جنرل محمد ضیاالحق اور ان کے رفقا کے حوالے سے (گزشتہ کالم میں) یہ عرض کیا گیا تھاکہ افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل ان کی دو ایسی کامیابیاں (Achievements) ہیں کہ پاکستانی قوم اور اس کے اداروں نے جن کے اعتراف کا حق ادا نہیں کیا۔ اس کا ہمارے بعض دوستوں نے بہت بُرا منایا، سوشل میڈیا پر بھی دِل کے پھپھولے پھوڑے گئے اور باقاعدہ کالم آرائی کرکے بھی غبار نکالا (یا اڑایا گیا)۔ برادر عزیز مظہر عباس تو یہ دور کی کوڑی بھی لائے کہ مَیں (راقم الحروف) چند مدیران اور مالکان اخبارات کے اُس وفد کا حصہ تھا، جس نے جنرل ضیا الحق سے اکتوبر1977ء میں ہونے والے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا تھا، کہ بھٹو کی ان میں جیت یقینی تھی۔ ان کا ارشاد ہے کہ یہ مطالبہ کرنے والے سے ضیاالحق کے بارے میں اس طرح کے اظہار پرکوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے قطع نظر کہ اکتوبر1977ء کے انتخابات کیوں ملتوی ہوئے تھے،اور میرا اس میں کیا کردار تھا، ان کی خدمت میں یہ ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس بارے میں مالکان یا مدیران اخبارات کا کوئی وفد (میری اطلاع کی حد تک) جنرل ضیاالحق سے کبھی نہیں ملا، اور نہ ہی مَیں ایسے کسی وفد کا حصہ بن کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مظہر عباس ایک سنجیدہ اور ذمہ دار اخبار نویس سمجھے جاتے ہیں، کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ دوٹوک انداز میں یہ تاریخی اعلان کرنے سے پہلے مجھ سے براہِ راست بات کرکے معلوم کر لیتے۔ سنی سنائی پر یقین کر لینے اور اسے آگے پھیلا دینے ہی سے پاکستان کی تاریخ، صحافت اور سیاست میں کئی الجھائو پیدا ہوئے ہیں۔ اکتوبر1977ء میں انتخابات کے انعقاد کا جو اعلان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے کیا گیا تھا، اس کو عملی جامہ کیوں نہ پہنایا جا سکا‘ یہ ایک الگ کہانی ہے، جو پھر کسی وقت بیان ہوگی۔ فی الحال یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ واقعاتی طور پر مَیں نے کسی وفد کا حصہ بن کر اس معاملے میں جنرل ضیاالحق سے ملاقات نہیں کی۔ برادر محترم محمد حنیف نے کہ جن کے اسلوب کا مَیں قائل اور گھائل ہوں، اور جن کی پنجابی سن کر مجھے ان پر رشک آ آ جاتا ہے، پہلے تو ٹویٹ کیا کہ جنرل ضیاالحق کے نام پر اب شہروں اور شاہراہوں کے نام رکھے جا سکتے ہیں۔ انہیں فیلڈ مارشل نہیں بنایا گیا تو اب بسم اللہ کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کالم تحریر کردیا۔ میرے بھائی (یا بھتیجے) اشعر رحمن نے بھی روزنامہ ''ڈان‘‘ میں اس معاملے کو موضوع بنایا، اور مجھ پر ''وفادارِ ضیا‘‘ (Zia Loyalist) کی پھبتی کسی۔ اس کے بعد حسبِ توفیق برہمی کا اظہار کر گزرے۔ جنرل ضیاالحق کے کسی کارنامے کے اعتراف کا یہ مطلب کیسے نکل آیاکہ یہ ان کی ''وفا داری‘‘ کا نتیجہ ہے۔ ان کا مَیں اُس وقت بھی احترام کرتا تھا، جب وہ دُنیا میں موجود تھے، اور اب بھی اُن کا نام احترام سے لینا ضروری سمجھتا ہوں جب اعجازالحق کی ''ضیا‘‘ مسلم لیگ کے بغیر ان کا کوئی نام لیوا نہیں رہا۔ جن جن لوگوں کو انہوں نے پروان چڑھایا، جن کی درازیٔ عمر کی دُعا کرتے رہے، اور اقتدار کے ایوانوں میں انکا داخلہ ممکن بنایا، آج وہ بے حجابانہ ان کا نام بھی نہیں لیتے، تو یہ ان کا معاملہ ہے۔ کسی شخص کو محض اس لیے ہدف بنایا جائے کہ وہ اقتدار میں نہیں رہا، شیوۂ مردانگی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ''جمہوریت‘‘ میں مجھے اپنا ہفت روزہ شائع کرنے کیلئے ڈکلیریشن تک نہ مل سکا۔ زنداں کے دروازے بھی کھلتے رہے۔ انکے مارشل لا نے سزا بھی سنائی۔ میرے ہفت روزوں سے (جو دوسرے پبلشرز سے عاریتاً حاصل کیے جاتے تھے) بار بار ضمانتیں بھی طلب کی جاتی رہیں۔ سرکاری اشتہارات تو کیا نیوزپرنٹ کا کوٹہ تک کبھی جاری نہ کیاگیا۔ بازار سے مہنگے داموں کاغذ خریدنے پر مجبور کیا جاتارہا۔ طرح طرح کی دھمکیاں الگ ملتی رہیں۔ اس کے باوجود بھٹو صاحب کا نام مَیں اب بھی احترام سے لینا لازم سمجھتا ہوں۔ انکے اقتدار کے دوران بھی ''اوئے، توئے‘‘ کی صحافت نہیں کی۔
دوستوں کو جو بات بہت ناگوار گزری ہے، اس کا پورے کالم میں کہیں ذکر نہ تھا۔ جنرل ضیاالحق کی خوبیوں کا اعتراف ان کے مارشل لا یا تمام پالیسیوں کی حمایت نہیں۔ اگر تربیلا ڈیم یا منگلا ڈیم کی تعمیر پر فیلڈ مارشل ایوب خان کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتاکہ ان کے مارشل لا کی حمایت کی جا رہی ہے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اس پر خراجِ تحسین پیش کیا جائے کہ وہ بھارت سے ہزاروں جنگی قیدی واپس لائے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی حمایت کرنے پر ان کی تعریف کی جارہی ہے۔ اگر 1973ء کا متفقہ دستور بنانے میں ان کے بنیادی کردار کو سراہا جائے تو اس کا یہ مطلب کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ بلوچستان پر اُن کی لشکرکشی اور خان عبدالولی خان مرحوم اور ان کے رفقا کے خلاف ان کے بھیانک اقدامات کی تعریف کی جارہی ہے۔ اگر ایٹمی پروگرام کے آغاز پر بھٹو مرحوم کو ایصال ثواب کیا جائے تو اِس کا یہ مطلب کیسے ہوگا کہ نواب محمد احمد خان، خواجہ رفیق، ڈاکٹر نذیر، مولوی شمس الدین شہید اور دوسرے کشتگانِ ستم کو تہہ تیغ کرنے پرمہر تصدیق ثبت کی جارہی ہے۔
جنرل ضیاالحق ہوں‘ ذوالفقار علی بھٹو یا کوئی اور صاحب، پاکستانی سیاست اور تاریخ میں ان کی منفی یا مثبت کنٹری بیوشن کا جائزہ لیاجاتا رہے گا۔ کسی شخص کو محض فوجی جنرل ہونے کی بنیاد پر اس طرح گردن زدنی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس کی کسی بھی خوبی کا اعتراف نہ کیا جائے اورکسی سیاستدان کے ہاتھ میں محض سویلین ہونے کی بنیاد پر پروانہ عظمت نہیں تھمایا جاسکتا، خواہ اس کے ہاتھ شہری آزادیوں ہی سے نہیں، شہریوں کے خون سے بھی رنگے ہوئے کیوں نہ ہوں۔ فوج ہماری ہے اور سیاستدان بھی ہمارے، دونوں کوان کا جائز حق دینا ہوگا۔ کسی ایک ادارے کے کسی ایک اقدام سے اختلاف (یااس کی مذمت) کا مطلب نہ یہ ہے، نہ نکالا جا سکتا ہے، اور نہ اہلِ پاکستان نکالنے دیں گے کہ اسے یکسر مسترد کردیا جائے۔ جن اصحاب کو جنرل ضیاالحق کی سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمت کا ذکر کرنا گراں گزرتا ہے یا وہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دینے پر ان کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کر سکتے، وہ اپنے دِل کا علاج کرائیں یا نظر کا یا پھر دونوں کا۔ چلتے چلتے ایک واقعہ سناتا جائوں کہ جنرل ضیاالحق نے 79ء کے انتخابات ملتوی کئے تو کچھ عرصہ بعد یوم حمید نظامی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مَیں نے اس پرسخت تنقید کی اور انتخابات کی نئی تاریخ کا مطالبہ کیا۔ اس دوران سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوچکی تھیں۔ اس تقریر کا شہرہ سن کر محترم حبیب جالب میرے ہفت روزہ کے دفتر میں تشریف لائے (وہ وقتاً فوقتاً یہ اعزاز بخشتے تھے) اس پر مجھے مبارکباد دی تو ان سے عرض کیا گیاکہ آپ میرے ساتھ ایک مشترکہ بیان پر دستخط کریں تو آپ سے مبارکباد وصول کی جائے گی۔ پوچھنے لگے، وہ کیا بیان ہے؟ گزارش کی‘ ہم دونوں مل کرمطالبہ کریں گے کہ پاکستانی فوج اسلام آباد سے اور سوویت فوج کابل سے واپس ہو جائے۔ وہ راولپنڈی کا رُخ کر لے اور وہ ماسکو کا۔ دونوں اپنی اپنی بیرکوں میں چلی جائیں۔ اس پر وہ برجستہ بولے: سوویت فوج توانقلاب کی علمبردار ہے‘ سورج ہے، سورج کی کرنیں لے کر کابل پہنچی ہے‘ اس کی واپسی کا مطالبہ تونہیں کیا جا سکتا۔ جواب دیا گیا: پھر تقریر کی مبارکباد واپس لے جائیں، اسے وصول نہیں کرنا ہے۔ ہمارے درمیان جن الفاظ کا تبادلہ اس کے بعد ہوا، ان کی تفصیل اس لیے بیان نہیں کی جا سکتی کہ جالب اب اِس دُنیا میں نہیں ہیں۔ یہاں موجود ہوتے تو سب تفصیل بیان کی جاتی، سن کر آپ کو (اور شاید انہیں بھی) کچھ نہ کچھ لطف تو ضرور آتا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)