سال بھر سے زیادہ ہو چلا تھا‘ ڈاکٹر سرور مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ ایک بار پھر انجیو گرافی کرا لینی چاہیے۔کم و بیش سات سال پہلے وہ یہی حرکت کر چکے تھے‘اس میں برکت یوں پڑی تھی کہ ایک آرٹری میں سٹنٹ کی ضرورت دیکھ کر فوراً اسے وہاں لے جا بٹھایا تھا۔اس سے پہلے کوئی تکلیف ہوئی تھی‘ نہ کسی دبائو کا سامنا تھا۔گویا دِل حسب ِ معمول کام کر رہا تھا اس کے معمول میں کوئی خلل نہ پڑا تھا۔گزشتہ دو سال سے ڈاکٹر صاحب یاد دہانی کراتے رہتے تھے کہ کافی عرصہ ہو چکا‘ ایک بار پھر ہسپتال میں آ جائو ‘تاکہ دِل کے معاملات جانچ لیے جائیں۔ انجیو گرافی کے بغیران کی تسلی نہیں ہوتی کہ دِل کی جملہ کیفیات معلوم کرنے کے لیے یہی ٹیسٹ حرفِ آخر ہے۔ حضرتِ دِل کے اندر اور باہر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے‘ اس کی پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے۔اس کے بعد معالج کو ٹامک ٹوئیاں مارنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ نہ ہی دماغ کے گھوڑے دوڑانے پڑتے ہیں‘ سنی سنائی دیکھی دکھائی پر ہمیشہ بھاری سمجھی جاتی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ تھیلیم ٹیسٹ کو حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ اس میں استعمال ہونے والی دوا بیرونِ ملک سے منگوائی جاتی اور کئی دن کے وقفے کے بعد ٹیسٹ ممکن ہو پاتا۔ اس سے پہلے ''ایکو‘‘ کی بڑی دھوم تھی۔عشروں پہلے لاہور کے ایک انتہائی سینئر ڈاکٹر افتخار صاحب نے جو اُس وقت بھی بابا جی سمجھے جاتے‘ اور آغا شورش کی دورانِ حراست دیکھ بھال کر کے نام کما چکے تھے‘ میرے دِل کا ایکو گرام کیا‘ اور اسے کھلی چھٹی مرحمت فرما دی۔سال بھر پہلے میں نے ڈاکٹرز ہسپتال ہی سے ایکو کرا کر ایک بار پھر کلین چٹ حاصل کر لی۔ڈاکٹر سرور صاحب نے یاد فرمایا تو ان کی خدمت میں ایکو سرٹیفکیٹ پیش کر دیا‘اس پر برہم ہوئے کہ دِل کے معاملات میں میری مرضی چلے گی‘ ایکو گرام کی نہیں۔ بہرحال ہوتے ہواتے طے پایا کہ 3جنوری بروز جمعہ بعد از نمازِ مغرب یہ معرکہ سر کر ہی لیا جائے۔اسی رات عزیزانِ ارسلان اور بختاور کی شادی کے سلسلے میں ایک عشائیہ بھی تھا‘ سوچا یہاں سے فارغ ہو کر وہاں حاضری لگائی جائے گی کہ بظاہر کوئی کام رفو کا نہیں تھا۔عمر شامی صاحب کے ہمراہ چپکے سے ہسپتال پہنچے۔ڈاکٹر جاوید اصغر‘ ڈاکٹر زاہد اصغر اور ڈاکٹر خالد رسول سے آشیر باد لیتے ہوئے بستر پر لیٹ گئے‘انجیو گرافی کا مرحلہ سر ہو گیا‘ تو معلوم ہوا گھر واپس جانے کی اجازت نہیں ہے‘چند روز کیلئے ہسپتال ہی کو گھر بن جاناہے۔بتایا گیا کہ دِل کے اردگرد معاملات دِگرگوں ہیں۔یہ سٹنٹ کے بس میں نہیں ہیں۔ اسی لیے کل صبح ڈاکٹر خالد حمید صاحب سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا‘اس وقت تک انتظار فرمایے‘ علی الصبح ڈاکٹر خالد حمید تشریف لے آئے‘ ڈاکٹر سرور پہلے ہی سے براجمان تھے۔انہوں نے بائی پاس کی خبر سنا دی۔ کہا کہ اسے آج ہی کرنا ہو گا کہ ایک کلاٹ ایسی جگہ بیٹھا ہوا ہے کہ اگر اس نے ذرا سی بھی حرکت کی تو دُنیا اندھیر ہو گی۔ہسپتال میں بیٹھے ہوئے شخص کو بھی بچایا نہیں جا سکے گا۔یہ جو آئے روز ہم سنتے ہیں کہ ایک شخص اچانک دِل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا‘ اس میں کیا دھرا اِسی طرح کے کلاٹس کا ہوتا ہے۔ قسمت یاوری کرے اور کلاٹ اپنی جگہ پڑا رہے تو اور بات ہے‘وگرنہ یوں سمجھئے کہ آپ آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھے ہیں۔ڈاکٹر خالد نے12بجے دوپہر کو آپریشن کا وقت مقرر کر کے فوری انتظامات کی تاکید کر دی‘ ڈاکٹر خالد حمید کا تعلق بھی ساہیوال سے ہے‘ ان کے والد شاہد حمید گورنمنٹ کالج ساہیوال میں انگریزی ادب کے استاد تھے۔دورانِ طالبعلمی صبح شام ان سے ملاقات ہوتی اور ان کے سائیکل کو سلام بھی۔ یاد نہیں کہ ان سے کوئی کلاس پڑھی یا نہیں‘لیکن کالج یونین کے صدر کے طور پر اساتذہ سے رابطہ بہرحال (دوسرے طلبہ کی نسبت) زیادہ رہا۔ برادرم سجاد میر نے‘ البتہ ان سے خوب استفادہ کر رکھا ہے۔ وہ انگریزی ادب کے طالب علم تھے‘ مجھ سے دو سال جونیئر تھے‘ لیکن انگریزی میں کئی سال آگے تھے۔ میں تو لازمی انگریزی ہی پر اپنے آپ کو مطمئن رکھنے میں کامیاب ہو گیا کہ انگریزی تو کیا اُردو لٹریچر کا پتھر اٹھانے کا بھی حوصلہ نہیں تھا‘ لیکن برادرم سجاد میر نے انگریزی کے ذریعے اپنی دھاک بٹھائے رکھی۔ان کے مقابلے کی ٹکر اقبال صدیقی تھے۔ان کی والدہ (شاید) مولانا محمد علی جوہر کے بھائی ذوالفقار گوہر کی بیٹی تھیں۔ والد باٹا کی دکان کے منیجر تھے۔اقبال صدیقی کو تو یوں سمجھئے کہ انگریزی کی پوری ڈکشنری ازبر تھی‘ روزانہ بھاری بھر کم الفاظ چھانٹ چھانٹ کر یاد کرتے‘ اور جو بھی نظر آتا اس کے سر پرانڈیل دیتے۔کئی استاد بھی ان کی یلغار کی تاب نہ لا سکتے‘ لیکن سجاد میر سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے‘جاٹ کے سر پر کھاٹ رہے یا تیلی کے سر پر کولہو اس سے دونوں کو کوئی غرض نہ تھی۔اقبال صدیقی نے65ء کی جنگ کے دوران فوج میں کمیشن حاصل کر لیا‘ بعد ازاں مشرقی پاکستان کے کسی محاذ پر حیاتِ جادواں پا گئے یا یہ کہیے کہ بن کھلے مرجھا گئے۔
پروفیسر شاہد حمید روزنامہ ''زمیندار‘‘ میں کام کر چکے تھے‘ صحافت چھوڑ کر تعلیم کی دُنیا میںقدم رکھا اور اسی کے ہو رہے۔ انگریزی کے کئی کلاسیکل ناولوں کے ترجمے ان کی یادگار ہیں۔ خود نوشت بھی تحریر کی‘اُردو انگریزی ڈکشنری پر کئی سال لگا دیئے‘ لیکن اسے شاید ابھی تک کوئی پبلشر دستیاب نہیں ہوا۔ چھوٹے قد کے دھان پان سے مرحوم پروفیسر صاحب کا بیٹا میرے سامنے بیٹھا تھا‘ اور اپنے والد کی تصویر دکھا رہا تھا۔ڈاکٹر خالد حمید ماشاء اللہ ہزاروں آپریشن کر چکے‘ ڈاکٹرز ہسپتال کے شعبہ امراضِ قلب کے وہ سربراہ ہیں‘اور اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق منظم کر رکھا ہے۔ بلاشبہ نجی شعبے میں پاکستان کی بہترین علاج گاہوں میں سے ایک۔ کم و بیش چار گھنٹے آپریشن ہوا‘ دِل کام کرتا رہتا ہے‘اور اس پر پیوند لگتے چلے جاتے ہیں۔ایک انتہائی چھوٹے دائرے میں کم و بیش19ٹانکے دِل کو خون پہنچانے کا نیا راستہ پکا کر دیتے ہیں۔چار پیوند لگائے گئے‘ دِل کی اندرونی حالت میں کوئی پسماندگی نہ تھی۔الحمد للہ کوئی دورہ پڑا تھا‘ نہ کوئی حملہ ہوا تھا‘ اس لیے حضرت دِل جوں کے توں تھے۔نئے خون نے ان کے حوصلے بڑھا دیئے۔تین دن ہسپتال میں قیام کے بعد واپس گھر پہنچے۔خبر کو جس حد تک ممکن ہوا‘ دبایا گیا‘ پھر بھی دوستوں کو سُن گن ہوتی چلی گئی۔ دُعائوں‘ پھولوں اور پھلوں سے گھر ابھی تک بھرا ہوا ہے۔اس دوران ٹیلی فون سن سکا نہ پیغام پڑھ سکا کہ کسی کا جواب دینا ممکن نہیں تھا۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن سے بھی فاصلہ برقرار رہا۔ ڈاکٹر خالد صاحب نے اجازت دی تو اپنے ٹی وی پروگرام میں بذریعہ فون شرکت کا تجربہ کر لیا۔ اس دوران میرے رفیق کار جمیل قیصر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ گردے کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ کم و بیش ربع صدی سے ان کا ساتھ تھا۔ ان کا اخلاص اور معاملہ فہمی اپنی مثال آپ تھی۔ ان پر آنکھ بند کرکے اعتماد کیا جا سکتا تھا: ؎
مت سہل انہیں جانو‘ پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اُنہیں فیصل آباد میں سپرد خاک کیا گیا۔ لاہور میں بسیرا کرتے تو بھی اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت ممکن نہ ہوتی۔ نئے دِل پر یہ پہلا داغ ایسا لگا کہ شاید ہی مدھم ہو۔ اللہ تعالیٰ اُن کی خطائوں سے درگزر فرمائے اور اُن کی مغفرت کرے۔ عزیزانِ اُم رباب اور حافظ زین کی شادی میں شریک نہ ہونے کا غم بھی دِل کا داغ بن گیا۔ برسوں جس دن کے لئے دُعا کی تھی‘ اس سے لطف اندوز ہونا ممکن نہ رہا۔ اللہ دونوں کو خوش رکھے۔؎
خوشی اچھی ہے اے دِل نہ ملال اچھا ہے
مولا جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)