"MSC" (space) message & send to 7575

چہرۂ پاکستان… گلگت، بلتستان

برف پوش وادیوں، شفاف جھیلوں، کے ٹو اور نانگا پربت سمیت دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کا مالک گلگت بلتستان اس وقت پورے پاکستان، بلکہ پورے جنوبی ایشیا، بلکہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دنیا کے تین طویل ترین گلیشئر بھی اسی علاقے میں پائے جاتے ہیں اور دنیا بھر سے سیاحوں کو کھینچ کھینچ کر یہاں لاتے ہیں۔ اس کا رقبہ 30 ہزار مربع میل سے کچھ کم ہے اور آبادی 20 لاکھ کے قریب، گویا لاہور کے پانچویں اور کراچی کے دسویں حصے سے بھی کم، لیکن اس نے 28 لاکھ مربع میل اور کم و بیش 22 کروڑ آبادی والے ملک کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ مقامی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ہونے والے انتخابات سے گرمی کی وہ لہریں اٹھی ہیں کہ نہ صرف یہاں کا برفیلا ماحول اپنی ٹھنڈک کھو بیٹھا ہے، بلکہ ملک بھر میں درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہاں ایسی انتخابی مہم چلی ہے کہ بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بنفس نفیس ایک جلسے سے خطاب کرنے پہنچے، اگرچہ اوٹ یہاں کے قومی دن (ڈوگرہ مہاراجہ سے حصول آزادی کے حوالے سے) کی تقریب میں شرکت کی تھی؛ تاہم تقریر پوری کی پوری انتخابی تھی۔ اپنے حریفانِ سیاست پر وہ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ ان کے وزرائے گرامی نے تو یہاں لمبے ڈیرے ڈالے رکھے اور ڈنکے کی چوٹ ایسی زبان استعمال کرتے رہے کہ جس پر شرم سے پہاڑوں کے سر بھی جھک گئے ہوں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے نوجوان رہنمائوں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف نے بھی یہاں طویل پڑائو ڈالے رکھا اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا۔ بلاول بھٹو نے تو یہاں طویل قیام اور بھرپور تقریروں کا ریکارڈ ہی قائم کر دیا۔ یہاں کی سیاست پر انہوں نے گہرے اثرات مرتب کئے اور قومی سیاست میں اپنی اہمیت اور حیثیت میں بھی اضافہ کر گزرے۔ انتخابی سروے بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دوڑ میں آگے ہیں، جبکہ مسلم لیگ (ن) کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ اس کے کئی امیدوار قبل از انتخاب ہی پارٹی چھوڑ گئے تھے، جو میدان میں ہیں، وہ بھی میاں نواز شریف کے بیانیے تلے خود کو دبا دبا محسوس کر رہے ہیں۔ 24 نشستوں پر تین سو سے زائد امیدوار اکھاڑے میں اترے ہوئے ہیں۔ سات لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان کو ان میں سے انتخاب کرنا ہے۔ یہاں کے ضلع تانگیر سے سعدیہ دانش نامی خاتون بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کے حلقے پر ان انتہا پسند قبائلیوں (یا ملائوں) کی گرفت ہے جو عورتوں کو ووٹ کا حق دینے پر تیار نہیں ہیں۔ سعدیہ اپنے حلقے میں مہم نہیں چلا پا رہیں، انہیں دھمکیاں دی گئی تھیں کہ اگر وہ ووٹ مانگنے آئیں تو زندہ واپس نہیں جائیں گی۔
گلگت، بلتستان کے لوگ پاکستان کا باقاعدہ حصہ بننے کے لئے بے قرار ہیں۔ اس علاقے پر مہاراجہ کشمیر نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا، جس کے خلاف بغاوت کر کے یہاں کے بہادر لوگوں نے آزادی کا پرچم لہرایا اور قیام پاکستان کے فوراً بعد نئی مملکت سے اپنا تعلق جوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں۔ جب کشمیر کے باشندوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملے گا، یہاں کے رہنے والے بھی رائے دینے کے مجاز ہوں گے۔ کشمیر کے مستقبل کے فیصلے میں ان کے لاکھوں ووٹ بھی کردار ادا کریں گے، لیکن اس خطے کے لوگوں کی خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے وقت انہیں اس کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس کا انتظام پاکستان کی وفاقی حکومت نے براہ راست سنبھالا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم معاہدۂ شملہ کے بعد اس علاقے کی حیثیت تبدیل کرنا چاہتے تھے، لیکن پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاستدان اس سے اتفاق نہیں کر پائے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں اسے ایک انتظامی حکم کے ذریعے صوبے کا درجہ دیا گیا، یہاں اسمبلی کا قیام عمل میں آیا، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے منصب بھی تخلیق ہو گئے، لیکن ان اقدامات کو دستوری تحفظ حاصل نہیں، نتیجتاً یہاں کی حکومت پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح خود مختار ہے، نہ ہی آزاد کشمیر حکومت کی طرح کوئی باقاعدہ حیثیت رکھتی ہے۔ مقامی باشندے اس صورت حال پر خوش نہیں ہیں اور اپنے آپ کو ''ادھورا‘‘ یا ''آدھا‘‘ پاکستانی تصور کرتے ہیں۔ بھاری اکثریت کا اصرار ہے کہ انہیں باقاعدہ دستوری صوبے کی حیثیت دی جائے اور ان کی نمائندگی پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی ہو۔ قومی اسمبلی میں تو چند ہی نشستیں ان کے حصے میں آئیں گی، لیکن سینیٹ میں وہ دوسرے صوبوں کے برابر نمائندگی حاصل کر سکیں گے، یوں قومی سطح پر ان کی آواز بلند اور مؤثر ہو جائے گی۔
پاکستان میں بھی اب اس پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے کہ اس خطے کو عبوری طور پر باقاعدہ دستوری صوبے کا درجہ دے دیا جائے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند ہفتے پہلے اس معاملے پر تبادلۂ خیال کے لئے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو مدعو کیا تو وہاں یہ بات کہی گئی تھی کہ اس تبدیلی کا باقاعدہ اعلان انتخابات کے بعد کیا جائے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اکثر رہنمائوں کا خیال تھا کہ قبل از انتخاب اعلان سے تحریک انصاف کو فائدہ ہو گا، بہت سے ووٹر خوشی میں جھومتے ہوئے تحریک انصاف کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں گے... لیکن وزیر اعظم عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران یہاں پہنچ کر اپنی سی کر ڈالی۔ تحریک انصاف کے مخالف حلقے اسے ''پری پول رگنگ‘‘ کا نام دینے سے گریز نہیں کرتے۔
اکثر تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے نتائج پاکستانی سیاست پر بھی اثرات مرتب کریں گے اور جو جماعت یہاں کامیاب ہو گی، پاکستانی سیاست میں بھی وہ سر اونچا کر کے چلنے کی کوشش کرے گی۔ گلگت اور بلتستان کی بدولت پاکستان کو چین کی ہمسائیگی کا شرف حاصل ہے۔ ہمارے علاقے میں یہ سی پیک کا نقطۂ آغاز ہے۔ اس کی اہمیت اس کے رقبے اور آبادی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اسے پاکستان کے چہرے کی سی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ چہرے کو اگر ترازو میں تولا جائے گا تو اس کا وزن چند کلو سے زیادہ نہیں ہوتا، لیکن اگر اسے جسم سے الگ کر دیا جائے تو پورا جسم خاک کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔ چہرہ اپنے سے کئی گنا بڑے جسم کو تشخص اور حسن عطا کرتا ہے۔ آنکھیں، لب، رخسار، جن کی شان میں دنیا کی ہر زبان کے شعرا نے ہزاروں کیا لاکھوں اشعار کہہ رکھے ہیں اور جن پر اہلِ دل قربان ہو ہو جاتے ہیں، چہرے ہی کا حصہ ہیں۔ خوبصورت چہرے والا ہی حسین کہلاتا اور توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ بینائی، قوت گویائی، شنوائی سب چہرے کی بدولت ہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو نہ سننے کی صلاحیت رہتی ہے، نہ دیکھنے کی، نہ چکھنے کی اور نہ سونگھنے کی۔ اہلِ پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اپنے چہرے کی فکر کریں، اس کی زینت میں اضافہ کریں، گلگت بلتستان جا کر پاکستانی سیاست کے گندے کپڑے دھونے اور یہاں کی غلاظت سے وہاں آلودگی پیدا کرنے کے بجائے، وہاں کے حسن اور خوبصورتی کو چاروں صوبوں میں پھیلائیں کہ چہرہ ہی تعارف ہے، چہرہ ہی پہچان، اس کی حفاظت ہی سے شخصیت کی حفاظت ممکن ہے۔ چہرۂ پاکستان؛ گلگت‘ بلتستان۔ 
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں