"MSC" (space) message & send to 7575

کورونا کے ساتھ زندگی

پوری دُنیا کو کورونا وائرس نے چکرا کر رکھ دیا ہے۔ انسانی تاریخ کی یہ انوکھی وبا انسانوں سے انسانوں کو منتقل ہوتی ہے، گویا اس سے بچنے کے لیے انسان کا انسان سے فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہو گیا ہے۔ بعض اوقات اس کی کوئی علامت بھی ظاہر نہیں ہو پاتی، اور یہ انتہائی خاموشی کے ساتھ ایک جسدِ خاکی سے دوسرے جسدِ خاکی میں منتقل ہو جاتی ہے۔ تین لاکھ سے زائد افراد اِس کی وجہ سے لقمۂ اَجل بن چکے ہیں، جبکہ لاکھوں بسترِ علالت پر پڑے ہیں، وہ معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کے قابل نہیں رہے۔ لاکھوں افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں اور لاکھوں صحت یاب ہو سکتے ہیں، مرنے والوں کی تعداد بچ جانے والوں سے کہیں کم ہے، لیکن جو بے یقینی اور خوف پیدا ہوا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ امریکہ اور یورپ تک لرز اُٹھے ہیں۔ اربوں، کھربوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ صنعتیں اور کاروبار بند ہو کر لاکھوں، کروڑوں کی بیروزگاری کی خبر دے رہے ہیں۔ جہاں اِس وبا کو محدود کیا جا چکا ہے، وہاں بھی کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق نہیں چل پا رہا۔ احتیاطی تدابیر کی چھتری تلے لوگ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے، بلکہ سانس لے رہے ہیں۔ ہزاروں سائنسدان اس کی ویکسین تلاش کرنے میں لگے ہیں۔ عالمی دوا ساز کمپنیوں میں بھی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کلینیکل ٹرائل چل رہے ہیں، امید افزا خبریں آ رہی ہیں اور مایوسی پھیلانے والے بھی موجود ہیں۔ کوئی دعویٰ کر رہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں کسی قطعی نتیجے پر پہنچ جائے گا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریسرچر کہہ رہے ہیں کہ وہ جون کے وسط تک بتا سکیں گے کہ اُن کی ویکسین کس درجہ کامیاب ہو گی۔ بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں یہ منصوبے بھی بنا رہی ہیں کہ ویکسین بڑے پیمانے پر کیسے تیار ہو گی، اور اسے دُنیا بھر میں کیسے پھیلایا جا سکے گا۔ اسے کاروباری کے بجائے انسانی معاملہ قرار دینے کے مطالبات بھی ہو رہے ہیں کہ اس کی قیمت کم سے کم ہو، اور یہ محض ترقی یافتہ مالک یا باوسیلہ افراد تک محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ ہر انسان تک ویکسین پہنچانا کوئی ایک دن، ایک ماہ کا معاملہ نہیں ہو گا۔ آکسفورڈ گروپ نے تجویز پیش کی ہے کہ ویکسین کی دریافت کے بعد اسے سب سے پہلے ڈاکٹروں اور اُن کے معاونین کو فراہم کیا جائے تاکہ وہ محفوظ ہو کر متاثرین کا علاج جاری رکھ سکیں۔ ڈاکٹروں کے بعد عمر رسیدہ اشخاص کو ترجیحی فہرست میں سب سے اوپر رکھنے کا کہا جا رہا ہے۔ جب تک ویکسین دریافت نہیں ہوتی دُنیا کو اس وائرس کے ساتھ رہنا ہے، اور اسے محدود سے محدود کرتے چلے جانا ہے۔
اس انفیکشن کا شکار ہونے والوں پر مختلف ادویات کے تجربے بھی کئے جا رہے ہیں۔ ریمڈسوائر (REMDESIVIR) نامی ایک دوا کو یوں کارگر پایا گیا ہے کہ اس کے استعمال سے صحت یابی کی رفتار میں تیزی واقع ہو جاتی ہے۔ دس، گیارہ دن میں مریض پازیٹو سے نیگٹو ہو جاتا ہے۔ اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ایک امریکی دوا ساز کمپنی نے جنوبی ایشیا کے پانچ دوا ساز اداروں کے ساتھ اس کی تیاری کے معاہدوں پر دستخط کر دیئے ہیں تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ مقدار میں تیار کرکے دُنیا بھر میں اس کی فراہمی (جلد سے جلد) ممکن بنائی جا سکے۔ پاکستان کے لیے باعثِ اعزاز بات یہ ہے کہ ہماری فیروز سنز لیبارٹریز کو بھی اس کے لیے منتخب کرکے اس سے معاہدہ کر لیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے انتہائی فخروانبساط کے ساتھ یہ اطلاع اہلِ وطن تک پہنچائی ہے۔
ویکسین کی تیاری کے حوالے سے پاکستان کا نام البتہ کہیں نہیں آ رہا۔ لاہور میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے چابکدست وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو کچھ ایسی بات بتائی تھی کہ انہوں نے جوش میں آ کر اعلان کر دیا کہ ویکسین کی تیاری کے لیے ہمارے ماہرین کام کر رہے ہیں، ہم جلد اس میں سرخرو ہوں گے اور دُنیا میں خود کو منوائیں گے۔ اس اعلان کو کئی ہفتے گزر چکے ہیں‘ اس کے بعد اس حوالے سے کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی۔ متعلقہ یونیورسٹی کے ذمہ دار منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں، اور کسی دوسرے سرکاری ادارے، حتیٰ کہ وفاقی وزیر فواد چودھری صاحب نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی۔ فی الحال اسے دیوانے کی بڑ قرار دے لیا گیا ہے۔ پاکستانی سائنس دانوں اور یونیورسٹیوں کے لیے کچھ مشکل نہیں تھا کہ اس طرح کی مہم سر کر سکتے، لیکن ہمارے ہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کو جس طرح مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا، اور ریسرچ اداروں کی جس طرح حوصلہ شکنی جاری رکھی گئی، اس نے اس میدان میں پیش قدمی کو ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور بنا دیا ہے۔ پاکستانی دُنیا کی ذہین ترین قوموں میں شمار ہوتے ہیں، ہمارے ماہرین دُنیا بھر میں مختلف شعبوں میں مہارت دکھا رہے ہیں، اور اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ آج بھی امریکہ اور برطانیہ میں کورونا کے خلاف جنگ لڑنے والوں میں پاکستانی ڈاکٹر پیش پیش ہیں۔ بھارت اس دوڑ میں یوں شامل ہے کہ اس کے دواساز ادارے مختلف بیماریوں کی ویکسین دُنیا کے 150 ممالک کو برآمد کر رہے ہیں، اور اب بھی اس کی آٹھ ریاستوں میں آٹھ مختلف مقامات پر کورونا وائرس کی ویکسین دریافت کرنے کے 14 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ایک پروگرام تو کلینیکل ٹرائل کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جبکہ چار بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے ویکسین کی دریافت کے منصوبوں کے لیے 100 کروڑ روپے فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
پاکستان کورونا وائرس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ یہاں جو ڈھیلا ڈھالا لاک ڈائون کیا گیا تھا، اُسے اب کھولا جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس کے پھیلائو کے خدشات ظاہر کرتے چلے جا رہے ہیں، لیکن معمول کی سرگرمیاں بحال کرنے کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ یہاں بازاروں کی رونقیں واپس آ رہی ہیں، مختلف صنعتی ادارے کھولے جا رہے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کی اجازت دینے کے لیے بھی سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا۔ گھر سے باہر نکلنے والے نہ ماسک استعمال کر رہے ہیں، نہ سینی ٹائزرز کی پروا کر رہے ہیں، نہ ہی سماجی فاصلہ برقرار رکھنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ حکومت اِس حوالے سے بے بسی کا اظہار کرتی پائی جاتی ہے، لیکن اس طرح کے اظہار سے کام نہیں چلے گا۔ آگاہی پروگرام بڑے پیمانے پر چلانا ضروری ہے۔ میڈیا کے ذریعے بھرپور مہم چلائی جانی چاہیے، سڑکوں اور بازاروں میں قد آدم بورڈ بھی نصب کیے جائیں جن پر جلی حروف میں ہدایات لکھی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والوں اور رضا کاروں کا تعاون بھی درکار ہے۔ اگر بھرپور کوشش کی گئی تو پھر لوگوں کو نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھالا جا سکے گا۔ اس کے بغیر وائرس کے پھیلائو کا خطرہ شدید رہے گا۔ کورونا کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھنا ہو گا۔ ٹرین کی پٹڑی پر لیٹ کر حیاتِ جاوداں کی دُعا نہیں کی جا سکتی۔ بارش میں کھڑے ہو کر گیلا ہونے سے نہیں بچا جا سکتا۔ اس کے لیے چھتری کے نیچے آنا پڑے گا۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقا اگر اِس معاملے میں ڈھیلے پڑ گئے تو پھر لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔
کورونا وائرس اور شرعی مسائل و تدابیر
اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رانا محمد شفیق خان پسروری نے پونے تین سو صفحات پر مشتمل کتاب مرتب کرکے شائع کی ہے، جو کورونا وائرس کے حوالے سے ایک مفید دستاویز کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اِس وبا کے دوران عبادات اور معاملات کو کس اسلوب میں ڈھالنا چاہیے، علمائے کرام کی ہدایات اِس ضمن میں کیا ہیں، عالمِ اسلام میں کیا کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے، یہ سب تفصیل جمع کر دی گئی ہے۔ اِس بروقت کاوش پر رانا صاحب کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ اپنے موضوع پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، پہلی فرصت میں جس کا مطالعہ کر لینا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں