"MSC" (space) message & send to 7575

کورونا چیلنج کا مقابلہ

کورونا وائرس دُنیا بھر میں جو قیامت ڈھا چکا ہے اور ڈھا رہا ہے، اس کی تفصیلات سب پر واضح ہیں، ترقی یافتہ امیر ترین ممالک بھی سہمے ہوئے ہیں۔ اِس کا کوئی مؤثر علاج ابھی تک ڈھونڈا نہیں جا سکا، نہ ہی کوئی ویکسین دریافت ہو سکی ہے، لیکن کوششیں زوروں پر ہیں۔ تجربات ہو رہے ہیں، مختلف ادویات آزمائی جا رہی ہیں، بعض کے مفید اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو جوش میں آ کر ملیریا کے علاج کے لئے استعمال ہونے والی دوا کے بارے میں اعلان بھی کر دیا کہ اس کے ذریعے اس کا علاج کیا جائے گا، لیکن فیڈرل ڈرگ اتھارٹی نے اس کی توثیق سے انکار کر دیا کہ معاملہ ابھی تحقیق و تفتیش کے مرحلے میں ہے۔ جاپان اور فرانس میں بھی مختلف ادویات کے کامیاب تجربے کیے گئے ہیں۔ چین میں بھی ملیریا کی دوا کو مفید پایا گیا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ جلد اِس وائرس کی خوفناکی ختم ہو گی کہ ہمارے رسول اکرمؐ کا قول ہے کہ کوئی ایسی بیماری نہیں ہے، جس کا علاج بھی پیدا نہ کیا گیا ہو، ہر بیماری کا علاج ممکن ہے۔ اسے بہرحال مِل کر رہنا ہے۔ اِس وقت زور اسی بات پر دیا جا رہا ہے کہ لوگ آپس میں میل جول محدود کر دیں، گھروں میں رہیں۔ ایک دوسرے سے اختلاط جس قدر کم ہو گا، اس وائرس کے پھیلنے کے امکانات بھی اتنے ہی کم ہو جائیں گے۔ پوری دُنیا میں بازار اور مارکیٹیں سنسان ہیں۔ سکول کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئی ہیں۔ صنعتی اور تجارتی ادارے اپنے کارکنوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر بیٹھ کر کام کریں۔ ظاہر ہے ہر ملک اور ہر ادارے میں یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگ گھر بیٹھ جائیں، اور کام بھی چلتا رہے۔ بعض کاموں کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر سرانجام دیئے جا سکتے ہیں، لیکن کئی کاموں کی ادائیگی کے لیے گھروں سے نکلنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ بار بار ہاتھ دھونے کی تلقین ہے۔ افراد کے درمیان تین سے چار فٹ تک فاصلہ رکھنے کی تلقین ہے۔ عبادت گاہیں تک بند ہیں۔ مسجدیں، گرجے اور مندر خاموش ہیں۔ عبادت گزاروں کو گھر بیٹھ کر عبادت کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ سعودی عرب میں تمام مساجد بند ہیں۔ نمازِ جمعہ کے بجائے گھروں میں رہ کر نمازِ ظہر ادا کرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ علماء کونسل اس کے لیے فتویٰ جاری کر چکی ہے۔
یہ درست ہے کہ اس وبا سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ عالمی اوسط کے مطابق شرح اموات 3 فی صد کے قریب ہے، گویا 96 فیصد سے کچھ زائد لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو وائرس کی لپیٹ میں بہت زیادہ لوگ بھی آ سکتے ہیں۔ آج تک بنی نوع انسان کو اس طرح کی کسی وبا سے سابقہ پیش نہیں آیا جو ہوا سے حملہ آور ہوتی، اور ایک متاثرہ شخص سے دوسرے صحت مند شخص تک فی الفور منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
مصافحہ اور معانقہ ترک کر دینے پر زور دیا جا رہا ہے، لیکن بعض پاکستانی زعما ایسے ہیں جو اسے بزدلی کی علامت سمجھتے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ سرعام کورونا کا مذاق اڑا کر لوگوں سے ہاتھ ملاتے پائے گئے۔ ایسے دانشور بھی موجود ہیں جو اپنے کالموں میں اپنی جرأت اور بہادری کی داستانیں سنا رہے ہیں کہ وہ تو ڈٹ کر مصافحہ کرتے اور زور سے جپھی ڈالتے ہیں، کورونا ان کو نہیں ڈرا سکتا۔ بصد ادب عرض کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ بہادری نہیں غیر ذمہ داری ہے۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا لازم ہے، ہر شخص کو اس حوالے سے مثال بننا چاہئے۔ پاکستان میں یہ وبا تفتان کے راستے داخل ہوئی ہے۔ ایران سے واپس آنے والے زائرین کے ذریعے اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اگر سرحد پر قرنطینہ کی مناسب سہولتیں فراہم کرنے کا اہتمام ہو سکتا تو شاید ہم کہیں بہتر حالت میں ہوتے، لیکن جو ہو چکا وہ ہو چکا۔ گزرے ہوئے لمحوں کا ماتم کرنے کے بجائے مستقبل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرنے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس معاملے پر سیاست نہیں کریں گے، جو کوتاہیاں سرزد ہو چکی ہیں، ان کے بجائے جو کچھ کیا جا سکتا ہے، اس پر زور دیں گے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی کورونا کی روک تھام اور علاج کے لیے ایسے انتظامات کیے اور اتنی بھاگ دوڑ کی ہے کہ وہ پوری قوم کی آنکھ کے تارے بن چکے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی نے معاملات کی نگرانی اپنے ذمے لے لی ہے۔ افواجِ پاکستان حرکت میں ہیں۔ لاہور کے ایکسپو سنٹر کو ایک ہزار بیڈز کے ہسپتال میں تبدیل کر کے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ فوجی جوانوں کی سرگرمیوں کی تصاویر سوشل میڈیا میں عام ہو کر نیا جوش و خروش پیدا کر رہی ہیں۔ اپنی قیادت پر اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی کے ایکسپو سنٹر کو بھی دس ہزار بیڈز تک کے ہسپتال میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہے۔ افواجِ پاکستان کی کارکردگی یہاں بھی شاندار ہے۔
قومی ادارہ برائے امراض خون کے مایہ ناز سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی نے انکشاف کیا ہے کہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون (سے حاصل پلازمے) کی مدد سے خطرناک مریضوں کا علاج ممکن ہے، ہر مریض کے بلڈ گروپ کے مطابق یہ پلازما لگایا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین نے اسی طریقہ علاج سے شرح اموات کو بہت کم کیا۔ وہاں جن افراد پر یہ طریقہ آزمایا گیا ان میں سے پچانوے فیصد صحت مند ہو گئے۔ ڈاکٹر شمسی کا کہنا ہے: وائرس اور بیکٹیریاز کی مختلف اقسام کو نیوٹرلائز کرنے کے لئے پیسو (PASSIVE) امیونائزیشن کا یہ طریقہ سوا سو سال پرانا ہے اور اگر حکومت انہیں اس طریق کار پر عمل کرنے کے لئے کہے تو تیاری میں دو ہفتے لگیں گے۔ ہمیں پلازما اکٹھا کرنا پڑے گا، اس کے بعد ان مریضوں کو لگانا شروع کر دیا جائے گا، جن پر وائرس کا حملہ شدید ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس طرف متوجہ ہوں گی تاکہ ڈاکٹر طاہر شمسی اور ان کے رفقا اپنا جوہر آزما سکیں۔ اس کام پر لگ سکیں۔
وسائل جتنے بھی محدود کیوں نہ ہوں، ہمت اور صلاحیت سے کام لے کر بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے جو عزم کیا ہے، اِن شاء اللہ وہ ضرور نتیجہ خیز ہو گا۔ بحیثیت قوم ہمیں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر اس اقدام کا ساتھ دینا ہو گا، جس کا فیصلہ کیا جائے، اور ہر اُس کام سے گریز کرنا ہو گا، جس کی ہدایت ہماری ہیئت مقتدرہ کی طرف سے کی جائے۔ یہ آزمائش کی گھڑی ہے، اس میں ہم کامیابی سے گزر سکتے ہیں اور ہماری طبی سہولتوں میں جو خلا ہیں انہیں بھی پُر کر سکتے ہیں۔ اپنے طبّی نظام کو حیاتِ نو بخش سکتے ہیں۔ آلات اور سہولتوں کا جو فقدان ہے، اس کا ازالہ بھی کر سکتے ہیں۔ جو فنڈنگ عالمی اداروں کی طرف سے دستیاب ہو رہی ہے، اسے سلیقے سے خرچ کیا جائے تو طبّی شعبے میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
''کورونا تنہائی‘‘ کا علاج
برادرِ عزیز ایاز امیر نے تجویز کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سماجی سرگرمیاں محدود ہونے کی بدولت تنہائی کے جو لمحات میسر آ رہے ہیں، وہ کتابوں کی صحبت میں بسر کئے جائیں۔ اس سے اختلاف کی کوئی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ گزشتہ دِنوں پاکستانی صحافت کے تین ممتاز ترین کالم نگاروں کے کالموں کے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ محمد اظہارالحق کا ''میری وفات‘‘، ڈاکٹر شاہد صدیقی کا ''زیر آسماں‘‘ اور عامر خاکوانی کا ''زنگار نامہ‘‘۔ ان تینوں کے ذریعے تنہائی آباد کی جانی چاہیے۔ اول الذکر دو صاحبان اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے، جناب اظہار کا تعلق ملٹری اکائونٹس سے تھا، تو جناب شاہد کا تعلیم و تدریس سے۔ عامر خاکوانی کا آغاز بھی صحافت سے تھا، اور شباب بھی صحافت میں ہے۔ یہ تینوں حضرات اپنی اپنی جگہ مشاہدے، تجزیے اور مطالعے کا حسین امتزاج ہیں۔ جناب اظہار سیاسی امور پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں، ڈاکٹر شاہد روزمرہ کی سیاست سے دامن چھڑاتے ہیں، جبکہ عامر خاکوانی ہر جگہ گھوڑے دوڑا گزرتے ہیں۔ ان سے لطف اٹھائیے، اور اپنی تنہائی کو خوشبوئوں سے بھر دیجیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں