"MSC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے دو بڑے خدمت گزار

ابھی ابھی مَیں پنجاب کے گورنر ہائوس میں قریباً دو گھنٹے گزار کر واپس آیا ہوں۔ چودھری محمد سرور صاحب نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم ملک معراج خالد مرحوم اور ایک بڑی کاروباری شخصیت سیٹھ عابد حسین مرحوم کی یاد میں تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا۔ سیٹھ صاحب تو چند ہی ہفتے پہلے اِس دُنیا سے رخصت ہوئے ہیں، لیکن ملک معراج خالد کو بچھڑے اٹھارہ برس گزر چکے ہیں۔ دونوں نے ماشاء اللہ لمبی زندگی پائی، آٹھ سے نو دہائیوں کے درمیان اِس دُنیائے رنگ و بو سے لطف اندوز ہوئے یا یہ کہیے کہ اس کے رنگ و بو میں (حسبِ توفیق) اضافہ کرتے رہے۔ دونوں کا تعلق دو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تھا۔ ایک نے فقیری میں امیری کی، تو دوسرے امیری میں فقیری کر کے دِکھا گئے۔ ملک صاحب لاہور کے مضافات میں ایک چھوٹے سے کاشتکار گھرانے میں پیدا ہوئے، محنت اور ہمت سے آگے بڑھے۔ قانون کی تعلیم حاصل کی، سیاست کے میدان میں قدم رکھا، صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں پہنچے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے، وفاقی وزیر رہے، سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے، صدر فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسمبلی کو چلتا کیا، تو نئے انتخابات کے لئے قائم کی جانے والی وزارت کی سربراہی انہیں سونپ دی، وہ احتساب کے نعرے لگانے میں مصروف ہو گئے۔ ایک عمر پیپلز پارٹی کے ساتھ گزاری تھی، انقلاب کا خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھتے رہے تھے، ان کے اردگرد بہت کچھ بدلا، لیکن وہ نہیں بدلے۔ عام آدمی کی طرح کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے رہے۔ ماہ و سال نے اُن کے وسائل میں اضافہ کیا، نہ دولت کے انبار جمع کرنے میں اُنہیں کوئی دلچسپی رہی۔ پروٹوکول کے بغیر آتے جاتے، یہاں تک کہ وزیر اعظم کے طور پر ان کی گاڑی ٹریفک کے ہجوم میں پھنسی رہتی۔ سائرہ ٹرسٹ ہسپتال کی ایک تقریب میں اُن کو مدعو کیا گیا تو پی ٹی وی کی گاڑی تو وقتِ مقررہ پر پہنچ گئی، لیکن وقت کے انتہائی پابند وزیر اعظم نے اپنے میزبانوں کو انتظار کی کوفت میں مبتلا کر دیا۔ پی ٹی وی والوں سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم کہاں ہیں تو انہوں نے کہا، پچھلے چوک میں اُن کی گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی ہے، ہم تو کسی نہ کسی طور نکلنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن اُنہیں راستہ نہیں مل رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ بھی تشریف لے آئے، اور تقریب کی کارروائی شروع ہو گئی۔ مَیں کہ سائرہ ہسپتال کے ٹرسٹیوں میں ہوں، اپنے مرحوم چیئرمین رفیق گوہیر اور چیف ایگزیکٹو مرحوم ڈاکٹر عاطف گوہیر کے ہمراہ سراپا سپاس تھا۔ انہوں نے ہسپتال دیکھا تو بہت خوش ہوئے، اس کا سلیقہ اور قرینہ اُنہیں شدید متاثر کر گیا، ہمارے کسی تقاضے (یا مطالبے) کے بغیر دس لاکھ روپے کے عطیے کا اعلان کیا کہ یہ ادارہ کاروباری نہیں رفاہی تھا۔ یہاں کسی کی نظر مریضوں اور ان کے لواحقین کی جیبوں پر نہیں، اُن کی خدمت پر مرکوز رہتی ہے، اور کم سے کم چارجز پر اعلیٰ معیار کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ ہسپتال ان کے من کو بھا گیا۔ جس روز اُن کی وزارتِ عظمیٰ کی میعاد ختم ہونے والی تھی، اُس سے ایک دن پہلے شام کو فون آیا کہ مَیں سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں ہوں‘ ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو کے ساتھ فوراً میرے پاس آ جائو۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، بھاگم بھاگ وہاں پہنچے تو کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیا: مَیں چیک بنوا کر لے آیا ہوں‘ وزیر اعظم نہیں ہوں گا تو کوئی آپ کو چیک جاری نہیں کرے گا، اسے کل صبح اپنے اکائونٹ میں جمع کرا دینا۔
ملک صاحب نے غریبی میں آنکھ کھولی تھی، غریبی کو انہوں نے سینے سے لگا کر رکھا، غریبوں کے کام آتے رہے۔ انجمن اخوان اسلام کی بنیاد رکھی، اور اپنے علاقے میں بڑے وسیع رقبے پر ایک بڑے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھ دی، جہاں سے ہزاروں بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ برادران عزیز ڈاکٹر امجد ثاقب اور توفیق بٹ نے بھی مرحوم کی یادوں کے چراغ جلائے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کہ تحریک اخوت کے ذریعے لاکھوں گھرانوں کو آسودگی فراہم کر چکے ہیں، بلا سود قرضوں کے ذریعے ان کی معیشتوں کو سنبھال کر دکھا چکے ہیں اور قرضِ حسنہ فراہم کرنے والی سب سے بڑی تحریک برپا کر کے عالمی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ اب ملک صاحب کی زندگی پر کتاب لکھنے کا اعلان کر رہے تھے تاکہ خدمت کی سیاست کے کمالات محفوظ کر سکیں۔ برادرم توفیق بٹ نے بھی ملک صاحب سے اپنے قریبی تعلق کی تفصیل بیان کی، وزیراعظم کے طور پر وہ کسی پروٹوکول کے بغیر اُن کے گھر ملنے چلے آئے تھے اور تاکید کی تھی کہ کسی کو خبر نہ ہونے پائے۔ وزیراعظم صاحب نے ان کے ہاں اطمینان سے گُڑ والے چالوں پر بالائی ڈال کر کھائی، چائے پی، تبادلۂ خیال کیا، اور جس طرح چپکے سے آئے تھے، اُسی طرح چپکے سے رخصت ہو گئے۔ توفیق بٹ اُس دن بھی ملک صاحب کے ساتھ تھے، جب اُن کی گاڑی مال روڈ پر رکی ہوئی تھی۔ پولیس والوں نے بتایاکہ گورنر پنجاب خواجہ طارق رحیم گزرنے والے ہیں، اس لیے کسی کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ملک صاحب نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اپنے موبائل سے گورنر پنجاب کو فون ملا کر اطلاع دی کہ جنابِ والا، وزیراعظم آپ کے پروٹوکول کی وجہ سے آگے نہیں جا پا رہے۔
انجمن اخوان اسلام کے موجودہ صدر منشا صاحب نے ملک صاحب کے قائم کردہ ادارے کے آج کے حالات سے آگاہ کیا، سیٹھ عابد حسین بھی اُنہیں خوب یاد آئے کہ اس ادارے کی تعمیروترقی میں ان کا ہاتھ نمایاں تھا۔ وہ ملک صاحب کے کندھے سے کندھا ملائے ہوئے تھے۔ منشا صاحب کا کہنا تھاکہ ہم نے چندے مانگے ہیں، نہ عطیے، اپنے وسائل سے اپنی مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ سیٹھ عابد حسین، ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھی یاد تھے کہ ان کی حمزہ فائونڈیشن آج بھی خصوصی بچوں کی تعلیم و تہذیب کیلئے خود کو وقف کیے ہوئے ہے۔ تحریک اخوت اور فائونٹین ہائوس بھی ان کے تعاون کیلئے شکر گزار ہیں۔ سیٹھ صاحب کی طرح کمانے والے تو بہت ہوں گے لیکن لٹانے والے کم ہیں۔ اللہ کا عطاکردہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں میں وہ ممتاز تھے۔ دونوں مرحومین کی زندگی اپنے اپنے انداز سے گزری لیکن دونوں نے اسے دوسروں کیلئے وقف کررکھا تھا۔ اپنے قائم کردہ اداروں کے ذریعے وہ آج بھی زندہ ہیں۔ جہاں بھی ان کا نام آتا ہے، زبانیں دُعائوں سے لبریز ہو جاتی ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے اعلان کیا کہ وہ اپنے آپ کو اخوان اسلام کے تعلیمی ادارے کے ساتھ وابستہ کر لیں گے، اور اسے ایک بڑی یونیورسٹی میں ڈھال کر رہیں گے۔ تقریب میں الخدمت فائونڈیشن کے صدر عبدالشکور بھی موجود تھے۔ انجمن اخوان اسلام کے نائب صدر راجہ اکرم اور دوسرے ارکان بھی نمایاں تھے، سب ایک دوسرے کیلئے دُعاگو تھے، ایک دوسرے کا اعتراف کررہے تھے، ایک دوسرے سے توانائی حاصل کررہے تھے۔
تقریب اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ گورنر پنجاب اختتامی کلمات ادا کرچکے تھے کہ میڈیا کی فوج حملہ آور ہوگئی، ان کے کیمرے اُداس تھے کہ ملکی سیاست پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی، ان کے ناظرین کی دلچسپی کا سامان بھی ہونا چاہیے‘ سو محفل کا رنگ بدل گیا۔ ڈسکہ کی ''بکسہ چوری‘‘ پریذائیڈنگ افسروں کی گمشدگی، سرکاری افسروں پر الیکشن کمیشن کا عتاب، ازسرِ نو انتخاب کرانے کا فیصلہ اور اس کے خلاف پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے ہائیکورٹ جانے کا اعلان، اب نکتہ آفرینی اور نکتہ چینی کا موضوع تھا، لیکن گورنر پنجاب احتیاط کا دامن چھوڑنے پر تیار نہیں تھے... کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں