدانوں کو ان کی اہلیہ نے منا لیا اور نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ مل کر ایک بڑے اتحاد کی راہ ہموار کی۔ جنرل پرویز مشرف نے اخباری ایڈیٹروں کی ایک میٹنگ میں یہ اعتراف کیا تھا کہ نواز شریف کو سعودی عرب بھجوانے کی ایک بڑی وجہ وہ جارحانہ دبائو تھا جو کلثوم نواز نے پیدا کر دیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے بیوی کو شوہر کے ساتھ جانے پر مجبور کیا، اور سکون کی سانس لی۔ کلثوم کو ان کے اس کردار نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب بنا دیا۔ اسی حوالے سے انہیں مادرِ جمہوریت کہا جاتا ہے۔ ان کے جنازے میں بھی یہ لاحقہ ان کے نام کے ساتھ گونجتا رہا۔ مرحومہ نے آخری ایام لندن کے ایک ہسپتال میں گزارے۔ کینسر کا موذی مرض انہیں گھیر چکا تھا۔ ان کے شوہر اور بیٹی احتساب عدالت کی تیز تر کارروائی کا سامنا کر رہے تھے، عدالت استثنا دینے پر تیار نہیں تھی۔ ان کی علالت ہی کے دوران نواز شریف، مریم اور ان کے شوہر کو سزا سنائی گئی، عدالت عالیہ کے ایک جج کے الفاظ میں ان کا جرم مفروضوں پر مبنی تھا۔ نواز شریف انہیں بستر علالت پر چھوڑ کر واپس پہنچے اور اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ اڈیالہ جیل کو مسکن بنا لیا۔ ان کے مخالف کئی سیاستدانوں اور اینکروں نے ان کی اہلیہ کی بیماری کو ڈھونگ قرار دیا اور اس کا مذاق اڑاتے رہے، لیکن مرحومہ نے جان دے کر انہیں شدید شرمندگی سے دوچار کر دیا... اور مسلم لیگ (ن) کو نئی توانائی بھی بخش دی۔ شریف خاندان کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ گھر گھر جاگ اٹھا ہے۔ کئی لوگ اس صورت حال کے ذمہ داروں کے گریبان تک پہنچنے کے لئے بے چین نظر آئے۔ یہ سانحہ اپنے اثرات کیسے کیسے اور کہاں کہاں مرتب کرے گا، اس تفصیل میں جائے بغیر یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ منوں مٹی کے نیچے دفن ہو جانے والی کلثوم نے اپنے شوہر اور بیٹی کی سیاست کو نئی زندگی بخش دی ہے۔ اسے ان کا آخری احسان کہا جا سکتاہے؎
ہاں، سینہ گلوں کی طرح کر چاک
دے مر کے ثبوت زندگی کا
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں