"MSC" (space) message & send to 7575

دہلی کے تڑپتے لاشے اور ہود بھائی

ابھی ابھی مَیں نے نئی دہلی سرکار کے تحت کام کرنے والے ''دہلی اقلیتی کمیشن‘‘ کی مرتب کردہ رپورٹ کی تفصیلات سنی ہیں، یہ کلپ مجھے برادر عزیز سلیم منصور خالد نے آج ہی بھجوایا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دو ہزار کے لگ بھگ باگڑی لوگ دہلی میں بلائے گئے۔ انہیں مختلف سکولوں میں ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کے گھروں، املاک اور مسجدوں پر حملے کئے، اور درجنوں افراد کو ہلاک کر ڈالا، ابھی تک مرنے والوں کی گنتی مکمل ہونے میں نہیں آ رہی کہ بہت سے لوگ لا پتہ ہیں۔ گلی سڑی نعشیں نالوں سے اب تک برآمد ہو رہی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ سینکڑوں زخمی ہیں، اور ان میں سے کئی ایسے ہیں کہ شاید ہی معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ بی جے پی کے بعض رہنمائوں نے دہلی پر حملہ کرنے کے لیے لشکر تیار کیا جو پوری تیاری کے ساتھ یہاں آیا اور مسلمان علاقوں کو تاراج کر کے لوٹ گیا۔ یہ لوگ باقاعدہ تربیت یافتہ تھے، پتھر مارنے، آگ لگانے، عمارتوں کو ڈھانے، اور زندہ انسانوں کو لوتھڑوں میں تبدیل کرنے والے ان سنگ دِلوں نے قیامت ڈھا دی۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دہلی میں جو کچھ ہوا یہ فرقہ وارانہ فسادات نہیں تھے، مقامی ہندو اور مسلمان آپس میں اس طرح برسر پیکار نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ اُلجھتے بھی تو معمولی تصادم کے بعد ٹھنڈے ہو جاتے۔ تربیت یافتہ غنڈے باہر سے لائے گئے۔ پولیس کی نگرانی میں انہوں نے آگ اور خون کی ہولی کھیلی، اور دو دن کے بعد یہاں سے رخصت ہو گئے۔ انہیں مختلف سکولوں کی عمارتوں میں ٹھہرایا گیا تھا۔ اقلیتی کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اگر عدالتی تحقیقات ہوں تبھی معلوم ہو سکتا ہے کہ ان مسلح جتھوں کو لانے کا اصل ذمہ دار کون تھا؟ بی جے پی کے کس رہنما کا کتنا ہاتھ تھا، اور وزیر داخلہ امیت شاہ کس حد تک ملوث تھے... کہ دہلی پولیس براہِ راست ان کے تابع ہے۔ اگر پولیس اپنے فرائض ادا کرتی تو آگ اور خون کا کھیل اس طرح نہ کھیلا جا سکتا، جس طرح کہ کھیلا گیا۔ غنڈے دندناتے رہے، کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا اور ان کے راستے میں کھڑا ہونے والا نہیں تھا۔ بتایا گیا ہے کہ شہریت بل کے حوالے سے جو احتجاج دہلی میں جاری تھا، اسے کچلنے کے لیے یہ منصوبہ بنایا گیا۔ بی جے پی کے رہنما کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے تھے کہ یہ احتجاج ہم خود ختم کر کے دکھائیں گے۔ کوئی منصفانہ اور شفاف تحقیقات ممکن ہوں گی یا نہیں، یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے، ابھی تک تو یہی معلوم ہو رہا ہے کہ تعصب اور تنگ نظری کے وائرس نے مقتدر اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عالمی اخبارات بھی یہی لکھ رہے ہیں کہ عدلیہ سے قائم کی جانے والی توقعات بھی پوری ہوتی نظر نہیں آئیں۔ بھارتی آئین کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، اور حکومت اسے اپنی کامیابی سمجھ رہی ہے۔ ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑے اطمینان اور اعتماد سے اعلان کیا کہ وہ اپنے وعدے پورے کر رہے ہیں۔ کشمیر اور لداخ کو بھارت میں ضم کر دیا گیا ہے۔ دفعہ 370 کو ختم کرنے کا کام مکمل ہے۔ شہریت کا ترمیمی بل نافذ ہو چکا ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے لئے ٹرسٹ بنایا جا چکا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ محض ''سیمپل‘‘ ہے۔ آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ اصل کام اب شروع ہونا ہے۔ وہ اصل کام کیا ہے، اس کی تفصیل تو انہوں نے بیان نہیں کی، لیکن غیر جانب دار مبصرین یہی سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کو ہندو بنانے یعنی ہندوئوں کے لیے خاص کرنے کا عزم ہے۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے لیے جینا مزید دوبھر بنایا جائے گا۔ ایسا ہو سکے گا یا نہیں، اور ہو گا تو کس قیمت پر، اس بارے میں مختلف اندازے لگائے جا سکتے ہیں، معتبر بھارتی مبصرین تک یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تباہی کا راستہ ہے، کروڑوں انسانوں کو زندہ نگل جانا ''بھارت ماتا‘‘ کے بس میں نہیں ہو گا۔
ایک طرف بھارتی سیکولرازم پر زمین تنگ ہو رہی ہے، اور اسے بھارت سے دیس نکالا دینے کی تیاریاں شدت سے جاری ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں ایسے دانشور موجود ہیں جو دن دیہاڑے پاکستان کی تخلیق اور اس کی افادیت پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ کنفیوژن دور کرنے کے نام پر کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔ معروف دانشور پروفیسر ہود بھائی نے کراچی کے ایک ادبی میلے میں جو گفتگو کی، اسے بھارتی میڈیا میں بڑی پذیرائی ملی۔ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ پاکستان کنفیوژن کی پیداوار ہے اور کنفیوژن کا شکار ہے۔ انہوں نے قائد اعظمؒ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ہود بھائی کے بقول: محمد علی جناح کا یہ کہنا خلاف واقعہ تھا کہ ہندوستان میں صرف دو قومیں بستی ہیں، وہ ایک دوسرے کی حریف ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتیں... ان کی اس گفتگو کا جواب نکتہ بہ نکتہ پاکستان کے انتہائی ممتاز دانشور جاوید جبار نے انہی کی زبان (انگریزی) میں دیا، اور سچ تو یہ ہے کہ حق ادا کر دیا ہے۔ جاوید جبار کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ پلڈاٹ (PILDAT) کے پلیٹ فارم پر ملا۔ مختلف موضوعات پر قائم گروپوں میں ان کی ذہانت اور معاملہ فہمی اپنا آپ منواتی رہی۔ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے ان کی کارکردگی بطور خاص شاندار تھی۔ اس گروپ میں کئی ریٹائرڈ جرنیل شامل تھے۔ اسی نے جنرل پرویز مشرف سے وردی اتارنے کا مطالبہ اس وقت کیا تھا، جب ان کا سورج نصف النہار پر تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل تنویر نقوی، لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر اور لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کے ساتھ ساتھ سینیٹر ایس ایم ظفر نے بھی جس قرارداد پر دستخط کر کے جنرل پرویز مشرف کو غصہ دِلا دیا تھا، اسے آخری شکل دینے کا اعزاز جاوید جبار ہی کو حاصل ہوا تھا۔
جاوید جبار صاحب نے ہود بھائی کے خیالات پر بھرپور گرفت کرتے ہوئے ان کا کچا پن واضح کیا ہے۔ یاد دلایا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ تو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے، انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہندوستان میں فقط دو قومیں پائی جاتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کی جانی دشمن ہیں۔ جاوید جبار صاحب کی یہ خوبصورت گفتگو یو ٹیوب پر ہر شخص دیکھ سکتا ہے، اور اپنا دامن دلائل سے بھر سکتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان کی تقسیم دو دشمن ممالک کو جنم دینے کے لیے نہیں تھی۔ بعض ہندو دانشوروں نے دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے تجویز دی تھی کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلمان ریاستوں میں اس طرح بانٹا جائے کہ تمام مسلمان ایک ریاست میں اور تمام ہندو دوسری ریاست میں منتقل ہو جائیں۔ قائد اعظمؒ نے کبھی تبادلۂ آبادی کا مطالبہ نہیں کیا، ان کے زیر قیادت مسلم لیگ نے جب دیکھا کہ ایک متحدہ ملک میں رہنے کے لیے مسلمانوں کو آئینی ضمانت فراہم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے، تب وہ تقسیم پر ڈٹ گئے۔ مجوزہ پاکستان میں غیر مسلم خصوصاً ہندوئوں کی بڑی تعداد کو موجود رہنا تھا، اور کروڑوں مسلمانوں کو بھارت کا شہری بن جانا تھا، دونوں ممالک میں سب شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہونا تھے۔ پاکستان نے کبھی غیر مسلموں کو نکالنے کی بات نہیں کی۔ کبھی ان کے مساوی حقوق کا انکار نہیں کیا۔ جو کچھ آج بھارت میں ہو رہا ہے، جو وہاں گجرات میں ہوا، جو دہلی میں ہو رہا ہے، اور جو دوسرے مقامات پر دہرانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، پاکستان میں اس کا تصور تک نہیں کی جا سکتا۔ پاکستان کنفیوژن کی پیداوار نہیں تھا، کنفیوژن کو دور کرنے کا نتیجہ تھا۔ مسلمانوں اور ہندوئوں کو اپنے اپنے اکثریتی علاقوں میں اقتدار ملنا تھا۔ توقع تھی کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی طاقت بنیں گے۔ قائد اعظمؒ کے بقول ان کے درمیان امریکہ اور کینیڈا کے سے تعلقات ہوں گے۔ اس تصور کو پامال کس نے کیا، گاندھی جی کی لاش سے پوچھ لیجیے، یا دہلی میں تڑپتے لاشوں کی چیخیں سن لیجیے۔ کوئی بھی پاکستان کو الزام نہیں د ے رہا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں