مولوی سعید اظہر ہمارے کوچۂ صحافت کی ایک منفرد شخصیت تھے۔ بیسویں صدی کے ساتویں عشرے کے آخری سال کراچی سے لاہور منتقل ہوا تو ہفت روزہ ''زندگی‘‘ کے مدیر معاون کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں۔ جناب الطاف حسن قریشی کے زیر نگرانی دھماکہ خیز صحافت کا آغاز ہوا، اور پہلے ہی شمارے سے ہمارے ہفت روزہ نے اپنی دھاک بٹھا دی۔ اس کی 25 ہزار کاپیاں ہاتھوں ہاتھ نکل گئیں، مارکیٹ سے مزید کا تقاضا ہونے لگا۔ دوسرے شمارے کو شاید پانچ یا سات ہزار زیادہ چھاپا گیا۔ اس کی پیشانی پر تعداد اشاعت باقاعدہ درج کی جاتی تھی، اور قارئین کو پرنٹنگ پریس میں آ کر اس کی تصدیق کرنے کا حق بھی حاصل تھا۔ ہفت روزے کی دھوم مچی، تو اس کے مدیر معاون کو بھی پَر لگ گئے۔ قریشی برادران (ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی) تو کسی تعارف کے محتاج نہ تھے، الطاف صاحب اُردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر کے طور پر پہلے ہی آسمان پر تھے۔ وہ پاکستان کے واحد ایڈیٹر تھے، جو بین الاقوامی شخصیات کے انٹرویو بھی کرتے تھے، ان کا سکہّ پاکستان کی جغرافیائی حدود سے باہر بھی چلنے لگا تھا۔ سعید اظہر کی جوانی بھی ان دِنوں سنبھالی نہیں جاتی تھی۔ وہ شاید نوائے وقت میں تھے، اور اس کے شہرہ آفاق نیوز ایڈیٹر ظہور عالم شہید کی آنکھ کا تارا تھے۔ اخباری کارکنوں کی ہڑتال کے دوران سعید اظہر سے مڈھ بھیڑ ہوئی اور ہم دونوں ایک دوسرے کی نظروں میں سما گئے۔ دونوں تلواریں اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ ایک ہی نیام میں سما سکتی ہیں۔ محبت کا رشتہ ایسا قائم ہوا کہ سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی یہ رشتہ نہیں ٹوٹا۔ سعید اظہر بہت دور چلے جانے کے باوجود اب بھی مجھے آس پاس محسوس ہوتے ہیں، اپنے مخصوص لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے، قہوے کی پیالی کا تقاضا کرتے ہوئے، اور اس میں بسکٹ ڈبو کر کھاتے ہوئے۔
ایک زمانہ تھا کہ انہیں باقاعدہ مولوی سمجھا جاتا تھا، لیکن پھر وہ مولوی کہلاتے تو رہے، لیکن مولویت سے آزاد ہو گئے۔ بعض اوقات علامہ کہہ کر بھی ان کو مخاطب کیا جاتا لیکن علامہ بننے یا کہلانے پر ان کو کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی، وہ مولوی کہلا کر خوش تھے، اپنے ماضی کے ساتھ اپنے آپ کو جڑے دیکھنا چاہتے تھے۔ سعید اظہر مطالعے کے شوقین تھے، موٹی موٹی کتابیں انہوں نے گھول کر پی رکھی تھیں۔ تاریخ اور ادب ان کے خصوصی موضوعات تھے۔ قرۃ العین حیدر کے اسلوب نے انہیں گھائل کر رکھا تھا۔ اخبار بینی تو ان کے فرائضِ منصبی میں شامل تھی۔ وہ رپورٹر رہے، ایڈیٹر بنے، اپنے رسالے نکالے، کتابیں چھاپیں، ایک روزنامے کی ادارت بھی کی، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ وہ کاروبار کے لیے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ان کے اندر کا پٹھانی خون اُنہیں بار بار اپنی سلطنت بنانے پر ابھارتا، لیکن پھر خسارے میں ڈوبے ہوئے پائے جاتے۔ احباب ان کے لیے بیل آئوٹ پیکیج تیار کرتے، اور وہ توبہ تلاّ پر مجبور ہو جاتے۔ زبان میں ذرا سی لکنت تھی، بعض اوقات کوئی لفظ پھنس جاتا تو سننے والے اس کا بھی لطف اٹھاتے۔ ان کے الفاظ اپنے تھے، ان کا استعمال اپنا تھا، منفرد لہجے کے قلم کار تھے، اخبار نویسوں میں کم ہی لوگ ان کی طرح لذیذ گفتگو کر پاتے تھے۔ برادرم حسن نثار نے درست لکھا ہے کہ سعید اظہر ایک نشے کا نام تھا، جس کا تعلق ان سے قائم ہوا، ٹوٹ نہیں پایا۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی ان سے بات کر کے محظوظ ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو پھانسی کی سزا نے ان کے اندر انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ وہ آخر دم تک اس پر خون کے آنسو بہاتے رہے۔ ان کے نزدیک یہ پاکستانی سیاست کا قتل تھا، عوام کی طاقت کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا، اس پھانسی نے انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کا گرویدہ بنا دیا۔ آصف علی زرداری کے دفاع کے لیے بھی وہ میدان میں رہے۔ اب بلاول بھٹو زرداری ان کی توجہ کا مرکز تھے۔ وہ ان کی ذات میں بھٹو کا عکس ڈھونڈ کر انہیں اپنی امیدوں کا مرکز بنائے ہوئے تھے۔
گزشتہ چند ماہ انہوں نے بیماری سے لڑتے ہوئے گزارے۔ انہیں کینسر کا عارضہ لاحق تھا۔ حفیظ اللہ نیازی، اصغر عبداللہ اور میرے جیسے دوستوں نے انہیں آسودگی پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کے بیٹے اشعر نے بھی خدمت کا حق ادا کیا کہ لندن سے یہاں آ کر ان کے بستر سے لگے رہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے علالت کے دوران انہیں مالی معاونت فراہم کی، اور خود بھی ان کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ انہیں دیکھ کر سعید اظہر کی آنکھوں میں جو چمک پیدا ہوئی، وہ دیکھنے والے بھول نہیں سکیں گے۔ سید مودودیؒ سعید اظہر کی پہلی محبت تھے، تو ذوالفقار علی بھٹو دوسری یا آخری۔ اس کے بعد کوئی ان کی نظر میں جچ نہیں پایا۔ پاکستان کو جمہوری ملک بنانے کے خواب آخر دم تک دیکھتے رہے۔ اس بات پر ان کا یقین پختہ سے پختہ تر ہوتا جا رہا تھا کہ پاکستان عوام کی طاقت سے بنا، اور عوام ہی کی طاقت سے قائم رکھا جا سکتا ہے۔ دستور پر عمل کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور اپنے آپ کو منوا سکتے ہیں۔ ان کو اصرار تھا ''ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا کھیلا گیا خونیں کھیل ابھی تک ہمارے ملک کی گردن نہیں چھوڑ رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خون کے اندر چھپے ہوئے خطرے ابھی بھی ہماری سلامتی اور بقا کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں‘‘... ان خطروں کے مقابلے کے لیے پُرامن اور آئینی جدوجہد پر زور دیتے تھے، تشدد کا راستہ ان کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں تھا۔
سعید اظہر کا جو اعتراف بلاول بھٹو زرداری نے ان کی زندگی میں کیا تھا، لازم ہے کہ ان کے اِس دُنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی اسے برقرار رکھا جائے۔ ان کی تحریروں کو یک جا کیا جائے، اور پیپلز پارٹی جمہوری جدوجہد کے ایک ہیرو کے طور پر اُن کی یاد منانے کا اہتمام کرے۔ 4 اپریل 1979ء کے خلاف سر تا پا احتجاج بن جانے والے قلم کار کو بھلایا تو نہیں جا سکتا۔ اس پھانسی کے پاکستان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ یہ حرکت اس پولرائزیشن کا نتیجہ تھی، جو بھٹو صاحب کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان پیدا ہو گئی تھی۔ ان سے محبت اور نفرت کرنے والے اپنی اپنی ضد اور انتہا پر تھے، ان میں ایسے بھی تھے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے تھے۔ وہ بھٹو جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی سر توڑ کوشش کی تھی، اور اہلِ وطن کو 1973ء کے متفقہ آئین کا تحفہ دیا تھا‘ وہ آئین جو آج بھی پاکستانی قوم کے سیاسی اتحاد کی مضبوط ترین بنیاد ہے۔ وہ بھٹو جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب دیکھا تھا، اور اسے ناقابلِ تسخیر بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ وہ بھٹو جنہوں نے دِل شکستہ پاکستانی قوم کو اسلامی سربراہ کانفرنس کا لاہور میں انعقاد کر کے توانائی کا نیا احساس دیا تھا، ان کی اپنی اپوزیشن کے ساتھ ایسی بگڑی کہ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا۔ تحریک چلی اور دونوں کے درمیان کوئی معاملہ نہ ہو سکا۔ نئے انتخابات کے انتظامات پر سمجھوتہ ممکن نہ ہوا۔ ملک ایک بار پھر مارشل لاء کی نذر ہوا، اور بعد ازاں بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے والوں نے دھاندلی زدہ ریفرنڈم کے ذریعے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو صدر بنتے دیکھا، اور طویل عرصے تک انتخابات کو ترستے رہے۔ جب بھٹو صاحب کی پھانسی کا ذکر آئے گا، تو اس پر سراپا احتجاج بن جانے والے سعید اظہر کا ذکر بھی آئے گا جو سیاست دانوں کو جیو اور جینے دو کی افادیت کا احساس دلاتا جائے گا کہ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی خواہش حد سے گزر جائے تو سب کچھ زیر و زبر ہو سکتا ہے، بلکہ یہ کہیے کہ سب ہی زیر ہو سکتے ہیں۔ بھٹو تو پھانسی چڑھ گئے لیکن ایئر مارشل اصغر خان کے ہاتھ بھی خالی رہے۔ نوابزادہ نصر اللہ کا حقہ بھی گڑگڑاتا رہ گیا۔ مولانا مفتی محمود اور میاں طفیل کی جماعتیں بھی کالعدم کے لاحقے میں قید کر دی گئیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)