وزیر قانون جناب فروغ نسیم اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے خبر دی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تین رکنی فل بنچ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ استدعا کی گئی ہے کہ اس معاملے کی سماعت کے لیے ایک بڑا بنچ تشکیل دیا جائے، اور اس کی سماعت بھی بند کمرے میں کی جائے، یعنی میڈیا کی آنکھ سے بچ کر۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے جس فل بنچ نے یہ فیصلہ جاری فرمایا تھا اس کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ریٹائر ہو چکے ہیں، لیکن اس کے دو ارکان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل الحمدللہ انصاف کے ایوانوں میں بدستور رونق افروز ہیں۔ 26 صفحات پر مشتمل نظرثانی درخواست میں 26 قانونی نکات اٹھاتے ہوئے درخواست کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ کالعدم قرار دے۔ کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ موجود آرمی چیف کی تقرری (یا توسیع) گزشتہ سات دہائیوں سے رائج محکمانہ پریکٹس کے عین مطابق کی گئی ہے۔ آئین یا قانون اگر کسی معاملے میں خاموش ہو تو روایات کو اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کسی آئینی یا قانونی خلا کو آئینی کنونشنز، کسٹمز یا ادارہ جاتی روایات کے ذریعے پُر کیا جائے، تو عدالت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ایسے کنونشنز، یا روایات کو ایکٹ آف پارلیمنٹ میں بدلنے کے لیے مجبور کرے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت نہ تو قانون سازی کے دائرہ کار میں مداخلت کر سکتی ہے، نہ اپنے آپ کو متوازی قانون ساز اتھارٹی بنا سکتی ہے۔ گزشتہ 70 برسوں سے اگر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی، اور معاملے کو روایات کے تابع چلنے دیا تو یہ اس بات کا واضح اظہار ہے کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی نہ کرتے ہوئے اپنی مرضی کا اطلاق کیا (خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران اس طرح کی کوئی بات فاضل عدالت کے سامنے نہیں کی گئی۔ یہ سارے نکتے اجنبی اور فیصلے کے بعد ہونے والی سوچ بچار کا نتیجہ ہیں۔
اس درخواست میں جنرل باجوہ کی توسیع کے حوالے سے عوامی جذبات اور وطنِ عزیز کو درپیش سرحدی صورتِ حال کا تذکرہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، جسے یہاں زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے فیصلے میں یہ بات واضح الفاظ میں کہی ہے کہ وفاقی حکومت نے یقین دلایا ہے، اس معاملے پر چھ ماہ کے اندر قانون سازی کی جائے گی۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ چھ ماہ بعد اس حوالے سے کی جانے والی قانون سازی کا عدالت جائزہ لے گی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف نئی تقرری چھ ماہ کے لئے ہو گی، اور مجوزہ قانون سازی سے مشروط۔ قانون نہ ہونے سے جنرل باجوہ چھ ماہ کے بعد ریٹائر تصور ہوں گے، نیا قانون ہی ان کی ملازمت اور اس کی مدت کا تعین کر سکے گا۔
نظرثانی کی درخواست کی سماعت عدالت کا وہی بنچ کرتا ہے، جس نے فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ اس میں کسی نئے نکتے کو اٹھانے، کوئی نئی دلیل لانے یا کوئی نیا مواد پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ نظرثانی درخواست کے لئے وکیل بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ وہی وکیل نظرثانی کی درخواست پیش کر سکتا ہے، جس نے مقدمے کی سماعت کے دوران وکالت کی ہو۔ نظرثانی کا دائرہ یوں بھی محدود ہے کہ اس میں صرف کسی واضح غلطی یا کوتاہی کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ از سرِ نو ایک نیا مقدمہ کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں (میرے علم کی حد تک) نظرثانی درخواست میں نیا بنچ بنانے کی کوئی روایت بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے محدود دائرے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مقدمہ قتل میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل سپریم کورٹ نے مسترد کر دی، تو ان کے وکیل یحییٰ بختیار نے نظرثانی کی درخواست میں یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر ان کے ملزم کے خلاف الزام ثابت ہوتا ہو تو بھی اسے موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ اسے عمر قید میں تبدیل ہونا چاہیے۔ اسے اس بنیاد پر رد کر دیا گیا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران اس حوالے سے دلائل نہیں دیئے گئے تھے۔ جناب یحییٰ بختیار اپنے موکل کی بے گناہی اور بریت ہی پر زور دیتے رہے، اپنے اسی موقف کے حق میں زمین، آسمان ایک کر دیے۔ وہ مفروضے کے طور پر بھی اپنے موکل کو ''قاتل‘‘ (یا قتل کا حکم دینے والا) تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے، اس لیے اس نکتے پر دلائل دینے کے لیے تیار نہ ہوئے... اگر وہ فوجداری وکیل ہوتے تو یقینا تاریخ کے سامنے دلائل دینے کے بجائے اپنے موکل کو ایک عام ملزم سمجھتے ہوئے عدالت کے سامنے ہر زاویے سے دلائل دیتے۔ ... جب انہوں نے نظرثانی درخواست میں نیا موقف اختیار کیا، تو پوری عدالت نے اتفاق رائے سے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ بھٹو صاحب کو سزا تو چار ججوں نے سنائی تھی، جبکہ تین نے پروانۂ بریت جاری کیا تھا۔ ایک ووٹ کی اکثریت سے انہیں سزائے موت کا مستحق گردانا گیا تھا‘ لیکن نظرثانی کی درخواست سات ججوں کی فل کورٹ نے اتفاق رائے سے مسترد کی کہ تاریخی ضوابط سے ہم آہنگ نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے لیے نیا بنچ بنانے کا شرف صرف سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو حاصل ہوا، جب تلور کے شکار کا معاملہ زیر بحث تھا۔ اس میں بھی مقدمہ از سرِ نو نہیں سنا گیا۔ پرانے دلائل ہی پر رکنا پڑا۔
وفاقی حکومت کی دائر کردہ درخواست کسی بھی صورت ہمارے عدالتی ضوابط کے مطابق نظرثانی کی درخواست نہیں سمجھی جا سکتی۔ اسے اپیل ضرور کہا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے کسی بنچ کے سامنے، اس کے کسی دوسرے بنچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی کوئی گنجائش قانون میں موجود ہے نہ اس کی نظیر تلاش کی جا سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے لیے قانون سازی کے حوالے سے اٹارنی جنرل، وزیر قانون کی تائید کے ساتھ عدالت تحریری یقین دہانی داخل کرا چکے ہیں کہ چھ ماہ کے اندر اندر ایسا کر دیا جائے گا۔ اب وہ اپنا تھوکا ہوا چاٹنے کے لیے سپریم کورٹ کی اجازت کے طلب گار ہیں۔ ایک انتہائی واضح موقف اختیار کرنے کے بعد اسے تبدیل کرنے کی اجازت خدا معلوم انہیں کس قانون کے تحت حاصل ہونے کی توقع ہے۔ وزیر قانون اور ان کے فاضل اٹارنی جنرل نظرثانی کے نام پر اپیل دائر کر رہے ہیں، انہیں کرنا یہ چاہیے تھا کہ وہ پارلیمنٹ سے بل منظور کراتے یا صدارتی آرڈیننس جاری کراتے، جس میں دستور کی دفعہ (3)184 کے تحت کیے جانے والے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا جاتا۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ کے فیصلے کے خلاف بڑے بنچ میں اپیل دائر کر کے دِل کی بھڑاس نکالنا ممکن ہو جاتا۔ اگرچہ اپیل میں بھی موقف بدلا نہیں جا سکتا۔ اولین سماعت میں پیش کیا جانے والا موقف ہی اپیل میں بھی برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ (3)184 کے تحت سپریم کورٹ چونکہ پہلی اور آخری عدالت بن جاتی ہے، اس لیے متعدد قانونی ماہرین اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ یہاں اپیل کا وہ حق دینا لازم ہے، جو ہائی کورٹ میں سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف ڈویژن بنچ سے رجوع کرنے کے لیے دیا جا چکا ہے۔ یہ حق اگر مل جاتا (یا مل جائے) تو (3)184 کے کئی ''مجروحین‘‘ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کھوسہ بہت پڑھے لکھے اور دانشور جج تھے، تاریخ پر بھی جن کی نظر تھی، اور سیاست کی رموز سے بھی ناواقف نہیں تھے، ان جیسے شخص نے بھی (3)184 کا شکار ہونے والوں کے لیے اپیل کا دروازہ کھولنے کے لیے کچھ نہیں کیا، تو اب یہ کیونکر کھلے گا۔ نگاہیں اس انوکھی درخواست کی سماعت کی طرف لگی ہوئی ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)