حاجی محمد بشیر کی زندگی طلوع و غروب اور غروب و طلوع کی ایک ولولہ انگیز کہانی ہے۔ کم و بیش نوے سال اِس دُنیا میں گزار کر وہ یہاں سے رخصت ہوئے ہیں، تو ہزاروں افراد نے اُنہیں اپنی دُعائوں کے ساتھ الوداع کہا ہے۔ لاہور کی خوش حال بستی ماڈل ٹائون کے بی بلاک کی وسیع جامعہ مسجد کا صحن اُس وقت چھوٹا پڑ گیا جب نمازِ عصر کے بعد اُن کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی۔ معیشت، سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد اُن کے آخری دیدار کے لئے امڈے چلے آئے تھے۔ وہ کوئی سیاسی لیڈر تھے نہ مذہبی رہنما۔ بڑے ادیب تھے، نہ خطیب۔ اُن کا شمار چوٹی کے دانشوروں میں ہوتا تھا نہ اُنہیں علم و فضل کا پہاڑ کہا جا سکتا تھا‘ لیکن اُن کی زندگی میں بہت کچھ ایسا تھا، جسے یاد رکھنا اور جس کی پیروی کرنا کامیابی کی دلیل بن سکتا ہے۔ بحیثیتِ قوم ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دے سکتا ہے اور ہمارے قومی کاسۂ گدائی کو توڑ سکتا ہے۔ ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی لذّت سے آشنا کر سکتا ہے اور کھوکھلے نعروں کے بھنور سے نکال سکتا ہے۔
حاجی صاحب کی جولاں گاہ، معیشت کا میدان تھا۔ وہ ایک صنعت کار تھے، سرمایہ کار تھے، وسائل سے مالا مال تھے، کروڑوں کیا اربوں میں کھیلتے تھے، لیکن یہ سب کچھ کسی نے ان کے صحن میں لا نہیں ڈالا تھا۔ نہ ان کی کوئی لاٹری نکلی تھی، نہ انہوں نے کوئی بانڈ تڑوایا تھا۔ وہ ایک عام سے کاروباری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی کہ حالات و واقعات نے اُنہیں کاروبار میں اُلجھا دیا۔ اُن کے والد اور بھائی چمڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ والد کے انتقال کے چند ہی برس بعد فیصلہ کیا گیا کہ لاہور سے نقل مکانی کر کے کلکتے میں ڈیرہ جمایا جائے۔ وہاں لیدر ٹینریز کی گنجائش بہت تھی۔ 1946ء میں ان کا خاندان سب کچھ بیچ کر وہاں پہنچ گیا۔ آبائی دکان اور مکان بیچ ڈالے۔ وہاں کارخانہ لگایا ہی تھا کہ تقسیم کا بگل بج گیا۔ فسادات شروع ہوئے تو سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ کارخانے کا کوئی گاہک نہ تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ اسے اس کے کارکنوں کے سپرد کر دیا جائے، وہ بے چارے جو کچھ ان کا دے سکتے تھے، انہوں نے جمع کر کے نذر کیا، اور لاکھوں کی جگہ ہزاروں وصول کر کے، کارخانہ اپنے کارکنوں کے نام بیع کرا کر لاہور واپس پہنچ گئے۔ اب بھائیوں نے الگ الگ قسمت آزمانا شروع کی۔ نوجوان بشیر کپڑے اور چمڑے کا کاروبار کرتے کرتے اکبری منڈی پہنچے، اور یہاں چاول اور دالوں کی ہول سیل کا کام شروع کر دیا۔ بڑھتے بڑھتے اپنی فلور ملز کا خواب دیکھنے لگے، اور بالآخر اُسے بنا گزرے۔ یہ کاروبار اُن کو خوب راس آیا، وہ ''بابائے فلور ملز‘‘ کہلانے لگے، اور فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین منتخب کر لئے گئے۔ وہ اپنی دھن میں آگے بڑھ رہے تھے، بڑے بھائی محمد رفیق اشرفی کو انہوں نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اشرفی مرحوم جماعت اسلامی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے تھے۔ انہوں نے شرط لگائی کہ کاروباری ضروریات کی وجہ سے ان کی جماعتی سرگرمیوں کو محدود نہیں کیا جائے گا، اور مزید یہ کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ملازم بن کر کام نہیں کریں گے، انہیں ''ورکنگ پارٹنر‘‘ بنایا جائے۔ حاجی بشیر نے یہ دونوں شرائط منظور کر لیں اور اپنی محنت اور دیانت میں اپنے بھائی کی محنت اور دیانت کو بھی جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حاجی رفیق اشرفی کی اپنی ایک شخصیت تھی۔ 1970ء کے انتخابات سے پہلے اسلام اور سوشلزم کی جنگ زوروں پر تھی۔ ''ایشیا سبز ہے، اور ایشیا سرخ ہے‘‘ کے نعرے برسر پیکار تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ''سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کا نعرہ لگائے ہوئے تھے، اگرچہ اسلام ہمارا دین، اور جمہوریت ہماری سیاست کا سائبان بھی انہوں نے حاصل کر رکھا تھا، تاہم ان کے مخالف سوشلزم کو لادینیت کا ایک پرتو قرار دینے میں کامیاب تھے۔ بھٹو مرحوم اور ان کے ذہین رفقا نے سوشلزم کا ترجمہ مساواتِ محمدی کر کے عوام کو مٹھی میں رکھنے کا بندوبست کر لیا۔ رفیق اشرفی مرحوم چھوٹے چھوٹے فقروں میں با معنی باتیں کہہ جاتے تھے۔ ایک دن ملاقات ہوئی، تو وہ کہنے لگے: بھائی یہ لوگوں نے اسلامی نظام کا کیا شور مچا رکھا ہے، ریل کا نظام، ٹریفک کا نظام، عدالتوں کا نظام، دفتروں کا نظام، تعلیمی اداروں کا نظام، درست کر لو تو سارا نظام درست ہو جائے گا۔ یہی اسلامی نظام ہو گا۔ ان کے صاحبزادے خلیق ارشد اس وقت اپنے دوست نعمان بٹ کے ساتھ مل کر ڈیموکریٹک یوتھ فورس بنائے ہوئے تھے، اور نعرۂ تکبیر ایک خاص ردھم کے ساتھ لگا کر دِلوں کو گرماتے تھے۔ ان کے نعروں کی شدت تو کم نہ ہوئی، لیکن رفیق اشرفی صاحب کے چٹکلے سوچ کے دروازے کھولنے پر لگے رہے۔
ان دِنوں حاجی بشیر کو ہم حاجی رفیق اشرفی کے بھائی کے طور پر جانتے تھے، لیکن رفتہ رفتہ ان کی شخصیت سے تعارف ہوتا گیا، تو ان کے اوصاف نے دِل میںگھر کر لیا، کاروباری ہنر میں وہ یکتا تھے، ٹھنڈے لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے، اور اپنے ہم نشینوں میں بھی اپنے آپ پر اعتماد کرنے کا جذبہ بیدار کر دیتے۔ بھٹو صاحب برسر اقتدار آئے، تو ان کے ''سوشلزم‘‘ نے یوں پَر پُرزے نکالے کہ نجی صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لے کر ان پر اپنے کارندے بٹھا دیئے۔ سوشلزم دُنیا میں جہاں بھی آیا ہے، اس نے بڑی زمینداریوں اور جاگیروں کو ختم کیا ہے۔ اس ذریعہ ٔ پیداوار سے نبٹنے کے بعد صنعتوں کا رخ کیا گیا، لیکن بھٹو صاحب اور ان کے رفقا خود بڑے جاگیردار اور زمیندار تھے، اس لیے انہوں نے زراعت میں ''انقلاب‘‘ لانے کے بجائے صنعتوں کا حلیہ بگاڑنے کا پروگرام بنایا، اور انہیں ہڑپ کرتے چلے گئے۔ اگر پاکستانی صنعت پر یہ قاتلانہ حملہ نہ ہوتا تو آج ہم جنوبی کوریا اور ملائیشیا سے کہیں آگے ہوتے، لیکن کوتاہ اندیش قیادت اپنی آنے والی نسلوں کو بھی کنوئیں میں دھکیل گئی۔ اس فیصلے کے اثرات سے پاکستانی معیشت اب تک نجات حاصل نہیں کر سکی، اور نہ کر سکے گی کہ مینوفیکچرنگ کا شعبہ تباہ ہونے سے پاکستان برآمدات کی دُنیا میں تہی دست ہو گیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج پاکستانی کاریں، ٹرک، اور جہاز تک دُنیا بھر میں دوڑ رہے ہوتے۔ بھٹو صاحب کا صنعت خوری کا شوق اس درجہ بے لگام تھا کہ انہوں نے 1976ء میں فلور ملوں اور چاول چھڑنے کے کارخانوں کو بھی قبضے میں لے لیا۔ اس طرح اپنے پائوں پر کلہاڑا مارا کہ گندم اور چاول کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہزاروں افراد ان کے خلاف صف آراء ہو گئے اور 1977ء کی انتخابی مہم میں اپنے وسائل ان کے خلاف جھونک دیے۔ یہی مہم بالآخر ان کے اقتدار کے خاتمے کا ذریعہ بن گئی۔ ہمارے حاجی بشیر صاحب بھی اپنے کاروبار سے ہاتھ دھو کر، پھر خالی ہاتھ تھے۔ انہیں ایک اور ہجرت کا سامنا تھا۔ انہوں نے اپنے اللہ سے لو لگائی، اُس کے گھر کا رُخ کیا، دُعائیں مقبول ہوئیں۔ بھٹو اقتدار کا خاتمہ ہوا تو فلور ملوں اور چاول چھڑنے کے کارخانوں کو ان کے مالکان کو لوٹا دیا گیا، یوں حاجی بشیر ایک بار پھر طلوع ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے کاروبار کو بہت وسعت دی، وہ دو بڑے صنعتی گروپوں کے سربراہ بن گئے۔ پولٹری، اور فوڈ کے شعبوں میں کمال دکھایا۔ ایک تعلیمی ٹرسٹ قائم کر کے شیخوپورہ میں دو بڑے تعلیمی ادارے بھی قائم کیے۔ دہشت گردی کی وبا پھیلی تو انہیں بھی ایک گروہ نے ''اغوا‘‘ کر لیا، بصد مشکل رہائی نصیب ہوئی، لیکن انہوں نے اپنے اعصاب قابو میں رکھے۔ اُن کے صنعتی اور تعلیمی ادارے سرگرم عمل ہیں، اور ان کی اَن تھک زندگی کی یاد دِلا رہے ہیں ؎
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)