دسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے، 1971ء کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ ایک بار پھر یہ موضوع زیر بحث آ جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کیسے بنایا گیا؟ اس سوال کا کوئی ایک سطری جواب ممکن نہیں ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سازشوں اور حماقتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس نے مملکت خداداد پاکستان کو دولخت کیا، لیکن بد قسمتی سے حقائق کی تہہ تک پہنچنے کا نعرہ لگا کر حقائق کو مسخ کرنے کا عمل جاری ہے۔ بنگلہ دیش نے سرکاری طور پر یہ موقف اپنا لیا ہے کہ 1971ء میں فوجی کارروائی کے دوران تیس لاکھ افراد کو تہ تیغ کیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ باقاعدہ قانون بنا دیا گیا ہے جس کے تحت تیس لاکھ کا یہ عدد جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ جو شخص اس بارے میں شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا یا مقتولین کی اس تعداد کو مصدقہ نہیں سمجھے گا، اسے حوالۂ زنداں کر دیا جائے گا۔ دنیا بھر میں یہ اعداد و شمار پھیلا دیئے گئے ہیں اور مسلسل ان کی گردان جاری ہے۔ گزشتہ دنوں دو اہم کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر جنید احمد کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے جو ''بنگلہ دیش کی تخلیق، فسانے اور حقائق‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر جنید کی انگریزی کتاب دو سال پہلے شائع ہوئی تھی، لیکن اردو قالب میں ڈھل کر وہ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ ڈاکٹر جنید نے بھارتی اور بنگلہ دیشی مصنفوں اور دستاویزات کا حوالہ دے کر حقائق واضح کرنے کی انتہائی کامیاب کوشش کی ہے۔
دوسری کتاب ''بچھڑ گئے‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوئی ہے جو ریٹائرڈ کرنل زیڈ آئی فرخ کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان کیپٹن کے طور پر ان کا تقرر ڈھاکہ میں ہوا، جنگی قیدی بن کر بھارتی قید کا مزا چکھا اور اب انہوں نے اپنے مشاہدات کو تحریری شکل دی ہے۔ اس سے بھی تاریخ کو سمجھنے اور مستقبل کی صورت گری کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر جنید نے پاکستانی فوج پر 30 لاکھ بنگالیوں کے قتل کے الزام کا انتہائی محققانہ جائزہ لیا ہے۔ ان کی یہ کاوش اس قابل ہے کہ ایک ایک شخص تک پہنچے۔ دل تھام کر ملاحظہ فرمایئے چند اقتباسات تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ افسانہ کیسے گھڑا اور کس طرح پھیلایا گیا۔
تیس لاکھ افراد کی ہلاکتوں کے مفروضے کی داستان کی ابتدائی حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 1971ء میں روسی اخبار پراودا (Pravda) نے اپنے 23 دسمبر 1971ء کے اداریئے بعنوان ''دشمن کا قبضہ‘‘ (Enemy Occupation) میں یہ لکھا کہ 1971ء کی جنگ میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً تیس لاکھ ہے۔ اس کے بعد جلد ہی یہ خبر بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ میں آ کر وہاں گردش کرنے لگی اور بنگلہ دیش میں اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اس تعداد کو مجیب کی توثیق کے بعد‘ جو انہوں نے 18 جنوری 1972ء کو معروف برطانوی صحافی ڈیوڈ فروسٹ (David Frost) کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کی، بڑے پیمانے پر صحیح مان لیا گیا۔ مجیب نے ایک سوال کے جواب میں زور دیتے ہوئے کہا تھا: تیس لاکھ افراد مارے گئے ہیں جن میں بچے، عورتیں، دانشور، کسان، مزدور اور طلبہ شامل ہیں۔
اس اطلاع کے ذرائع کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مجیب نے یہ بھی کہا تھا: میرے یہاں (بنگلہ دیش) آنے سے قبل میرے لوگوں نے معلومات جمع کرنا شروع کر دی تھیں۔ ان تمام علاقوں سے پیغامات آنے شروع ہو گئے تھے، جہاں میرے گڑھ ہیں۔ ہم نے حتمی طور پر ان معلومات کو مکمل طور پر اکٹھا نہیں کیا ہے‘ یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے لیکن یقینی طور پر یہ تعداد تیس لاکھ سے کم نہیں ہو گی۔
برطانیہ میں بی بی سی کے بنگلہ پروگرام کے سابق نائب سربراہ سراج الرحمن نے 24 مئی 2011ء کو گارجین اخبار کو ایک خط میں لکھا کہ 8 جنوری 1972ء کو میں شیخ مجیب الرحمن سے ان کی پاکستان سے رہائی کے بعد ملنے والا پہلا بنگلہ دیشی تھا۔ اس دن میں نے اور دوسروں نے انہیں جنگ کے بارے میں پوری صورت حال سے آگاہ کیا‘ اور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہلاک شدگان کی صحیح تعداد حاصل نہیں ہو سکی ہے لیکن مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر اندازہ ہے کہ اس میں کوئی تین لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ مجھے اس وقت سخت حیرت اور اچنبھا ہوا جب مجیب نے بعد میں ڈیوڈ فروسٹ کو یہ بتایا کہ پاکستانی فوج نے میرے تیس لاکھ بندوں کو ہلاک کیا ہے۔ یا تو اس نے لاکھ کا غلط ترجمہ ملین (Million) کیا تھا یا اس کی ذہنی انتشار کی کیفیت اس کی ذمہ دار تھی جس کا مجھے علم نہیں لیکن بہت سے بنگلہ دیشی اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تیس لاکھ افراد کی ہلاکت والی تعداد غیر حقیقی اور نا قابل یقین ہے۔
مجیب کی حکومت نے 29 جنوری 1972ء کو ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جو بارہ ارکان پر مشتمل تھی‘ اس میں مندرجہ ذیل حضرات شامل تھے:
٭ مسٹر خورشید عالم، ایم سی اے کو میلا
٭مسٹر محمود حسین خان، ایم سی اے بوگرا
٭مسٹر عبدالحفیظ، ایم سی اے جیسور
٭مسٹر جلال الدین میاں، سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس
٭مسٹر محمد علی، ڈپٹی سیکرٹری وزارت، زراعت
٭ مسٹر ٹی حسین، سپرنٹینڈنگ انجینئر
٭ مسٹر محی الدین، ڈائریکٹر برائے سرکاری ہدایات
٭ ڈاکٹر مبارک حسین، ڈپٹی ڈائریکٹر صحت
٭ ونگ کمانڈر کے ایم اسلام، بنگلہ دیش ایئرفورس
٭ مسٹر ایم اے حئی، ڈپٹی سیکرٹری وزارت داخلہ
اس تحقیقاتی کمیٹی سے 30 اپریل 1972ء تک اپنی رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا۔ اپنی حتمی رپورٹ میں یہ کمیٹی مبینہ تیس لاکھ کی انتہائی مبالغہ آمیز تعداد کو صحیح ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو اس ضمن میں جو حتمی مسودہ پیش کیا گیا اس میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد چھپن ہزار سات سو تنتالیس بتائی گئی تھی۔ جب اس مسودہ کی ایک نقل مجیب کو پیش کی گئی تو وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گیا‘ مسودے کی نقل کو فرش پر پٹخ دیا اور یہ کہا: ''میں یہ اعلان کر چکا ہوں کہ تیس لاکھ افراد مارے گئے اور تمہاری یہ رپورٹ تین لاکھ افراد کی تعداد تک بھی نہ پہنچ سکی۔ تم نے یہ کیسی رپورٹ تیار کی ہے؟ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو۔ میں جو ایک مرتبہ کہہ چکا ہوں، وہی صحیح ہے‘‘۔ بعد میں جنوری 1972 میں بغاوت کے دوران مارے جانے والوں کے وارث خاندانوں کے لئے ایک زر تلافی کا منصوبہ تشکیل دیا گیا‘ جو دو ہزار ٹکا فی کس تھا۔ یہ کوشش بھی تیس لاکھ افراد کے مارے جانے کے مفروضہ کو صحیح ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ بنگلہ دیش کی وزارت مالیات کے مطابق دعوے کی بہتر ہزار درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے پچاس ہزار گھرانوں کو ہلاک شدگان کا زر تلافی ادا کیا گیا۔
مذکورہ بالا سارے حوالے مبینہ تیس لاکھ کی حد سے زیادہ مبالغہ آمیز تعداد پر کئے گئے اعتراضات کو صحیح ثابت کرتے ہیں۔ یہ مبالغہ آمیز بیان بنگلہ دیشی حکومت کا محض ایک پروپیگنڈا تھا تاکہ متحدہ پاکستان سے علیحدگی کے لئے ہندوستان کی حمایت یافتہ سازش کو صحیح ثابت کرنے کا جواز فراہم کیا جا سکے؛ چنانچہ اب جنگِ آزادی کے تردیدی جرائم کا ایکٹ نافذ کیا گیا ہے تاکہ تیس لاکھ کی جھوٹی داستان اور مفروضے کو جائز ثابت کرنے کو قابل یقین بنایا جا سکے۔ ان قوانین کی تشکیل سے حسینہ واجد کی حکومت کی مخالفت کو بالکل برداشت نہ کرنے کی فطرت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)