مولانا فضل الرحمن کے ''آزادی مارچ‘‘ کا آغاز تو کم و بیش دو ہفتے بعد ہونا ہے، لیکن اس کا تذکرہ ''مومینٹم‘‘ (Momentum) پکڑ رہا ہے، یا یوں کہیے کہ اس میں ''زورِ حرکت‘‘ پیدا ہو رہا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز کا تو یہ پسندیدہ موضوع ہے ہی، اخباری صفحات بھی اس سے بھرے پڑے ہیں۔ اس کے مخالف حامیوں سے زیادہ پُر جوش ہیں۔ وزرائے کرام کو اس کا تذکرہ مرغوب ہے، حکومتی حلقوں سے قریبی تعلق رکھنے والے یا قریبی تعلق پیدا کرنے کی خواہش رکھنے والے اس پر اظہارِ خیال فرضِ اولین سمجھتے ہیں، اور تو اور ہمارے پیارے مفتی عبدالقوی بھی میدان میں اُتر چکے ہیں۔ اپنے وزیر اعظم کی حفاظت کے لیے فقہی نکتوں کا انبار لگا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے لتّے لے رہے ہیں، اور غضب ناک لہجے سے انہیں بھسم کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کو قوی یقین ہے کہ جس طرح قندیل بلوچ کا مقدمۂ قتل ان کا بال بیکا نہیں کر سکا، اسی طرح دھرنا نشین بھی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، اور اپنے بھائی بندوں کو عمر قید کی سزا دلوا کر منہ چھپاتے پھریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اول اول تو چیلنج بھرے انداز میں للکارا جا رہا تھا۔ انہوں نے بنفسِ نفیس حضرت مولانا کو پیغام دیا تھا کہ تاریخ پر قائم رہنا، اسے بدلنا نہیں۔ لیکن اب نیم دِلی سے یہ خبر جاری کرائی گئی ہے کہ کوئی مذاکرات کا خواہش مند ہو تو آ جائے۔ حکومت نے دروازے بند نہیں کیے۔ براہِ راست دعوت تو اگرچہ اب بھی نہیں دی گئی، لیکن دروازے کھلنے کی بات کر کے ایک قدم پیچھے بہرحال ہٹا لیا گیا ہے۔
پاکستان کیا، پورے جنوبی ایشیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی تحریک چلانے کی بات ہوئی ہے، اہلِ اقتدار کے کان کھڑے ہوئے ہیں، اور انہوں نے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ کامیابی ہوئی یا نہیں، مکالمے سے بہرحال انکار نہیں کیا گیا۔ پاکستان کا اقتدار جن کے ہاتھوں میں ہے، وہ ایسی کسی کوشش پر یقین نہیں رکھتے یا اسے کمزوری سمجھتے ہیں۔ اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف مضحکہ خیز کارروائیاں جاری ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں قید کاٹ رہے ہیں کہ احتساب عدالت سے ان کو باقاعدہ سزا سنائی جا چکی ہے۔ ان کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ برسوں پرانے کسی قضیے کا کھڑاک رچا کر ان کے ''جسمانی ریمانڈ‘‘ کی درخواست لئے نیب نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ ایک بار پھر انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔ بڑے بڑے قانون دان سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ جیل سے نکال کر کسی ملزم کو تفتیشی ادارے کے سپرد کیسے کر دیا گیا؟ جیل جا کر تفتیشی افسر مطلوبہ پوچھ گچھ کیوں نہ کر سکے؟... بعض تجزیہ کاروں نے اس حرکت میں یہ برکت تلاش کر لی ہے کہ نواز شریف صاحب سے بات چیت کے لیے انہیں جیل سے باہر لایا گیا ہے لیکن اہلِ قانون کی حیرانی کم نہیں ہوئی۔ رانا ثناء اللہ کے مقدمے کی تفصیلات جوں جوں سامنے آ رہی ہیں، ماضی اپنے آپ کو دہراتا نظر آ رہا ہے۔ سنتا جا شرماتا جا۔ ان کے خلاف شواہد پیش کرنے کے بجائے وفاقی وزارتِ قانون نے انسداد منشیات عدالت کے جج کو تبدیل کرا دیا، آج تک نیا جج مقرر نہیں کیا جا سکا۔ اسے معاملے کو لٹکانے کی دانستہ کوشش قرار نہ دیا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ریفرنس ابھی تک پیش نہیں ہو سکا۔ کئی ہفتوں سے وہ قید ہیں، اور ڈنکے کی چوٹ اپنی کسی بد عملی کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔ سرکاری افسروں کو وعدہ معاف گواہ بنا کر جو کچھ کھڑا کیا جا رہا ہے، جب عدالت پہنچے گا تو دھڑام سے گر سکتا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ نیب کی فتوحات بھی حیران کن ہیں، اور اس نے بہت سے لٹیروں کو قابو کیا ہے، اور ان سے بھاری رقوم بھی برآمد کی ہیں، لیکن جہاں تک سیاسی رہنمائوں کے معاملات کا تعلق ہے، ان میں سے کئی کے بارے میں تفصیلات اضطراب انگیز ہیں۔ تکنیکی نکتوں پر الزامات کے انبار لگائے جا رہے ہیں، اور سیاسی عمل گدلا رہا ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کو احتساب عدالت تو جس بھی نیت کے تحت لایا گیا ہو، مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کو اس سے نئی توانائی مل گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں جو کنفیوژن موجود تھا، وہ ٹی وی کیمروں کی مدد سے دور کر دیا گیا ہے۔ کلامِ شاعر، بزبان شاعر سننے کو مل گیا ہے۔ نواز شریف صاحب نے مولانا کے آزادی مارچ کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے، اس میں بھرپور شرکت کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے مختلف ذمہ دار مختلف باتیں کہہ رہے تھے۔ شہباز شریف کی کمر درد پر بھی کانا پھوسیاں ہو رہی تھیں۔ مخالف تو دھڑلّے سے الزام تراشی میں مصروف تھے، سرگرم حامی بھی شکوک میں مبتلا تھے، انہیں بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ کمر درد نے واقعی ان کے صدر کو چارپائی سے اُٹھنے نہیں دیا، اور وہ اپنے قائد سے ملنے جیل نہیں جا سکے۔ شہباز شریف اس آزمائش سے یوں محفوظ ہوئے کہ نواز شریف کو خود میدان میں آنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے تحریری ہدایات اپنے برادر خورد کو بھجوانے کا اعتراف بھی کر لیا، گویا شہباز شریف کا بوجھ ہلکا ہو گیا:
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
پیپلز پارٹی کے تیور بھی بدل رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا لہجہ مختلف ہو گیا ہے۔ ان کی ہچکچاہٹ دور ہو رہی ہے۔ سنا ہے آصف علی زرداری بھی بھرپور شرکت کی ہدایات جاری کر چکے ہیں۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے خود اسلام آباد جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاجروں سے لے کر ڈاکٹروں تک حکومت کے خلاف غصہ نکالنے کے لیے تیار ہیں، اور ''آزادی مارچ‘‘ میں شرکت کے اعلانات کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے مل کر اپنی حمایت کا یقین دِلا رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے ''آزادی مارچ‘‘ میں بڑی سیاسی جماعتوں کی شرکت کے بعد نظری بحثیں کم ہو گئی ہیں۔ دستور اور جمہوریت کے حوالے سے اس کا جائزہ لینے کی بحث دھیمی پڑ چکی ہے کہ جب معاملات سڑکوں پر طے کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے، تو پھر مجلسوں کے نکتے سمٹ کر رہ جاتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اثرات خود بخود سمٹ جائیں گے۔ خوش نما نعروں کے نتائج ماضی میں جس جس طرح برآمد ہوتے رہے، اس سے سیاست اور تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی حامی جماعتوں نے گزشتہ انتخابات میں سو فیصد ووٹ حاصل نہیں کئے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام اور ان کے حلیفوں کے ووٹ ملائے جائیں تو وہ کسی صورت کم نہیں ہوں گے۔ جمہوریت میں 51 فیصد نشستیں لینے والے حکومت قائم کرنے کا حق تو حاصل کر لیتے ہیں، لیکن انہیں ایسی حکومت قائم کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا، جو اپوزیشن کے وجود سے انکار کیے رکھے۔ جمہوریت کی گاڑی صرف حکومت کے پہیے پر نہیں چلتی، حزبِ اختلاف کا پہیہ بھی ضروری ہوتا ہے، لازم ہے کہ ہوش سے کام لیا جائے، سیاست کو سڑکوں پر آنے سے روکا جائے۔ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے، پاکستان کی معیشت پر رحم کھایا جائے، اسے ایک بار پھر بے یقینی کی دلدل میں نہ دھکیلا جائے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آ پا رہی کہ تاجروں اور صنعت کاروں کو بڑی تعداد میں ''اذنِ باریابی‘‘ دے کر ان کی شکایات سنی جا سکتی ہیں، اور ان کے ازالہ کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا جا سکتا ہے، تو اہلِ سیاست کو سننے والے کان فراہم کیوں نہیںکیے جا سکتے؟ ان کے دِل پر ہاتھ کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)