اسلام آباد پہنچ کر آزادی مارچ، ایک بڑے جلسے میں تبدیل ہو گیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے چوٹی کے رہنما بھی مولانا کی آواز سے آواز ملانے پہنچ گئے۔ شہباز شریف نے دھواں دھار تقریر کی، اور جو جو کچھ وزیر اعظم عمران خان کو کہہ سکتے تھے، کہہ گزرے۔ پتھر دِل، مغرور، خالی دماغ۔ بلاول بھٹو زرداری‘ جن کے بارے میں ان کے ترجمان بار بار دھمکی دے رہے تھے کہ جلسہ جمعہ کو ہو گا تو وہ نہیں آ سکیں گے کہ ان کا دورہ رحیم یار خان طے ہے، انہوں نے وہاں جلسے سے خطاب کرنا ہے اس لیے مولانا کے ''دھرنے‘‘ میں وہ جمعرات ہی کو اپنے الفاظ دھر کر چلے جائیں گے، دورہ منسوخ کرنے پر مجبور ہو گئے کہ مخدوم احمد محمود کی برکت سے رحیم یار خان تو گھر کی مرغی ہے، جب چاہیں گے اس کا انڈا فرائی کر لیں گے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سامعین کی بھاری تعداد سے متاثر ہو کر بلاول دوسری مرتبہ آئے، اور مولانا کے ساتھ جم کر کھڑے رہے۔ شہباز شریف نے تو تقریر کی، اور یہ جا وہ جا۔ بے چارے احسن اقبال صفائیاں پیش کرتے رہے کہ چھوٹے میاں کو بڑے میاں صاحب کی بیماری کی وجہ سے لاہور جلد پہنچنا تھا، اِس لیے رُک نہ سکے۔ برادرِ عزیز احسن اقبال ماشاء اللہ اپنا قد کاٹھ رکھتے ہیں۔ ان کا ماضی کمٹ منٹ، اور تسلسل سے مالا مال ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے تو اسی کے ہو رہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا، نہ دائیں بائیں جھانکا۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل کے طور پر وہ اپنے صدر کی صفائیاں پیش کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ وہ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل ہیں‘ صدر مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری نہیں، ان کی وضاحتیں اور صفائیاں پیش کرنے کا کام اگر عزیزم عطاء اللہ تارڑ کے پاس رہنے دیں تو اپنے وقت کا بہتر مصرف تلاش کر سکیں گے۔ بہرحال شہباز شریف آندھی کی طرح آئے اور بگولے کی طرح چلے گئے۔
بلاول مولانا کے محیرالعقول مجمع کے اسیر ہو چکے تھے‘ سو بندھے کھڑے رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، سردار ایاز صادق، احسن اقبال اور ان کے رفقا مل کر اپنے صدر کا خلا پُر کرنے میں لگ گئے۔ بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام کے حریفِ اول محمود خان اچکزئی کے پائوں بھی ڈگمگائے نہیں، کندھے سے کندھا ملائے کھڑے رہے۔ اسفند یار ولی رات ہی کو جلسے سے خطاب کر کے لوٹ گئے تھے، لیکن میاں افتخار نے ان کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ مولانا انس نورانی اپنے جلیل القدر والد کی یاد دِلاتے رہے کہ پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے نو ستاروں میں وہ نمایاں تر تھے۔ پی این اے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف بننے والا انتخابی اتحاد تھا‘ جس میں نو جماعتیں شامل تھیں۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور احمد اس کے دوسرے سیکرٹری جنرل تھے۔ وہ اب اِس دُنیا میں نہیں رہے۔ انہیں جمعیت علمائے پاکستان کے رفیق باجوہ ایڈووکیٹ کی جگہ چنا گیا تھا۔ پی این اے کی بنیاد رکھی گئی تو صدارت مولانا مفتی محمود کے حصے میں آئی، جبکہ سیکرٹری جنرل کی کرسی جمعیت علمائے پاکستان کے باجوہ صاحب کی خدمت میں پیش کی گئی۔ وہ بلا کے مقرر تھے، کاٹ دار فقرے بولتے اور دِلوں میں گھر کر لیتے۔ رات بھر جلسوں سے خطاب جاری رہتا، کلمے کا ورد کرتے اور کراتے چلے جاتے۔ پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی کہ چپکے چپکے ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کر گزرے۔ یہ خبر بجلی بن کر گری، ان کو منصب اور سیاست دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کی جگہ پروفیسر عبدالغفور احمد نے سنبھال لی۔ نہ باجوہ صاحب اِس دُنیا میں رہے، نہ پروفیسر صاحب۔ جمعیت علمائے پاکستان بھی مولانا نورانی میاں کے انتقال کے بعد دو تین حصوں میں بٹ چکی‘ لیکن انس نورانی اپنے باپ کی تصویر بنے، ان کی سیاست کو زندہ رکھنے کی تدبیر کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے، وہ تازہ اتحاد سے غائب ہے۔ اس افق کا یہ ٹوٹا ہوا تارا اب سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں مہِ کامل بننے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ نو ستاروں میں مسلم کانفرنس بذریعہ سردار عبدالقیوم بھی نمایاں تھی۔ مسلم کانفرنس کا بڑا سرمایہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) نے لوٹ لیا۔ سردار عبدالقیوم راہیٔ ملکِ عدم ہو گئے۔ ان کے فرزندِ ارجمند سردار عتیق احمد خان اپنی جماعت کی باقیات سمیٹے تحریک انصاف کے اتحادی ہیں‘ اور حسبِ توفیق عمران خان صاحب کی تقریروں سے کشمیر بنے گا پاکستان کا جذبہ برآمد کرتے رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی نو رکنی رہبر کمیٹی میں خاکسار تحریک کے رہنما اشرف خان بھی شامل نہیں کہ وہ بھی کئی ساتھی ستاروں کے ساتھ آسمان پر پڑائو ڈال چکے ہیں۔ اور تو اور نوبزادہ نصراللہ خان ہیں نہ ان کی پاکستان جمہوری پارٹی۔ نوابزادہ کا بلاوا بھی ملکِ عدم سے آ چکا۔ ان کی پارٹی پر ان کے بیٹے منصور علی خان نے اپنا حق جتایا، اور اسے گھر میں ڈال لیا۔ پھر اسے تحریک انصاف میں ضم کر کے بھول گئے۔ اب تحریک انصاف اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو بھول چکے ہیں۔ ان کے ایک بھائی نوابزادہ افتخار برادرم چودھری خادم حسین کی اطلاع کے مطابق پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے۔ اس دِل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔
مولانا مفتی محمود کی جگہ تو مولانا فضل الرحمن نے اچھی طرح سنبھال لی ہے، لیکن ان کے ستارے اپنے ہیں۔ جیسے تیسے اور جو جو میسر آئے انہوں نے نو کی گنتی پوری کر لی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے ستاروں کے جھرمٹ میں کھڑے ہو کر جب اِدھر اُدھر دیکھا تو حدِ نظر تک سر ہی سر تھے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ اس منظر سے یوں متاثر ہوئی کہ اس نے ڈرون کیمروں پر پابندی لگا دی کہ وہ اُڑ کر تصویر کشی نہیں کر سکتے، یعنی سامعین کی کثرت اسلام آبادیوں کو عدم تحفظ میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اس کے باوجود جمعیت کے کارکن حرکت میں رہے، اور میلوں پھیلے ہوئے سروں کو کیمرے میں قید کرتے چلے گئے۔ بے شک مولانا کا اجتماع عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا اجتماعات سے کہیں زیادہ تھا۔ زیادہ اور زیادہ، اور زیادہ۔ مولانا فضل الرحمن نے بہت ہی بھاری جلسے سے سرشار ہوتے ہوئے ترنگ میں آ کر الٹی میٹم جاری کر دیا۔ وزیر اعظم اور ادارے اچھی طرح سُن لیں۔ اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر استعفیٰ درکار ہے۔ وزیر اعظم کا استعفیٰ، ورنہ۔ اس کے بعد انہوں نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا، اور یہ کہا کہ رہبر کمیٹی کے مشورے کے بعد، مزید تفصیل بیان کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا وزیر اعظم سے تو استعفیٰ مانگ رہے ہیں لیکن ان کے دائیں بائیں کھڑے اور بیٹھے بدستور اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ ان کی اپنی یا کسی اتحادی جماعت کے کسی رکن نے کسی اسمبلی سے کوئی استعفیٰ دیا، نہ اس سے مانگا گیا۔ عزیزم بلاول کی حکومت سندھ میں بدستور قائم ہے، اس سے بھی کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ مولانا کے استدلال کو اگر مان لیا جائے تو پھر استعفوں کی ابتدا تو گھر سے ہونی چاہیے۔ عمران خان نے جب دھرنا تحریک چلائی تھی تو ان کے ارکان نے استعفے داغ دیے تھے۔ یہ اور بات کہ سپیکر ایاز صادق کی دور اندیشی ان کو جھولی میں ڈال کر بیٹھی رہی۔ بہرحال اب کان اور آنکھیں رہبر کمیٹی کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ جلسہ جتنا بھی بڑا ہو، جماعتیں جتنی بھی زیادہ ہوں، آواز جیسی بھی گرجدارہو، الفاظ جتنے بھی زور دار ہوں، جذبات جتنے بھی اُبل رہے ہوں، ارمان جتنے بھی مچل رہے ہوں، ارادے جتنے بھی فولادی ہوں،... دستور کے دائرے سے قدم باہر نکالنے کے نتائج اپنے ہیں۔ دھّکا شاہی میں نہ دھّکا کھانے والوں کا پتہ چلتا ہے، نہ دینے والوںکا ؎
دیکھی ہیں بعد عشق کے اکثر تباہیاں
یہ تجربے کی بات ہے ہوتی ہے کم غلط
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)