"MSC" (space) message & send to 7575

رسوائی کا سامان

پلوامہ حملے کے بعد بھارتی حکومت اور میڈیا کی طرف سے جو طوفان اٹھایا گیا تھا، اور پاکستان کو دبائو میں لانے کے لئے جو آگ اُگلی گئی تھی، اس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ عالمی طاقتوں نے بھارت کے واویلے پر اس طرح کان نہیں دھرے جس طرح وہ چاہ رہا تھا۔ صدر ٹرمپ سے لے کر پیوٹن تک مذاکرات کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ چین سے لے کر ترکی اور سعودی عرب تک پاکستان کے سارے دوست اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے یک آواز ہو کر بھارتی گولہ باری کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنا گھر درست کرنے کے لئے تیز تر اقدامات کئے ہیں۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، اور ان کی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کا تاثر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے نشری پیغام میں بھارت کو جب یہ پیش کش کی کہ وہ پلوامہ معاملے کی کسی بھی طرح کی تحقیقات کرانے کے لئے تیار ہیں تو بھارتی حکومت کوئی واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گئی۔ بھارت کے بعض سیاسی اور سماجی رہنمائوں اور مقبوضہ کشمیر کے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے اہم سیاستدانوں نے اپنا موقف کھل کر بیان کیا ہے اور بھارتی حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کر کے فضا میں اعتدال پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حکومتی جماعت کے زیر سرپرستی انتہا پسند عناصر بھارت بھر میں کشمیری باشندوں پر حملے کر رہے ہیں اور کشمیری طالب علموں کے لئے حصول تعلیم کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جموں میں فسادات برپا کئے گئے ہیں، اور ہزاروں مسلمان مسجدوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کو اس صورت حال کا نوٹس لینا پڑا ہے، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو براہ راست احکامات دیئے گئے ہیں کہ وہ شہریوں کی جان اور مال کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔
بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، اور مقبوضہ کشمیر کو جس طرح ایک پر تشدد جیل خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اس نے دنیا بھر کو احساس دلایا ہے کہ پاکستان ہی کو نہیں‘ بھارت کو بھی اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تو چند انتہا پسند ہی کہیں کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے ہوں گے لیکن بھارت میں تو یہ سر عام دندناتے پھر رہے ہیں، اور پاکستان سے انتقام کے نام پر خود اپنے سماج کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسے تقسیم کر رہے ہیں اور ایسی آگ لگا رہے ہیں، جو بالآخر ہندوستانی ریاست کی چتا بن سکتی ہے، اور اس کے سارے آدرش اور بلند بانگ دعوے بھسم ہو کر رہ سکتے ہیں۔
پلوامہ حملہ پاکستانی سرحد سے بہت دور ہوا، اس میں جو بارودی مواد استعمال کیا گیا وہ وہی تھا جو بھارتی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے زیر استعمال ہے، خود کش حملہ آور (عادل ڈار) مقبوضہ کشمیر ہی کا باشندہ تھا، اور بھارتی ظلم و ستم سے تنگ آ کر جان پر کھیل گیا تھا۔ بھارت کو معلوم ہونا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد اب کسی خارجی مداخلت کی محتاج نہیں رہی۔ وہاں کا ایک ایک گھر مورچہ اور ایک ایک شخص آزادی کی فوج کا سپاہی بن چکا ہے۔ اب گالی اور گولی سے نہیں میٹھی بولی سے کام لیا جائے گا تو معاملات سلجھیں گے‘ جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکے گا۔ کشمیر کے مسئلے کو دبایا جا سکتا ہے نہ لٹکایا جا سکتا ہے۔ اسے حل کرنا پڑے گا۔ عادل ڈار نے جو راستہ اپنایا ہے، کشمیر کے نوجوان اس پر چل نکلے تو پورا بھارت غیر محفوظ ہو جائے گا۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اس میں پاکستان کو حیران کر دینے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں؛ البتہ پاکستانی فوج اس کو ضرور ششدر کر کے رکھ دے گی۔ ان کی پریس کانفرنس کا ایک ایک لفظ توجہ طلب ہے۔ انہوں نے سپاہیانہ بے خوفی کے ساتھ ساتھ مدبرانہ اظہار خیال کی ایک مثال قائم کی ہے، اور حقیقت کو اس طرح کھول کر رکھ دیا ہے کہ اس پر کان نہ دھرنے والے اپنی قبر خود کھود لیں گے۔ ان کے شاندار اظہار خیال کو ہر پاکستانی کو ازبر کر لینا چاہئے، اور بار بار دہرا کر اطمینان قلب کا سامان کرنا چاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چیلنج کی اس گھڑی میں پاکستانی قیادت نے جرأت اور حکمت کی اچھی مثال قائم کی ہے اور مطلع پر چھائے ہوئے گہرے بادل چھٹ سے گئے ہیں، اداروں اور طاقتوں کو پاکستان کا موقف بہترین انداز میں پہنچا دیا گیا ہے۔ افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے پاکستان کی مساعی نے بھی دنیا کو اس کی سنجیدگی اور صداقت کا احساس کرنے پر مجبور کیا ہے، لیکن ہمارے سیاسی اور فوجی قائدین کو ملک کے اندر کئے جانے والے سیاسی ڈراموں کی طرف ضرور متوجہ ہونا چاہئے یہاں اہل سیاست کے خلاف جس انداز میں کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس سے داخلی استحکام متاثر ہو گا۔ صرف یہ کہہ کر حالات کو سنبھالا نہیں دیا جا سکے گا کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے... اس کے پاس کسی کو بھی گرفتار کرنے، اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے جو وسیع تر اختیارات ہیں، اگر ان کو احتیاط کی لگام نہ دی گئی تو خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی کو جس انداز میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا، اور جس طریقے سے ان کے گھر کی تلاشی لی گئی، اس نے انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ آغا صاحب کے خلاف کسی متعین الزام کی نشاندہی ابھی تک نہیں ہو سکی۔ ان کی وزارت کو ختم ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اس سے متعلقہ اداروں میں اب چھاپے مار کر ان کے خلاف ''ریکارڈ‘‘ اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے، اور پوچھا جانا چاہئے کہ کسی شخص کو حراست میں لینے کے بعد اس کے خلاف شواہد اکٹھا کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ پھر یہ بھی کہ برسوں پہلے کے کسی مسئلے پر کارروائی کرنے کے لئے جو وقت چنا گیا، وہ قوم کو لڑانے اور بھڑانے کا نہیں، اسے اکٹھا اور یک جا کرنے کا ہے، ''ٹائمنگ‘‘ کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لینا بھی ان سب پر لازم ہے، جو اس ریاست کے حوالے سے کسی بھی قسم کی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں... ایسی کارروائیوں کا بھرم عدالتوں میں بھی کُھلتا چلا جا رہا ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف پر دو مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ ان کو ہفتوں نیب کی حوالات میں رہنا پڑا۔ ان کی ضمانت کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بنچ نے جو فیصلہ لکھا ہے اسے ہر اس ادارے اور ہر اس شخض کو بغور پڑھنا چاہئے، جو پاکستان کو محفوظ اور مضبوط بنانے کی آرزو رکھتا ہے۔ بد عنوانی یا کرپشن کا کوئی الزام نہ ان پر لگایا جا سکا نہ ثابت کیا جا سکا، لفظی بھول بھلیوں کے ذریعے اختیارات کے ناجائز استعمال کا معاملہ بنانے کی کوشش کی گئی جس میں منہ کی کھانا پڑی۔ اربوں کی کرپشن کا الزام لگانے والے میڈیا کارندوں اور برسر اقتدار جماعت کے رہنمائوں کی آنکھیں اگر اب بھی نہ کھلیں تو پھر کبھی نہیں کھل سکیں گی۔ ان کو بھی اپنے اس اندھے پن کی سزا بھگتنا ہو گی۔
وطن عزیز کو ناقابل تسخیر بنانے اور رکھنے کے لئے قومی اتحاد بھی ضروری ہے، اہل سیاست کی یک جائی بھی لازم ہے۔ فردِ واحد کی حکومت اور فرد واحد کی عدالت کے نتائج تو ہم بھگت چکے ہیں، فرد واحد کی احتسابی آمریت کے مزے چکھنے پر بھی مجبور رکھا گیا تو پھر ہم سب کو ہاتھ سر پر رکھ کر رونے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ آئینِ پاکستان کے خلاف بنائے گئے قوانین اور ضابطے رسوائی کا سامان تو کر سکتے ہیں۔ اونچائی کا نہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا ‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان ‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں