سیاست اور معیشت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاست کی پیدا کردہ بے یقینی معیشت کو لے بیٹھتی ہے اور معیشت کا بحران سیاست کو بنجر کر دیتا ہے۔ پاکستانی اہلِ سیاست (اور صحافت) دونوں نے معیشت کو اپنی اولین ترجیح قرار نہیں دیا، انہوں نے نعروں اور بڑھکوں کے ذریعے مقدر سنوارنے کے جو تجربے کئے، اس نے قوم کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے نجی صنعتی اداروں کو قومیانے کے نام پر جو قبضے کئے، پاکستان ابھی تک ان کے اثرات سے باہر نہیں نکل پایا۔ اگر ہمارے صنعت کاروں کو کام کرنے کا موقع ملا رہتا تو پاکستان آج جنوبی کوریا اور ملائیشیا کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ دو، تین سو ارب ڈالر کی برآمدی صلاحیت موجود ہوتی اور ساڑھے سات ارب ڈالر کے لئے کشکول اٹھا کر اِدھر اُدھر جھانکنا نہ پڑتا۔ گزشتہ تین چار سال میں جو سیاسی افراتفری اور بے یقینی پیدا کی گئی، جس جس طرح گرد اڑائی گئی اور احتساب کے نام پر جو جو طوفان اٹھائے گئے، اس کے نتیجے میں معیشت کو دھچکا لگ چکا ہے۔ سٹاک مارکیٹ بیٹھ رہی ہے۔ بلند بانگ دعووں کے غبارے پھٹ رہے ہیں، ٹوٹے ہوئے پیمانوں کی کرچیاں سنبھالی نہیں جا رہیں۔ خدا کرے کہ اہل سیاست کو کچھ عقل آئے، وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور جس طرح بحالیٔ جمہوریت کے لئے متحدہ محاذ بنانے کا شوق پالتے رہتے ہیں، اسی طرح بحالیٔ معیشت کے لئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنا گزریں۔ اہلِ صحافت پر بھی لازم ہے کہ معیشت کو جھنجھنا سمجھ کر اس سے کھیلنا بند کر دیں، جذبات میں ابال پیدا کرنے کے بجائے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کے لئے کمرِ ہمت کسنے کی طرف راغب کریں۔ مہنگائی نہ ایک دن میں پیدا ہوتی ہے، نہ ایک دن میں ختم ہو سکتی ہے۔ ڈالر مہنگا ہو گا، قومی پیداوار کم ہو گی، سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں رہیں گی، اللّے تللّے جاری رہیں گے، درآمدات پر زور رہے گا، سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا، ادارے اپنی اپنی حدود میں نہیں رہیں گے۔ اختیار کے زیر زمین مراکز بھونچال پیدا کرنے میں لگے رہیں گے تو راوی کبھی چین نہیں لکھ سکے گا۔
دنیا بھر کا معمول ہے کہ انتخابات کے بعد حالات معمول پر آ جاتے ہیں۔ برسرِ اقتدار اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ محسوس کرتے ہیں اور محروم ہو جانے والے سستانے لگتے ہیں کہ قسمت آزمانے کا موقع پانچ سال بعد ہی مل سکے گا۔ لیکن یہاں حکومت بنانے والوں کو یقین ہی نہیں آ پا رہا کہ اب ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے۔ سیاست کی سلگائی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے وہ بدستور تیل چھڑکنے میں مصروف ہیں۔ 'لیجئیو، بھاگیو، پکڑیو‘ کا شور ہے، کان پڑی آواز ابھی تک سنائی نہیں دے رہی۔ آج قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 35 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان میں ایک سے زیادہ پر کامیاب ہونے والے امیدواروں کی خالی کردہ نشستیں بھی ہیں، اور وہ بھی جہاں کسی حادثے کے سبب عام انتخابات نہیں ہو پائے تھے۔ ان انتخابات کا نتیجہ سیاست کو ایک حد تک تو ضرور متاثر کرے گا، لیکن معاملات زیر و زبر نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود بعض ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن کو سمجھنا آسان نہیں (اور آسان بھی ہے) لاہور کے حلقہ 131 میں ہمایوں اختر خان اور خواجہ سعد رفیق میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ یہاں خواجہ صاحب کو عمران خان صاحب نے چند سو ووٹوں سے شکست دی تھی۔ خواجہ صاحب اس جیت کی ذمہ داری گنتی کرنے والوں پر عائد کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر ووٹ دوبارہ گن لئے جاتے تو خان صاحب کی فتح شکست میں تبدیل ہو جاتی۔ عمران خان نے یہ نشست خالی کر دی۔ اب ان کے نمائندے ہمایوں اختر خان قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بھی یہ حلقہ اجنبی نہیں۔ انتخابات سے دو روز پہلے نیب نے خواجہ سعد رفیق، ان کے برادرِ خورد سلمان رفیق کے پاسپورٹ بلاک کرنے کی درخواست کر دی، اور ساتھ ہی یہ خبر جاری کی گئی کہ ان کا نام ای سی ایل پر ڈالا جا رہا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ نیب نے اس موقع پر یہ اقدام کیوں کیا؟ کیا اس کے لئے دو روز انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا؟ اگر نیب نے یہ حرکت کر ہی دی تھی تو پھر وزارت داخلہ تھوڑا صبر کر لیتی، اسے اتنی برق رفتاری سے کام دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ایسا (اب تک) ہو رہا ہے، جو پانی کو گدلا کرتا جا رہا ہے۔
نیب کی بات چلی ہے تو یہ بھی دیکھ لیجئے پنجاب اور سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر صاحبان (ڈاکٹر مجاہد کامران اور ڈاکٹر اکرم چودھری) کو ان کے متعدد پروفیسر رفقاء سمیت نہ صرف گرفتار کیا گیا، بلکہ ہتھکڑیاں لگا کر احتساب عدالت کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔ ان صاحبان پر بعض مبینہ بے قاعدگیوں کے جو الزامات لگائے گئے ہیں، ان سے قطع نظر دل گرفتگی کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے خلاف کوئی ریفرنس دائر کئے بغیر انہیں گرفتار کیا گیا۔ نیب حکام کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ ریفرنس دائر کرنے کے باوجود کسی ملزم کو گرفتار کریں یا نہ کریں ... کئی اصحاب کو ریفرنس پیش کرنے کے باوجود گرفتار نہیں کیا گیا۔ وہ آزاد رہ کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن بین الاقوامی شہرت کے مالک پروفیسر صاحبان کی یہ درگت شاید اس لئے بنائی گئی کہ جہالت کے نرغے میں آنے والے معاشرے میں کہیں جوں بھی نہیں رینگے گی... لیکن بھلا ہو چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہ انہوں نے اس کا نوٹس لے لیا، اور چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال بھی حرکت میں آ گئے اور ان افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جنہوں نے یہ گستاخی کی تھی... ہمیں امید ہے ان حضرات کی صرف ہتھکڑی ہی نہیں کھلے گی، بلکہ در زنداں بھی کھل جائے گا... کچھ لوگ نیب کے دائرہ اختیار سے باہر رکھے گئے ہیں تو وائس چانسلر صاحبان کو اس کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا؟ چانسلر صاحبان کی اجازت کے بغیر کسی ادارے کو ان کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں ہونی چاہیے... احتساب کے نام پر اہل علم کی بے توقیری کوئی زندہ معاشرہ کسی صورت قبول نہیں کر سکتا...!!!
ابھی ابھی میں ممتاز قانون دان اور انسانی حقوق کی عظیم محافظ عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی یاد میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں چند گھنٹے گزار کر واپس آیا ہوں۔ یہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے قانون دان اور انسانی حقوق کے علمبردار موجود تھے۔ پاکستانی وکلاء اور طلبہ بھی گنے نہیں جا سکتے تھے۔ ایسا پُرہجوم اور منظم اجتماع کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے مہمان خصوصی چیف جسٹس ثاقب نثار تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں جہاں بہت ہی خوب صورت انداز میں ''آپا عاصمہ جہانگیر‘‘ کو یاد کیا، وہیں اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے پر شدید برہمی کا اظہار بھی کیا۔ وہ اس کا سووموٹو نوٹس لے چکے ہیں، انہوں نے عاصمہ کو بھی استاد قرار دیا کہ ان سے ان کے معاصرین نے انسانی حقوق کی حفاظت کا جذبۂ فراواں حاصل کیا۔ جناب چیف جسٹس نے تالیوں کی گونج میں کہا کہ آئین کی کتاب میں درج بنیادی حقوق نمائشی نہیں ہیں، ان پر ان کی روح کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔ مقام شکر ہے کہ سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہیں اور وہاں کسی وکیل کے بغیر فریادی پہنچ سکتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس حوالے سے اقدامات یاد رہیں گے، اس معاملے میں یہ احتیاط بہرحال برقرار رہنی چاہیے کہ کسی ایک کے بنیادی حقوق کی حفاظت اس طرح نہ ہو کہ کسی دوسرے کے بنیادی حقوق متاثر ہو جائیں۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]