ملائیشیا کے95سالہ وزیراعظم مہاتیر محمد نے اعلان کیا ہے کہ وہ نومبر میں استعفا دے سکتے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ان کے بعد72سالہ انور ابراہیم وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالیں گے۔ کسی ایک شخص کی سبکدوشی کے بعد کسی دوسرے شخص کا عہدہ سنبھالنا بظاہر ایک معمول کی بات ہے لیکن ڈاکٹر مہاتیر کی جگہ انور ابراہیم کا اقتدار سنبھالنا معمولی واقعہ نہیں ہے۔ان دونوں کے تعلقات کی کہانی محبت و نفرت اور نشیب و فراز کے ایسے مراحل سے گزری ہے کہ اگر ہمارے عہد نے اسے آنکھوں سے نہ دیکھ رکھا ہوتا تو اس پر ایک لمحے کیلئے بھی یقین نہ کیا جا سکتا۔انور ابراہیم ایک طالب علم رہنما کے طور پر منظر عام پر آئے تھے۔ زمانہ ٔ طالب علمی کے بعد ملائیشین نیشنل کانگرس میں شامل ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مہاتیر محمد کی آنکھ کا تارا بن گئے۔1991ء میں انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا۔1993ء میں وہ وزیراعظم مہاتیر ہی کی کابینہ میں ڈپٹی وزیراعظم بنا دیے گئے۔ انہیں ملائیشیا کا مستقبل سمجھا جاتا تھا، اور عام خیال تھا کہ جب مہاتیر محمد عہدہ خالی کریں گے تو انور ابراہیم ان کی جگہ سنبھالیں گے۔وزیر خزانہ کے طور پر ملائیشیا کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کا زمانہ معترف تھا،لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ1998ء میں ان دونوں کے درمیان فاصلے پیدا ہو گئے۔ دوری اِس قدر بڑھی کہ ڈاکٹر مہاتیر نے انور ابراہیم کو زمین پر دے مارا۔انہیں کابینہ سے نکال باہر کیا گیا،اس پر ملک گیر احتجاج ہوا،اور پہلی بار حکومت کے خلاف ہزاروں کے اجتماعات دیکھنے میں آئے۔انور ابراہیم وزیراعظم کے خلاف نعرہ زن تھے، ان کے بیٹوں پر کرپشن کے الزامات لگا رہے تھے، جبکہ دوسری طرف سے ان پر گولہ باری جاری تھی۔ان پر اخلاقی الزامات بھی لگائے جا رہے تھے۔ان کی ذات بدعنوانی کے ساتھ ساتھ اخلاقی بے راہ روی کا منبع بھی بنائی جا رہی تھی۔ہم جنس پرستی کا مقدمہ بنا ڈالا گیا۔ اگلے سال وہ حوالہ ٔ زنداں ہوگئے۔ ڈاکٹر مہاتیر نے ان کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور ٹیلی ویژن پر آ کر اُنہیں بار بار تنقید کا نشانہ بنایا۔ مہاتیر 2003ء میں ریٹائر ہو گئے لیکن انور ابراہیم کی ابتلا ختم نہیں ہوئی۔ان کے جانشینوں نے بھی انہیں نشانے پر لئے رکھا۔انور ابراہیم کو سزا سنا دی گئی، نتیجتاً ان کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگی۔ایک مقدمے کی اپیل کا فیصلہ ان کے حق میں ہو گیا۔کئی سال حوالہ ٔ زنداں رہنے کے بعد وہ رہا ہوئے تو اپوزیشن کے مرکزی رہنما بن گئے۔انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ختم ہونے والی تھی کہ اس سے ایک ماہ پہلے سابق وزیر اعظم نے عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ انور ابراہیم ان میں حصہ لینے سے محروم رہے۔اس کے باوجود اپوزیشن نے برسر اقتدار جماعت کو دو تہائی اکثریت سے محروم کر دیا۔انور ابراہیم ایک اور مقدمے میں دھر لیے گئے۔ جیل پھر ان کا مقدر بن گئی۔ملائیشیا میںاس فعل کی سزا بیس سال ہے،لیکن اس الزام میں کسی کے خلاف مقدمہ شاذ ہی دیکھنے یا سننے میں آتا ہے۔انور ابراہیم پر بار بار یہ الزام لگتا رہا،اس کے باوجود ان کی سیاسی اہمیت کم نہ کی جا سکی،اس میں اضافہ ہوتا رہا۔
ان کی غیر موجودگی میں ان کی اہلیہ عزیزہ اسماعیل نے اپنے شوہر کا خوب ساتھ نبھایا ان کی خوش کرداری کی شہادت دی، ان کے حق میں ڈٹ کرکھڑی ہو گئیں۔ سیاست میں سرگرم حصہ لیا اور بالآخر اپوزیشن کا ایک بڑا اتحاد قائم کر لیا۔ڈاکٹر مہاتیر نے اپنے جانشینوں کے معاملات سے دِل گرفتہ ہو کر ریٹائرمنٹ ختم کرنے کا اعلان کیا، تو اپنی ہی جماعت کے خلاف اپوزیشن کے محاذ کی قیادت سنبھال لی، اور عام انتخابات میں اسے شکست ِ فاش سے دوچار کر دیا۔ڈاکٹر صاحب نے اعلان کیا کہ ان سے کئی غلطیاں سر زد ہوئی ہیں، جن میں سے ایک بڑی غلطی انور ابراہیم کی برطرفی تھی، انہیں ان کے عہدے سے الگ نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔
انور ابراہیم کی اہلیہ عزیزہ اسماعیل انتخابات کے بعد ڈاکٹر مہاتیر کی کابینہ میں ڈپٹی وزیراعظم بن گئیں،نئے وزیراعظم نے عہدہ سنبھالتے ہی انور ابراہیم کو معافی دینے کی سفارش کر دی۔عدالتی فیصلوں کی موجودگی میں انور ابراہیم کی اقتدار میں واپسی ممکن نہ تھی۔ڈاکٹر مہاتیر نے بادشاہ کی خدمت میں عرضداشت بھیجی اور شاہی فرمان کے ذریعے انور ابراہیم کو معاف کر دیا گیا۔ واضح کر دیا گیا کہ اب ان پر کوئی الزام باقی نہیں ہے۔وہ قومی زندگی میں بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انور ابراہیم کے خلاف مقدمات اور ان کو دی جانے والی سزائوں کو عوامی سطح پر قبولِ عام حاصل نہ ہو سکا تھا۔ہر عدالتی فیصلہ اُن کی مقبولیت میں اضافہ کرتا رہا۔ ان کی اہلیہ عزیزہ اسماعیل نے کمال ہمت اور استقامت کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا، اور اپوزیشن کی مختلف الخیال جماعتوں کو یک جا کر کے دکھا دیا۔ان کی یہ تاریخی جدوجہد نہ صرف ملائیشیا،بلکہ پورے خطے کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔
عدالتی فیصلوں اور حکومتی پروپیگنڈے کے باوجود ملائیشیا کے عوام کی بڑی تعداد انور ابراہیم کی مداح رہی۔ بین الاقوامی طور پر انہیں پذیرائی ملتی رہی۔انسانی حقوق کے اداروں نے انہیں ''ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیا، ان کے خلاف کارروائیوں نے ملائیشیا کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے۔ اور بالآخر بادشاہ سلامت کو عوامی فیصلے پر مہر توثیق ثبت کرنا پڑی ہے، عدالتی فیصلوں کے اثرات کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا ہے۔ تاریخ مختلف شخصیات کے عروج و زوال کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ڈوب کر ابھرنے اور ابھر کر ڈوبنے والوں کی ایک بڑی تعداد تاریخ کی کتابوں میں تلاش کی جا سکتی ہے،لیکن انور ابراہیم کا معاملہ اس حوالے سے منفرد ہے کہ جس شخص نے ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا، انہیں نہ صرف کابینہ سے نکالا تھا،بلکہ اس کے خلاف پرزور مہم چلائی تھی۔اسے غلط کاریوں کا مرتکب قرار دیا تھا۔کم و بیش دو عشروں بعد اسی نے اس کی بریت کا پروانہ جاری کیا۔اس کے حق میں شاہی فرمان حاصل کیا، اور اب اسی کے حق میں اپنے عہدے سے دستبردار ہو رہا ہے۔ یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے، عزت اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔وہ شعر جو بچپن سے پڑھتے اور سنتے چلے آ رہے ہیں، ایک بار پھر سن لیجیے ؎
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
پاکستانی سیاست کے لیے بھی اس واقعے میں کئی پیغامات چھپے ہوئے ہیں۔اپنی اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق انہیں بڑھایا جا سکتا ہے۔جب بھٹو صاحب کے خلاف قتل کا مقدمہ چل رہا تھا، تو سمجھا جاتا تھا کہ اس کے خلاف عدالتی فیصلہ آیا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے ۔ دُنیا انہیں ایک قاتل کے نام پر یاد رکھے گی،لیکن جو ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔بھٹو پھانسی چڑھنے کے باوجود پاکستانی سیاست کی ایک زندہ حقیقت ہیں، جبکہ عدالتی فیصلے کا دفاع کرنے والے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا گیا تو انہیں طیارہ اغوا کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا ہو گئی، کچھ عرصے کے بعد انہیں جیل سے نکال کر جدہ بھجوا دیاگیا۔ کئی مبصرین سمجھتے تھے کہ نواز شریف کی سیاست کا باب ختم ہو گیا لیکن وہ کئی برس بعد واپس آ کر پھر انتخاب جیت گئے اور تیسری بار وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی،ان کے خلاف عدالتی فیصلہ اعلیٰ ترین عدالت کی میزان پر پورا نہ اتر سکا۔ گویا، سیاست میں نہ کوئی حرفِ آخر ہوتا ہے، اور نہ موت سے پہلے کسی شخص کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔
ایوان میں حاضری
برادرم فواد چودھری نے مطالبہ کیا ہے کہ قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف ملک واپس آ کر اپنا کردار ادا کریں، بصورت ِ دیگر یہ منصب کسی اور کو سونپ دیں۔اس بات میں یقینا وزن ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو قومی اسمبلی کے اندر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے،لیکن اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ قائد ایوان، بھی اپنے ایوان کو رونق بخشیں۔ اپوزیشن لیڈر تو اس وقت اپنے برادر بزرگ محمد نواز شریف کے علاج کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو کر وہ فواد چودھری صاحب کی خواہش پوری کر دیں گے،لیکن قائد ایوان تو ماشاء اللہ اسلام آباد میں ہیں۔انتخابات کے فوراً بعد بڑے جوشیلے اعلانات ہوتے تھے کہ وزیراعظم ہفتے میں ایک دن وقفہ سوالات کے درمیان موجود ہوں گے اور بنفسِ نفیس سوالوں کے جوابات دیا کریں گے، لیکن وہ دن ابھی تک طلوع نہیں ہوا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)