"MSC" (space) message & send to 7575

مردہ باد کا ’’تمغہ‘‘

پاکستانی سیاست، عسکریت، عدالت اور صحافت میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے، جس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ کارٹون بنائے جا سکتے ہیں۔ ناٹک رچائے جا سکتے ہیں، لیکن ہر چوٹ ایسی نہیں ہوتی کہ جس کے اثرات فوراً ظاہر ہو جائیں، ایسی بھی نہیں ہوتی جس کی علامات فوراً دیکھنے میں آ جائیں، ان چوٹوں میں کئی دِل کی چوٹوں جیسی ہوتی ہیں کہ جو دِل کے ساتھ ساتھ رہتی ہیں، جب تک دِل دھڑکتا ہے، چوٹیں بھی بے چین کیے ر کھتی ہیں، یہاں تک کہ دِل کو ساتھ لے کر را ہی ٔ ملک ِ عدم ہو جاتی ہیں ؎
دِل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا مَیں نے تمہیں یاد کیا
پاکستانی تاریخ ایسے حوالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ واحد معاملہ ہے کہ جس میں ہم خود کفیل ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ سیاست کی ابتری ام الامراض ہے۔ سیاست قابو میں رہے تو ہر شے قابو میں رہتی ہے۔ اہلِ دِل سیاست کو جسدِ قومی میں دِل کے مصداق گردانتے ہیں کہ یہ خون پمپ کر رہا ہو تو پھر سارے اعضا حرکت میں رہتے ہیں، اور حسبِ ضرورت برکت سے لطف انداز ہو سکتے، یا لطف اندوز کر سکتے ہیں۔ اگر دِل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جائیں تو پھر کہیں بھی ترتیب نہیں رہتی ؎
مجھے ڈر ہے دِل زندہ کہیں تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے ترے جینے سے
پاکستان قائم ہوا تو اس کے پاس اللہ کا دیا کافی کچھ تھا، لیکن تربیت یافتہ سیاسی رہنما بہت کم تھے۔ مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت کی جدوجہد اس کی تخلیق کا باعث بنی تھی، لیکن یہ ایک منظم سیاسی جماعت سے زیادہ ایک تحریک تھی... مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ... اس کی اپیل ہر مسلمان کے لیے تھی، ہر مسلمان کی اس کو ضرورت تھی، اور اس نے اپنے آپ کو ہر مسلمان کی ضرورت بھی بنا ڈالا تھا۔ مسلمان خواہ جاگیردار ہو، یا کاشت کار، سرمایہ دار ہو یا محنت کار، نادار ہو یا مالدار، گورا ہو یا کالا، پنجابی ہو یا بنگالی، سندھی ہو یا پشتون، مدراسی ہو یا بہاری، لیفٹسٹ ہو یا رائٹسٹ، مولوی ہو یا ملحد، داڑھی والا ہو یا کلین شیو، محلات کا مالک ہو یا فٹ پاتھ پر سونے والا، کلمہ گو ہونے کے ناتے ایک قوم سے تعلق رکھتا تھا، مسلم لیگ اس کی جماعت تھی، اور اس نے پاکستان کو اس کی منزل بنا ڈالا تھا... ماریں گے، مر جائیں گے، پاکستان بنائیں گے۔
دو نئی مملکتوں میں ڈھل جانے والے برصغیر کی تحریک آزادی کے دوران تبادلۂ آبادی کی کوئی تجویز زیر بحث نہیں آئی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کو مسلمانوں اور ہندوئوں (اور دوسرے غیر مسلم باشندوں) کے لئے خاص نہیں ہونا تھا۔ دونوں میں اکثریتی مذہب کے خلاف عقیدہ رکھنے والوں کو موجود رہنا تھا۔ ان کی شہریت پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ دونوں ممالک میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہونا تھے، دونوں حکومتیں ان کی ضامن تھیں، لیکن تقسیم کے موقع پر فسادات پھوٹ پڑے، اور دونوں ممالک کے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کو گھر بار چھوڑنا پڑا۔ ہماری نو زائیدہ مملکت پر آبادی کے تناسب سے مہاجرین کا دبائو بہت زیادہ تھا۔ ہندوستان کو تو بنی بنائی اور جمی جمائی حکومت مل گئی تھی۔ پنڈٹ نہرو آزادی سے پہلے ہی وزیر اعظم کا منصب سنبھال چکے تھے۔ ''پنڈٹ مائونٹ بیٹن‘‘ بھی پہلے سے گورنر جنرل تھے، لیکن پاکستان کا دارالحکومت بھی نیا تھا، اور حکومت بھی۔ دفتر نہ فرنیجر، افسر نہ اہلکار... بنیاد سے عمارت کو کھڑا کرنا تھا، سو درختوں کے نیچے بیٹھ کر اور ببول کے کانٹے، کامن پن کی جگہ کاغذات کو لف کرنے کے لئے استعمال کر کے نظم و نسق استوار کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔ قائداعظم کی بیماری نے انہیں نڈھال کر رکھا تھا، لیاقت علی خان انتظامی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں لگ گئے، مسلم لیگ کے پہلے کنوینر چودھری خلیق الزمان نے اپنی بساط بچھانے کی بساط بھر کوشش کی، لیکن تحریک کو جماعت میں ڈھالنا آسان نہ تھا۔ جن سرکاری افسروں نے مملکت کے انتظامی ڈھانچے کو دن رات ایک کر کے تعمیر کیا، وہ اپنے آپ کو ریاست کا سرپرست اور محافظ سمجھنے کے ''زعم‘‘ میں مبتلا ہو گئے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کوئی عوامی رہنما موجود نہ تھا، روزمرہ کے امور نمٹانے والے سیاست کار باقی رہ گئے۔ معاملات ان کے ڈھیلے ڈھالے ہاتھوں سے نکل کر افسروں کے ہاتھ میں آتے چلے گئے اور یوں افسر (یا نوکر) شاہی کی بنیاد مضبوط ہوتی گئی۔
بے وردی سول سروس مست ہو گئی تو، وردی والوں نے جگہ سنبھال لی... وہ دن جائے، آج کا آئے اہل سیاست کی گرفت میں سیاست آئی نہ حکومت۔ اگر کسی کے قبضے میں کچھ آیا بھی تو اس نے افسر بن کر معاملہ کیا، افسری دکھائی، مدبر بن کر سیاست کے پودے کی آبیاری نہ کر پایا۔ نتیجہ یہ کہ جن کے زندہ باد کے نعرے لگتے تھے، وہ بالآخر مردہ باد ہو کر اقتدار سے رخصت ہوئے، اور بہت کچھ کو مردہ کر گئے۔ ایوب خان کا کروفر دیدنی تھا، لیکن آج ان کا ذکر معروضی انداز میں کرنے والے کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ انہیں قومی اتفاق رائے (بصورت دستور) توڑنے کا مجرم (بلکہ اس روش کا بانی) قرار دے کر ان کا ذکر حقارت سے کیا جاتا ہے۔ پاکستانی عدلیہ کے دبنگ سربراہ جسٹس منیر اپنے علم و ہنر کی بنا پر ممتاز تھے، ان کی قانونی مہارت کی دھوم تھی۔ رعب اتنا کہ چڑیا پَر نہیں مار سکتی تھی، انہوں نے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کے لیے جاری کیے جانے والے گورنر جنرل کے فرمان کو غیر آئینی قرار دینے سے انکار کر کے محلاتی سازشوں سے سمجھوتہ کیا، تو تاریخ کے مجرم قرار پا گئے۔ جسٹس منیر اگر آج زندہ ہو کر آ جائیں اور دیکھ لیں کہ ان کا عدالتی تکبر کس طرح خاک میں مل چکا ہے، تو صدمے سے فوراً دوبارہ فوت ہو جائیں۔ توہین عدالت کا کوئی نوٹس ان کی حفاظت کے لیے موجود ہے، نہ ان کی عزت بحال کرنے کے کام آ سکتا ہے۔
پاکستانی صحافت ایک زمانے میں آزادی کے لیے مصروف جہد تھی۔ اس پر پہرا بٹھانے والے مطمئن و مسرور تھے، لیکن وقت نے ثابت کر دکھایا کہ لوگوں سے حقائق چھپا کر ریاست کو طاقتور نہیں بنایا جا سکتا... پاکستانی ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی تو اس کی ایک بڑی وجہ صحافت پر پابندی ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ منطق کہیں تسلیم نہیں کی جاتی کہ اگر جرم کو چھپا لیا جائے تو اس کے ارتکاب کے اثرات نہیں ہوں گے، یعنی غلاظت پر چادر چڑھا دی جائے تو وہ پھولوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گی... میڈیا کا منظر اب بہت بدل چکا ہے۔ پرنٹ سے الیکٹرانک اور وہاں سے سوشل میڈیا نے دُنیا کو کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ پلک جھپکنے میں خبر اور تصویر پوری دُنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا تو ایک گمنام حملہ آور ہے کہ پرنٹ ڈکلیریشن کے بغیر اور الیکٹرانک لائسنس کے بغیر خود کو آشکار نہیں کر سکتا۔ سوشل میڈیا ایک پبلک ٹائلٹ ہے جہاں جو چاہے رفع حاجت کر لے۔ ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی عناصر نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ان کے تنخواہ دار (زیر زمین) جتھے الزام و دشنام کی بوچھاڑ کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ افسانہ گھڑنا اور اسے حقیقت کے طور پر پھیلا دینا ان کے بائیں ہاتھ نہیں ایک انگلی کا کھیل ہے۔ اس فن کے موجدین اب اس سے جانا چھڑانا چاہتے ہیں۔ آج یہ ان کے اقتدار کا خون پی رہا ہے، کل جنہوں نے اس کے ذریعے اپنے حریفوں کا خون کیا تھا۔ اب اسے زیر کرنے کے لیے کھچڑیاں پکائی جا رہی ہیں۔ فرمائشیں اور نصیحتیں کی جا رہی ہیں، حرف مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کی حرمت کے علم بردار اس سے اختلاف نہیں کرتے، لیکن صیاد کو اپنے ہی جال میں پھنسا دیکھ کر مسکرانے کا حق تو رکھتے ہیں۔
پاکستانی ریاست کا حال اور ماضی دیکھ کر مستقبل کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایک بات جو کل درست تھی، آج بھی درست ہے، اور آنے والے کل کو بھی درست ہو گی، وہ یہی ہے کہ ہر ایک کو اپنا اپنا کام کرنا ہو گا۔ دوسروں کے کام کو اپنے سر منڈھنے والے آج زندہ باد تو ہو سکتے ہیں، کل ان کا کِیا دھرا مردہ باد کا مستحق ہی ٹھہرے گا... کہ دِل کے مریض کی سرجری کر گزرنے والے انجینئر کو مریض کے لواحقین کم از کم اسی ''تمغے‘‘ سے نواز سکتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں