ایک طرف کورونا کی یلغار جاری ہے، اس کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم حسب معمول تقریریں کرنے میں مصروف ہیں، سمارٹ لاک ڈائون کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کے لئے خود ذمہ داری اٹھانے کے اعلانات بھی کئے جا رہے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اب جناب وزیر اعظم بنفس نفیس پورے ملک پر نظر رکھیں گے اور جہاں قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھرتے دیکھیں گے، وہاں کاری ضرب لگائیں گے۔ ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں کورونا کا مرکز بن جانے والے علاقوں کو سیل کر دیا جائے گا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، اور اس وائرس کے سامنے ''سپیڈ بریکر‘‘ لگائے جا سکیں‘ اس کی رفتار کو محدود کیا جا سکے۔ وزیر اعظم بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہمیں اس وائرس سے نجات نہیں ملنے والی، جب تک اس کی ویکسین دریافت نہیں ہو گی، یہ ہمارے درپے رہے گا۔ اس سے کوئی مفر نہیں ہے۔ ان کی ایسی گفتگو سن کر یوں لگتا ہے کہ کورونا حوصلہ پکڑ لیتا ہے ؎
کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا
چارہ گروں نے اور بھی درد کا دل بڑھا دیا
دنیا میں نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا اور یونان کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم تو اپنے آخری بیمار کی شفا یابی کا اعلان کرتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھیں۔ یہی حال جنوبی کوریا اور یونان کا ہے کہ وہاں بھی معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔ گیارہ ملین کا ملک یونان ہر سال اپنی آبادی سے تین گنا تعداد میں سیاحوں کا سواگت کرتا ہے کہ یہ اس کا بڑا ذریعہ آمدن ہے۔ وہاں کی حکومت نے اپنے دروازے سیاحوں پر کھول دیئے ہیں اور آئندہ سال پچاس لاکھ ''مہمانوں‘‘ کی میزبانی کے انتظامات کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک بھی معمول کی طرف لوٹ رہے ہیں اور وائرس کو محدود سے محدود تر کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی صلاحیت کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، ان کا اصرار رہا ہے کہ ان کی لغت میں نا ممکن کا لفظ نہیں۔ انہوں نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر دنیا کو حیران کر دکھایا تھا، پھر شوکت خانم کینسر ہسپتال تعمیر کر کے اور چلا کے دکھا دیا تھا، میدان سیاست میں بھی اپنے نا قابلِ تسخیر ہونے کا ثبوت فراہم کیا اور کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ کورونا کی افتاد سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی وہ تازہ عزم کے ساتھ میدان میں اتریں گے اور دنیا کو اسے محدود سے محدود تر کر کے دکھا دیں گے۔ ووہان کے تجربے میں اضافہ کریں گے اور پاکستان کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کر گزریں گے جنہوں نے اس عفریت کی بھاگنے دوڑنے کی صلاحیتیں سلب کر کے ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ یہ توقع تا حال پوری نہیں ہو سکی، وزیر اعظم اپنے حامیوں اور مخالفوں کو یکجا کر کے ایک ایسی ٹیم کی تشکیل نہیں کر پائے جو کورونا مخالف ورلڈ کپ جیت سکے۔ پرانی سیاست گری ہنوز دیکھنے میں آ رہی ہے۔ مخالفوں کے لتے لئے جا رہے ہیں۔ ان پر مقدمے بن رہے ہیں، برسوں پرانے تنازعات زندہ کئے جا رہے ہیں۔ دوڑیو، ماریو، پکڑیو کا ہنگامہ برپا ہے، قائد حزب اختلاف شہباز شریف پیشیاں بھگتتے بھگتتے کورونا پازیٹو ہو گئے ہیں لیکن وزیر اعظم نے ان کی مزاج پرسی کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ یہ سطریں لکھی جا رہی تھیں کہ سینیٹر محسن شاہ نواز رانجھا کی نیب طلبی کی خبر بھی آ گئی۔
کورونا زدہ ماحول میں بجٹ پیش کیا جا رہا ہے تو افسردگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ترقی کے خواب تو کیا دیکھے جاتے جو پاس ہے اس کو سنبھالنا مشکل ہو چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہم کئی سال پیچھے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال بار بار بتا رہے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 84 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔ یہ 231 ارب ڈالر سے 315 ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی۔ اس میں 51 ارب ڈالر کی کمی واقع ہو گئی ہے اور اب اس کا حجم 264 ارب ڈالر ہے۔ فی کس آمدنی 310 ڈالر کے اضافے کے ساتھ 1334 ڈالر سے 1652 ڈالر ہو چکی تھی، اب اس میں 297 ڈالر کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کی دو سالہ حکومت کے دوران یہ 1355 ڈالر ہو گئی ہے یعنی ہر شخص کم وسیلہ ہو گیا ہے۔ ہر شخص کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکالا جا چکا ہے‘ ہر شخص کی جیب کٹ چکی ہے۔
کورونا سے پہلے ہی معیشت کا سانس پھولا ہوا تھا، اب کورونا نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ وزیر صنعت حماد اظہر نے جو بجٹ پیش کیا ہے، وہ ریکارڈ خسارے کا بجٹ ہے۔ 71 کھرب 37 ارب کے اخراجات کا تخمینہ ہے، جبکہ آمدنی 3437 ارب کم ہو گی۔ ایف بی آر کا ٹیکس وصولی کا ہدف 4963 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہوا۔ وزیر موصوف کا دعویٰ ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، لیکن کئی ماہرین اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں سے نئے محصولات برآمد کر کے دکھا رہے ہیں۔ اقتصادی شرح نمو کا ہدف 271 فیصد رکھا گیا ہے لیکن معاشی ماہرین کی بھاری تعداد کے مطابق یہ منفی رہے گی۔ گویا نئے بجٹ نے امید کے چراغ روشن نہیں کئے، مشکلات کی نشان دہی کی ہے، آنے والا سال بے روزگاری اور کساد بازاری کا سال نظر آتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کیا رنگ دکھائے گی، اس کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
اسباب اور وجوہات سے قطع نظر معاملات سب کے سامنے ہیں، ترقی کا سفری جاری نہیں رہ پایا۔ سیاسی اور معاشی ماہرین اپنے اپنے زاویے سے جائزے لے رہے ہیں، حکومت پر برس رہے ہیں، اس کے لتے لے رہے ہیں تو اس کی بلائیں لینے والے بھی موجود ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ قوم کو درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی توانائی کی فراہمی کی ضرورت کسی کو سجھائی نہیں دے رہی۔ اختلافات اور تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھنے کے ایجنڈے پر اتفاق ہونا تو دور کی بات ہے، اس کی افادیت بھی کسی کو دکھائی نہیں دے رہی۔ آپا دھاپی اور نفسا نفسی ہمیں کہاں لے جائے گی، کس قدر پیچھے دھکیلے گی، اسے دیکھنے کے لئے آنکھوں کو کسی سلیمانی سرمے کی ضرورت نہیں، پاکستانی قوم کے کھیون ہارو، اپنی ذات سے، اپنی جماعت سے، اپنے گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر دکھائو گے تو آگے بڑھ پائو گے... دیوار کا لکھا پڑھتے کیوں نہیں ہو؟ اندھیرے میں روشنی کی کرن یوں نمودار ہوئی کہ جنرل قمر باجوہ نے اپنے کالج فیلو شیخ رشید کے ساتھ ساتھ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی مزاج پرسی کے لئے بھی فون کال کی ہے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شرکت کی اہمیت کا احساس دلایا۔ پتھر دل سیاست اس کال کو مثال بنا لے تو سفر آسان ہو سکتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)