"MSC" (space) message & send to 7575

یہ تجربے کی بات ہے…

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی گاڑی رواں دواں ہے۔ فراٹے نہ بھر رہی ہو تو بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رینگ رہی ہے۔ اچھی خاصی رفتار سے چلتی چلی جا رہی ہے (اور چلتی ہی کا نام گاڑی ہے)، مولانا فضل الرحمن ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں، جبکہ ہر سواری کنڈکٹر بنی ہوئی ہے، اپنی مرضی سے اسے بھگانا یا ٹھہرانا یا ''درمیانا‘‘ چاہتی ہے، مولانا بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کہاں ایکسیلیٹر پر پائوں دبانا ہے، اور کہاں اسے اوپر اٹھا لینا ہے۔ مزید یہ کہ کون سی انگلیوں سے کس طرح گھی نکالنا ہے۔ یہ فن انہیں ورثے میں ملا ہے۔ انہیں اس طرح کی حرکت سے برکت نکالتے یا برکت ڈالتے کئی بار دیکھا جا چکا ہے۔ ان کے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمود نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف اپوزیشن تحریک کی قیادت کی تھی۔ پاکستان نیشنل الائنس المعروف پاکستان قومی اتحاد کے نام سے نو جماعتیں اکٹھی ہوئیں تو اس کی صدارت کے لیے قرعہ فال ان کے نام نکل آیا۔ بھٹو مرحوم کو قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، سینیٹ میں بھی ان کا طوطی بولتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت سے نجات حاصل کرکے وہ ''اکثریت‘‘ بن گئے تھے۔ بڑوں کی موت نے مجھے بڑا بنا دیا۔ 1956ء کا جو دستور ایک منتخب دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا، اس کی چھت پیرٹی (Parity) اور ون یونٹ کے ستونوں پر کھڑی تھی۔ 1962ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے ذاتی دستور بنواکر قوم کو عطا کیا تو انہوں نے بالغ رائے دہی اور پارلیمانی نظام پر تو ہاتھ صاف کرلیا لیکن ''ون یونٹ‘‘ اور ''پیرٹی‘‘ جوں کے توں رہے کہ پاکستان مشرقی اور مغربی حصوں کے وفاق کا نام تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضے کا شوق پورا کیا تو نیا دستور بنانے کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔ بہت سمجھایا گیا کہ 1956ء کا دستور بحال کر دیجیے! اسے ایوبی مارشل لا نے غیر قانونی طور پر منسوخ کر ڈالا تھا۔ ان کے اس اقدام پر خطِ تنسیخ پھیر کر سفر وہیں سے شروع کر دیجیے، جہاں سے یہ کھوٹا ہوا تھا۔ مارشل لا کی پیداکردہ تلخی اور بداعتمادی، نیا اتفاق رائے پیدا کرنے میں رکاوٹ بن جائے گی، اور مرکز گریز قوتوں کی بن آئے گی، 'بے دماغ بددماغوں‘ نے ایک نہ سنی اور نئی دستور ساز اسمبلی کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ بعدازاں اپنے ہی اس اعلان کا مذاق یوں اڑایا کہ پیرٹی (Parity) اور ون یونٹ توڑ ڈالے گئے، کوئی پوچھنے والا نہیں تھاکہ جب نئی دستوریہ بنائی جا رہی ہے تو مارشل لا بہادر سارا کام اس پر کیوں نہیں چھوڑ رہے، اپنے آپ کو دستور ساز سمجھ کر کیے دھرے پر پانی کیوں پھیر رہے ہیں؟ 300 کے ایوان میں ایک صوبے (مشرقی پاکستان) کو 165 ارکان الاٹ کر دیے گئے تو باقی چار صوبوں کے حصے میں 135 نشستیں لکھی گئیں۔ گویا مشرقی صوبے کو پنجاب، سندھ، سرحد (اب خیبرپختونخوا) اور بلوچستان کے مجموعے پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ نئے دستور کی منظوری کیلئے دو تہائی یا تمام صوبوں کی اکثریت کی تائید کی شرط تک عائد نہ کی گئی۔ انتخاب کا نتیجہ آیا تو مشرقی حصے سے عوامی لیگ 163 نشستیں جیت گئی۔ صرف دو ارکان ایسے منتخب ہوئے جن کا تعلق اس سے نہیں تھا۔ عوامی لیگ کو تین سو کے ایوان میں ''تنِ تنہا‘‘ اکثریت حاصل ہو گئی۔ یحییٰ خان کے عطاکردہ قانونی ڈھانچے (لیگل فریم ورک آرڈر) کے تحت اسے بلاشرکت غیرے دستور بنانے کا قانونی اختیار حاصل ہوگیا۔ باقی چاروں صوبے غیر متعلق (irrelavent) ہوکر رہ گئے۔ مارشل لا کے موٹے دماغ کو یہ نکتہ سمجھ ہی نہیں آیا تھا لیکن جب یہ حقیقت بن کر سامنے آیاتو دن میں تارے نظر آگئے۔ عوامی لیگ اپنی مرضی کا آئین بنانے پر تل گئی، اور وہ گھمسان کا رن پڑا کہ ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ ... اُدھر تم، اِدھر ہم...۔
یحییٰ خانی اقتدار نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ''سرنڈر‘‘ کیا، تو ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے بھی کورنش بجا لانا پڑی کہ بچے کھچے پاکستان کی حمیت ہتھیار ڈالنے والے اقتدار کو برداشت کرنے پر تیار نہ تھی۔ لوگ مرنے مارنے پر تل گئے تھے۔ خواہی نخواہی بھٹو صاحب کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بناکر ''نئے پاکستان‘‘ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ بھٹو اقتدار کو اپنی کمزوری کا اچھی طرح علم تھا کہ بڑے بھائی کے قتل نے یہ گدی اسے بخشی ہے۔ اس لیے اول اول تو اپوزیشن سے حُسنِ سلوک کا خوب مظاہرہ ہوا۔ اتفاق رائے سے دستور بھی بنا ڈالا گیا، لیکن جوں جوں وقت گزرا، پائوں جمے، جوہر کھلتے گئے اور اپوزیشن کو تہ تیغ کرنے کی کارروائیاں انتہا کو چھونے لگیں۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد (آج کا خیرپختونخوا) کی نمائندہ سیاسی جماعت، نیشنل عوامی پارٹی کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔ نیپ کو خلاف قانون قرار دے کراس کے قائدین کو حوالۂ زنداں کردیا گیا۔ ایک خصوصی ٹربیونل ان پر غداری کے الزامات کی سماعت کیلئے مقرر ہوگیا۔ حیدرآباد جیل میں کارروائی جاری تھی، کوشش تھی کہ ملزمان کو تختۂ دار پر لٹکایا جائے یاکم ازکم عمرقید کی سزا دلوا کر جیلوں میں گلنے سڑنے کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ کئی اپوزیشن رہنما گولیوں کا نشانہ بنا ڈالے گئے۔ سمجھا یہ جا رہا تھاکہ چین کی بانسری بجے گی اور دستور میں مرضی کی ترمیمات کرکے ''صدارتی نظام‘‘ قائم کیا جا سکے گا۔
بااثر شخصیات جوق در جوق پیپلزپارٹی کا رُخ کررہی تھیں، اپوزیشن بٹی اور پسی ہوئی تھی۔ ایک طرف کئی جماعتوں کا مجموعہ متحدہ جمہوری محاذ تھاتو دوسری طرف ایئرمارشل اصغر خان اور مولانا نورانی تھے، ان کا جھنڈا اپنا تھا۔ ایئرمارشل اپوزیشن سیاست کی سب سے توانا آواز اور سب سے روشن چہرہ تھے۔ موقع غنیمت جان کر اور وقتِ مقررہ سے ایک سال پہلے ہی عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کردیا۔ خیال تھاکہ حریفوں کو عبرتناک شکست ہوگی، اور بھٹو صاحب ہنستے ٹہلتے نیا مینڈیٹ حاصل کرکے مزید من مانیاں کرسکیں گے۔کرنا خدا کاکہ جونہی انتخابات کا اعلان ہوا، تمام مخالف جماعتیں یکجا ہو گئیں۔ ایجنسیاں گھبرا کر حرکت میں آئیں کہ ایئر مارشل اصغر خان اتحاد کے سربراہ نہ بننے پائیں۔ ان کا خیال تھاکہ مفتی محمود آگے آئیں گے تو ان کی ''مولویت‘‘ اپوزیشن کے راستے کی دیوار بن جائے گی، اسے بین الاقوامی پذیرائی ملے گی، نہ قومی۔ لوگ ''مولوی‘‘ کے مقابلے میں بھٹو کا چہرہ اپنے چہرے پر سجانے کو ترجیح دیں گے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے، پی این اے الیکشن تو ہار گئی لیکن اس نے جومذہبی جوش و خروش پیدا کیا، وہ منہ زور اقتدارکی کشتی ڈبو گیا۔
بھٹو جیسا زیرک شخص‘ جس کی تاریخ پرگہری نظر تھی، اپوزیشن کو حرف غلط سمجھ کر مٹانے کی کوشش میں خود مٹ گیا، اقتدار گیا اور جان سے بھی گیا۔ جب غلطی کا ازالہ کرنا چاہا تو معاملہ دور نکل چکا تھا۔ آج بھی اپوزیشن نشانے پر ہے۔ اس کے خلاف مقدمات قائم ہو رہے ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ریفرنس پر ریفرنس داغے جا رہے ہیں۔ ای سی ایل پر نام ڈالنے کا شوق بھی کم ہونے میں نہیں آرہا۔ اور تو اور، نوبت ایک قابل ضمانت ''جرم‘‘ میں کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کیلئے آئی جی سندھ کو ''اغوا‘‘ کرنے تک جا پہنچی ہے۔ عوام کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے، مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی بے یقینی کے ساتھ مل کر اودھم مچانے کی صلاحیتیں حاصل کرتی جا رہی ہے، لیکن طاقت والے طاقت برائے طاقت کو اپنی طاقت بنائے ہوئے ہیں۔ تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے دِل ہیں کہ ڈوبتے جا رہے ہیں۔ یا الٰہی خیر؎
دیکھی ہیں بعد ''عشق‘‘ کے اکثر تباہیاں
یہ تجربے کی بات ہے ہوتی ہے کم غلط
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں