سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے پاکستان میں جاری احتساب کے عمل اور نیب کی کارکردگی کے بارے میں 87 صفحات پر مشتمل جو فیصلہ جاری کیا ہے، اس نے ایوانوں اور میدانوں میں ایسا ہنگامہ اٹھا دیا ہے کہ جس کے اثرات سمٹنے میں نہیں آ رہے۔ جسٹس مقبول باقر کے تحریر کردہ اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے، قانون اور سیاست پر غیر جانبدارانہ نظر رکھنے والا ہر شخص فاضل بنچ کو خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے، اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس کے بعد اقتدار اور اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے والے اہلِ سیاست ہوش کے ناخن لیں گے، اور ایک دوسرے کو زچ کرنے کی خواہش سے اوپر اٹھ کر قانون سازی کریں گے، اور غیر جانبدارانہ احتساب کو ممکن بنانے کی سعی کریں گے۔ اس مقصد کے لئے سپیکر قومی اسمبلی نے ایک کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی قائم بھی کر دی ہے، لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس رفتار اور مقدار سے اپنا کام مکمل کر سکے گی۔
سپریم کورٹ کا زیر بحث فیصلہ اگرچہ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کی درخواستوں پر صادر ہوا ہے‘ لیکن اس میں ہماری تاریخ اور سیاست کا وسیع تر تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ خواجہ برادران کو سولہ ماہ قید میں گزارنا پڑے، اور یوں انہیں کاروباری، سیاسی، نفسیاتی اور جذباتی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا گیا۔ کسی بے گناہ شخص کو ایک سال تو کیا ایک دن بلکہ ایک لمحے کے لیے بھی آزادی سے محروم کر دینے کا کوئی تصور کسی مہذب معاشرے میں موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں نہ تو شخصی بادشاہت ہے، نہ آمریت، اس کا نظام ایک باقاعدہ تحریری دستور کے تحت چلانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، جس میں شہریوں کے انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے مطابق ہر شہری کا یہ حق ہے کہ اس سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، اور قانون میں دیئے گئے طریق کار (ڈیو پراسیس) پر عمل کیے بغیر کسی کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جا سکے۔ خواجہ برادران کے معاملے میں قانون کو جس طرح نظر انداز کیا گیا، کسی اختیار یا جواز کے بغیر ان کے خلاف جو ظالمانہ کارروائی کی گئی، اس بارے میں اب کوئی دلیل لانے کی ضرورت نہیں، سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کے الفاظ چیخ چیخ کر اس کا اعلان کر رہے ہیں۔ اگر کسی اور ملک میں اس طرح کا فیصلہ صادر ہوا ہوتا تو شاید وہاں کشتوں کے پشتے لگ جاتے۔ اگر جاپان میں ایسا ہوتا تو ممکن ہے درجنوں افراد خود کشی کر چکے ہوتے کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ اگر برطانیہ تو کیا نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا میں ایسا ہوتا تو متعدد ذمہ دار اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہوتے، لیکن پاکستان میں کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اہلِ سیاست کی بڑی تعداد نے بھی اپنے اپنے مفادات کے تابع اس پر اظہارِ خیال کیا ہے، ان کے رد عمل میں وہ فعالیت دیکھنے میں نہیں آئی جو کہ اس فیصلے کا لازمی نتیجہ ہونی چاہیے تھی۔
نیب قانون کے مطابق کسی عدالت کو اس کے ملزموں کی ضمانت لینے کا اختیار حاصل نہیں، اعلیٰ عدالتوں نے دستور کی دفعہ 199 کے تحت رٹ جاری کرنے کے اختیار کو استعمال میں لاتے ہوئے کئی ملزمان کی ضمانتیں لی ہیں، لیکن درجنوں افراد ابھی تک جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جن کے خلاف طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ریفرنس دائر نہیں کئے گئے اور ایسے بھی ہیں جن کے ریفرنسز کی سماعت ہی ممکن نہیں ہو سکی، جبکہ قانون کے مطابق 30 دن کے اندر اندر کسی بھی مقدمے کا فیصلہ ہو جانا چاہئے۔ اِس بات کا اظہار بھی کیا جانا چاہیے کہ ہمارے عدالتی نظام نے ضمانت کے حق کے بارے میں ابہام پیدا کیے رکھا ہے، اعلیٰ ترین عدالت نے جس قطعیت کے ساتھ اب اس معاملے میں رائے دی ہے، امید کی جانی چاہئے کہ اس کے اثرات زیریں عدالتوں پر بھی پڑیں گے، اور وہاں ضمانت کی درخواست کی ایک آزاد شہری کے حق کے طور پر سماعت ممکن ہو سکے گی۔
کسی شخص پر الزام لگا کر اس کی تشہیر کرنے اور اپنے اپنے پالتو بھونپو اس پر چھوڑ دینے کی روش پاکستان کی ریاست میں اس قدر عام ہوئی ہے کہ اس نے سفید اور سیاہ کی تمیز مٹا دی ہے، دستور کی دفعہ 184 کے تحت سپریم کورٹ کو انسانی حقوق کی پاسبانی کے جو اختیارات حاصل ہیں‘ انہی کے ذریعے کئی افراد کے انسانی حقوق سلب ہوئے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی احکامات صادر کیے گئے ہیں کہ ان کے خلاف اپیل کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ دُنیا بھر میں اپیل کے حق کو ایک مسلمہ اصول کے طور پر بلکہ انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، جس قانون کے تحت کسی ملزم کو (کم از کم) ایک اپیل کا حق حاصل نہ ہو، اُسے کالا قانون تصور کیا جاتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کے تحت ہر طرح کے قاتل، ڈاکو اور لٹیرے اپنے خلاف فیصلے کی صورت میں دو اپیلوں کا حق رکھتے ہیں۔ سیشن کورٹ کے خلاف ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مسلمہ حق انہیں حاصل ہے۔ اور تو اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی تو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اسے اپیل کا حق دینے پر زور دیا۔ اس کورٹ کے فیصلے کے تابع حکومت پاکستان نے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کرایا ہے‘ جس کے تحت کلبھوشن یادیو کو اپنی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ اس نے اپنا یہ حق استعمال کرنے میں پس و پیش کی تو خود وزارتِ قانون عدالت پہنچ گئی کہ وہاں سے اس کے لیے وکیل مقرر کرا کے اس کا معاملہ زیر سماعت لایا جا سکے‘ اور یوں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کا اہتمام ہو جائے۔ مذکورہ آرڈیننس قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش ہوا تو اس پر حزبِ اختلاف نے ہنگامہ کھڑا کر دیا، اور بلاول بھٹو زرداری نے انتہائی شدید رد عمل کا اظہار کیا کہ بھارتی جاسوس کو یہ ''رعایت‘‘ کیوں دی جا رہی ہے؟ حکومتی بنچوں کی طرف سے جوابی استدلال یہی تھا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایسا کرنا لازم ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دستور کی دفعہ (3)184 کے تحت عمر بھر کے لیے عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ وہ کسی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ اسی طرح کا فیصلہ جہانگیر ترین کے خلاف بھی دیا گیا، اور انہیں بھی تا حیات انتخاب لڑنے سے روک دیا گیا۔ انہیں بھی اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، ان کی قسمت پر بھی مہر لگا دی گئی۔ بھارتی جاسوس کو اپیل کا جو حق دیا جا رہا ہے، تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم اور پاکستان کی (انتخابی نتائج کے اعتبار سے) دوسری بڑی سیاسی جماعت جس نے گزشتہ عام انتخابات میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں، کے قائد اعلیٰ کو نہیں دیا جا سکا۔ وزیر اعظم عمران خان کی مسند نشینی کا اہتمام کرنے والے جہانگیر ترین بھی شاید توازن کا تاثر قائم رکھنے کی کوشش کا نشانہ بن گئے۔ انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے آرڈیننس جاری کرنے والوں کو کیا اپنے تمام شہریوں کو بھی اپیل کا حق دینے کا اہتمام نہیں کرنا چاہئے؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)