جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں دائر کردہ صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا تو احاطۂ عدالت میں جشن کا سماں دیکھنے میں آیا۔ قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے (یا ان کے حق میں) پیش ہونے والے وکلا کی مسرت دیدنی تھی۔ ان کے چہرے وفور مسرت سے سرخ ہو رہے تھے، اور ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرانے کے لیے سبقت لے جانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ با وقار اور با اعتبار قانون دان حامد خان اس فیصلے کو تاریخی قرار دے رہے تھے، تو سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنزائی بھی پُر جوش اظہارِ خیال کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ بار کے موجودہ صدر صدر قلب حسن بھی ان کی مسرتوں میں شریک تھے۔ بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کا چہرہ بھی تمتما رہا تھا۔ منیر اے ملک کہ عدلیہ آزادی تحریک کے ساتھ ان کا نام جڑا ہوا ہے، جسٹس افتخار چودھری سے لے کر جسٹس فائز عیسیٰ تک انہوں نے مسلسل کردار ادا کیا ہے، ان کی خوشی بھی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ وکیلانہ احتیاط کے ساتھ وہ اپنے جذبات کو زبان دے رہے تھے۔ کہا جا رہا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے کر، اور سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے ان کا جاری کیا جانے والا اظہارِ وجوہ کا نوٹس خارج کر کے سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ صادر فرما دیا ہے۔ آئین کی بالا دستی کے لیے اٹھایا جانے والا یہ قدم ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی ظفر ٹی وی سکرین پر دو ٹوک انداز میں اسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جیت قرار دے رہے تھے، اور اس حوالے سے کوئی لفظ چھپانے یا چبانے پر تیار نہیں تھے۔ ان کا تاثر تھا کہ فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے، صدارتی ریفرنس اس سے ہوا میں اڑ گیا ہے۔ ایک طرف جذبات کی یہ فراوانی تھی، تو دوسری طرف حکومتی وکیل اور سابق وزیر قانون فروغ نسیم کہہ رہے تھے کہ یہ معاملہ کسی کی ہار جیت کا نہیں ہے، لیکن اگر آپ اس حوالے سے بات کریں گے تو پھر مجھے کہنے دیجیے کہ جیت ہماری ہوئی ہے۔ ہمارا موقف تھا کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ اس سے کوئی شخص بالاتر نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے قاضی صاحب کی مبینہ جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوا کر تحقیق کرنے کی جو تجویز دی تھی، ہمیں اس سے اختلاف نہیں تھا۔ ہم عدالت کے سامنے اس پر رضا مندی کا اظہار کر چکے تھے، اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ شام کو جناب شہزاد اکبر وزیر اطلاعات شبلی فراز کی معیت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اطمینان کا اظہار کر رہے تھے، ان کے نزدیک یہ ایک احسن فیصلہ تھا۔
حزبِ اختلاف کی بڑی اور چھوٹی جماعتیں بھی حرکت میں آ چکی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے لے کر عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی تک نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے ''غیر آئینی، غیر قانونی، جھوٹا اور بدنیتی‘‘ پر مبنی ریفرنس دائر کرنے پر صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ''ایسٹ ریکوری یونٹ‘‘ کی حقیقت قوم کے سامنے کھل گئی ہے (کہ یہ قانونی جواز نہیں رکھتا) اس لیے اسے فی الفور بند کیا جائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے مُلک بھر کی وکلا برادری کو یہ کہہ کر خراجِ تحسین پیش کیا تھا کہ اس کے اتحاد اور عزم کے سامنے فسطائی سوچ ڈھیر ہو گئی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کو چیلنج کرنے میں پاکستان بھر کے قانون دانوں اور ان کے منتخب اداروں نے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا، اور ایک بار پھر یہ بات واضح کر دی کہ وہ آئین کی بالا دستی کے لیے جدوجہد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے ان کا عزم اسی طرح تروتازہ ہے، جس طرح برسوں پہلے تھا۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ ریفرنس جس انداز میں بنایا گیا، اور جس طرح یہ ایوانِ صدر سے سپریم جوڈیشل تک پہنچا، اس تفصیل نے سامنے آ کر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جن کا جواب حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی شخص احتساب سے بالاتر نہیں ہونا چاہئے، لیکن جب عدالتی کارروائی کے دوران احتساب عدالت کے اس جج کا تذکرہ آیا جس کی شرمناک ویڈیو نے اس کے کردار کو مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے، تو یہ واضح ہو گیا کہ احتساب کی دلدادہ حکومت نے مذکورہ جج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یاد رہے‘ الزام لگایا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مقدمے میں فیصلے کو متاثر کرنے کیلئے ان موصوف کی ایک شرمناک ویڈیو کا دبائو استعمال کیا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دلدادگانِ احتساب اس کے فوراً بعد حرکت میں آ جاتے اور مذکورہ جج کے معاملے کی تحقیقات کر کے متعلقین کو کیفردار تک پہناتے، لیکن اس معاملے میں خاموشی، بلکہ بے عملی نے احتسابی دعوے کا وزن برقرار نہیں رہنے دیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کی جائیداد کا معاملہ ایف بی آر کے سامنے تفتیش کے لئے رکھا جائے گا، اور ایک معینہ مدت میں اس کی طرف سے رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائی جائے گی، کونسل نے اگر ضرورت سمجھی تو کوئی کارروائی کرنے کے بارے میں غور کر سکے گی۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر فروغ نسیم اطمینان (بلکہ مسرت) کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن توقع رکھنی چاہیے کہ یہ معاملہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہو جائے گا۔ جسٹس قاضی کی اہلیہ نے جس با اعتماد لہجے میں سپریم کورٹ کے سامنے ''منی ٹریل‘‘ پیش کی، اور فاضل ججوں کو مطمئن کیا، اسی طرح وہ ایف بی آر کے سامنے بھی حقائق پیش کر سکیں گی۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ایف بی آر کے حوالے سے جو ہدایات دی گئی ہیں، اور سپریم جوڈیشل کونسل کو جس طرح کسی نئے ریفرنس کے بغیر معاملے پر غور کرنے کا حق دے دیا گیا ہے، اس سے ابہام پیدا ہوا ہے، اور تضاد بھی۔ وہ صدارتی ریفرنس جو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے، اس کے کسی جز کو دوبارہ زندہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ وہ نکتہ ہے جس پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے، وکلا رہنمائوں اور تنظیموں کو اس کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا۔
پیارے جو چل بسے
گزشتہ چند روز کے دوران کئی صدمے برداشت کرنا پڑے، دُنیائے ابلاغیات کی نامور شخصیت طارق عزیز سے ہم محروم ہو گئے۔ ہمدم دیرینہ دوست محمد فیضی بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ ان سے تعلق عشروں پرانا تھا۔ کراچی کی سماجی اور سیاسی زندگی میں انکا کردار نمایاں رہا۔ صوبائی وزیر رہے، قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، برسوں پہلے مسلم لیگ ن سے تعلق جوڑا پھر کسی اور طرف نہیں دیکھا۔ یہ غم ابھی ہلکا نہیں ہوا تھا کہ لاہور اخبار فروش یونین کے صدر چودھری نذیر احمد آناً فاناً رخصت ہو گئے۔ چند روزہ بیماری کے بعد دُنیا سے منہ موڑ لیا۔ وہ اپنے چچا چودھری رشید احمد (مرحوم) کے جانشین تھے، اور اپنے جواں ہمت والد چودھری منظور کی آنکھوں کا نور۔ اخبار نویسوں کی خدمت کیلئے خود کو وقف کیے رکھا۔ روزنامہ پاکستان سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا‘ اس کے سرپرست بھی تھے اور کارکن بھی۔ انہوں نے اپنے چچا کی جانشینی کا حق ادا کیا، وہ دِلوں میں زندہ رہیں گے، اُنہیں میدانِ صحافت کے ایک با ہمت سالار کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ اخبار فروشی کے بغیر اخبار نویسی کا تصور ممکن نہیں ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)