"MSC" (space) message & send to 7575

تقریر کے لیے تالیاں

وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے اُٹھے، تو کروڑوں پاکستانیوں کی نظریں بھی ٹی وی سکرینوں پر لگ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں کوئی فائل تو کجا کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا، نہ ہی سمارٹ فون دکھائی دے رہا تھا کہ اس ہی کی سکرین سے استفادہ کر لیا جائے۔ وہ سٹیج پر پہنچے تو کاغذ کا کوئی ٹکڑا نکال کر سامنے بھی نہیں رکھا کہ جس پر پوائنٹس ہی لکھے ہوں، اور وہ ان کی مدد سے اپنی بات کو نکتہ وار آگے بڑھا سکیں۔ مجھ سمیت بہت سے پاکستانیوں کے دِلوں کی دھڑکنیں رُک سی گئیں۔ یا الٰہی خیر، ہمارے وزیر اعظم عالمی اجتماع سے فی البدیہہ خطاب کرنے جا رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین میں سے کئی نے اِس پر یوں اطمینان کا سانس لیا کہ کوئی نہ کوئی ''بونگی‘‘ ماری جائے گی، اور یوں کچھ نہ کچھ کیے کرائے پر کچھ نہ کچھ پانی پھر جائے گا یا پھیرا جا سکے گا۔ خان صاحب کے حامیوں، بلکہ عشاق میں سے کئی کے دِل بھی دھک دھک کر رہے تھے۔ ان میں سے کئی پڑھ پڑھ کر سکرینوں پر پھونک رہے تھے کہ خیر گزرے، اور عمران خان اپنی زندگی کے اِس بڑے امتحان سے بھی بخیر و خوبی گزر جائیں۔ ان کی تقریر میں کوئی جھول نہ آنے پائے، اور ان کے لفظوں میں سے کوئی بے محل نہ ہونے پائے۔ یوں وہ قطب مینار پر چڑھتے چڑھتے پھسل سکتے، بلکہ گر بھی سکتے تھے اور ان کی سیاست کی ہڈی بوٹی ایک ہو سکتی تھی کہ زبان دراز مخالفین ان کے لّتے لینے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔
گزشتہ کئی روز سے ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری کالموں میں یہ بحث چل رہی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان جنرل اسمبلی سے فی البدیہہ خطاب کریں گے، یا لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر سنائیں گے یا نوٹس کی مدد سے بات آگے بڑھائیں گے۔ نکتہ دانوں میں اِس بات پر قریب قریب اتفاق رائے تھا کہ تقریر لکھی ہوئی ہونی چاہیے یا کم از کم تفصیلی نوٹس تیار کیے جانے چاہئیں کہ خان صاحب بعض اوقات ایسے الفاظ استعمال کر گزرتے ہیں، مخالفین جن کو بنیاد بنا کر ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ ان کے لفظوں کا موازنہ ان کے حریفوں سے کرنے لگتے ہیں، اور ان میں سے اپنی اپنی مرضی کے مطالب نکال کر لّتے لینے کو قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ عمران خان کے کسی بھی ''لوز بال‘‘ (Loose Ball) نے ان کو کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں پہنچایا، اور وہ رد عمل نہیں ہو پایا، جو کسی دوسرے سیاست دان کے ادا کردہ ایسے ہی الفاظ پر برپا ہو جاتا یا ہو سکتا تھا۔ اسے عمران خان کی خوش قسمتی بھی کہہ سکتے ہیں، اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ابھی ان سے بے تاب دِلوں کی امیدیں ٹوٹی نہیں ہیں! اس لیے وہ ان کو الائونس دیتے چلے جاتے، اور ان کے سراپا سے دِل بہلاتے یا یہ کہیے کہ دِل لگاتے چلے جاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی اس عمومی خواہش کہ... تقریر لکھی ہوئی ہونی چاہیے... کے ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے آن کھڑی ہوئی تھی کہ عمران خان تو لکھی ہوئی تقریر کر ہی نہیں سکتے۔ آج تک ان کو کسی ایسی حرکت میں مبتلا ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ اُردو پڑھنے میں تو انہیں دِقت ہوتی ہی ہے، انگریزی پڑھ کر بولنا بھی ان کی سرشت میں نہیں۔ وہ جب سے میدانِ سیاست میں آئے ہیں، بے تکان بولتے چلے جا رہے ہیں۔ آج تک اُنہیں لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہوئے نہیں پایا گیا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ خان صاحب ایک قادر الکلام خطیب ہیں۔ بعض اوقات تقریر سے پہلے تیاری کرتے پائے گئے ہیں۔ نوٹس بھی لیتے اور مختلف اہلِ دانش سے تبادلۂ خیال کرنے پر بھی یقین رکھتے رہے ہیں، لیکن وہ نکتوں اور پیروں کو جذب کر کے مجمعے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قائل ہیں اور عادی بھی۔ اِس لیے لکھی ہوئی تقریر پڑھنا ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کی داد دیجیے کہ انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں دو ٹوک پیش گوئی کر ڈالی تھی کہ جو ہو سو ہو عمران خان کی تقریر فی البدیہہ ہو گی۔ اس اندازِ تخاطب کے اپنے فوائد ہیں، اس طرح آپ کی بات مخاطب کے دِل میں کھب جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، دِل سے نکلنے والے الفاظ براہِ راست سننے والے کے دِل میں ترازو ہو جاتے ہیں۔
سو، وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا، عمران خان فی البدیہہ بولے، اور بولتے ہی چلے گئے۔ جنرل اسمبلی میں تقریر کے لیے عام طور پر 15 منٹ مقرر ہوتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے پہلے مقررہ وقت ہی میں اپنی بات سمیٹ لی تھی۔ ہندی میں بولے، لیکن ان کی تقریر بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ تھی۔ بھارت میں سننے والے بھی سٹپٹا گئے۔ انہیں کچھ مزہ نہیں آیا۔ مودی سہمے سہمے، ڈرے ڈرے سے لگے۔ کشمیر کا نام تک زبان پر لانے کی جرأت نہ کر سکے۔ پوری وادیٔ کشمیر کو محاصرے میں لینے کا جواز نہ بتا سکے۔ اَسی لاکھ کشمیریوں کو کم و بیش دو ماہ سے گھروں میں نظر بند رکھنے کے لیے لگائے گئے کرفیو کے حق میں کوئی دلیل نہ لا سکے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا داغ اپنے چہرے سے دھونے کی کوئی کوشش نہ کر سکے۔ مودی جب تقریر کر رہے تھے، تو اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے ہزاروں کشمیری، سکھ، پاکستانی اور ہندوستانی ان کا سیاپا کر رہے تھے، ان کے اصلی چہرے کی جھلک دُنیا بھر کو دکھا رہے تھے۔ مودی کی تقریر کوئی تاثر چھوڑے بغیر ختم ہو گئی۔ ان کی ہندی بھی ان کے کسی کام نہ آئی تھی، ان کے حق میں کسی نے کوئی تالی نہ بجائی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان بے تکان بولے، اور اپنی بات دلیل اور منطق کے ساتھ آگے بڑھاتے چلے گئے۔ کچھ ایسی باتیں بھی کہیں جن کا محل نہیں تھا، طوالت بھی پکڑ لی، جو پسندیدہ نہیں ہوتی کہ بین الاقوامی فورمز میں کم سے کم الفاظ میں اپنی بات مکمل کرنا کمال سمجھا جاتا ہے۔ اِس کے باوجود انہوں نے بڑی مہارت اور گرفت کے ساتھ سلسلۂ کلام آگے بڑھایا۔ امت کے مسائل سے لے کر کشمیر کی رودادِ الم تک ایک ایک بات کھول کر بیان کی۔ اسلام کے ساتھ دہشت گردی کو منسلک کرنے کا بودا پن واضح کیا۔ پیغمبر اسلامؐ سے مسلمانوں کی محبت اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ بھارتی حکمرانوں کی فکری اساس سے پردہ اُٹھایا۔ آر ایس ایس کے ہٹلر اور نازی ازم سے فکری تعلق کو بے نقاب کیا۔ بھارت میں برپا نسل پرستی اور مسلمان اور عیسائی دشمنی کی تصویر دکھائی۔ کشمیر کے مسئلے کے حل پر زور دیتے ہوئے خوب صورت انداز میں اپنی بات ایٹمی جنگ کے خطرے تک لے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرفیو اٹھے گا، لوگ باہر نکلیں گے تو 9 لاکھ بھارتی فوج ان پر تشدد کرے گی، کشت و خون ہو گا، تو پلواما جیسے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ بھارت میں بسنے والے مسلمان مشتعل ہو سکتے ہیں، پاکستان کیا دُنیا بھر کے مسلمانوں پر رد عمل ہو سکتا ہے۔ سات گنا بڑا ملک اپنے ہمسایے پر چڑھ دوڑا تو وہ سرنڈر کرنے کے بجائے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ عالمی ضمیر کو انہوں نے خوب اچھی طرح جھنجھوڑا کہ بھارت کی ایک ارب سے زائد کی منڈی کے مقابلے میں انسانیت کو نہ بھولو۔ انسانیت کا ساتھ دو، کشمیر کو اس کا حقِ استصواب دو۔ عمران خان کی تقریر کے دوران جنرل اسمبلی کی گیلریوں میں بھی تالیاں گونجتی رہیں، اور پاکستان کے گھر گھر میں بھی۔ سننے والے داد دینے پر مجبور تھے۔ دُنیا پر اثرات کیا ہوں گے، وہ رکھیے ایک طرف، کشمیر اور پاکستان میں اطمینان اور اعتماد کی ایک نئی لہر دوڑ گئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان کے لیے، اور ان کی تقریر کے لئے، بھرپور تالیاں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں