صدارتی نظام کے بارے میں بحث کورونا وائرس کی طرح پھیل گئی ہے۔سوشل میڈیا سے اس کا آغاز ہوا تھا،لیکن اب اس نے ہر بولنے والی شے کو متاثر کر ڈالا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، اور پرنٹ میڈیا میں بھی دھڑا دھڑ اظہارِ خیال ہو رہا ہے۔ایک نجی ٹی وی چینل نے تو باقاعدہ ریفرنڈم کرا ڈالا،صدارتی نظام کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے حق میں اپنی رائے ظاہرکرنے پر اکسایا، اور یقین دلایا کہ اگر بہت بھاری تعداد میں لوگ میدان میں نکل آئے تو پالیسی سازوں پر دبائو بڑھے گا،اور وہ سنجیدگی سے مسماۃ ''صدارتی بیگم‘‘ سے تعلقات استوار کرنے پر غور کرنے لگیں گے، بالآخر اسے ڈولی میں بٹھا کر گھر لے آئیں گے۔بس پھر ہن برسنے لگے گا۔ یہ بی بی گھر میں قدم رکھتے ہی سب کو مالا مال کر دے گی،یعنی پاکستان کو امریکہ بنا ڈالے گی کہ امریکہ کے صدارتی نظام نے اسے دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنا ڈالا ہے، اس لیے پاکستان کا صدارتی نظام بھی اس عزیز ملک کو امریکہ بنا ڈالے گا۔امریکہ،یعنی طاقتور، یعنی طاقتور ترین بننے کا تیربہدف نسخہ یہی ہے۔ اپنے وزیراعظم کا نام صدر رکھ دیجیے،اسے براہِ راست منتخب کر لیجیے،ایوانِ صدر کے موجودہ مکین کو نکال باہر کر دیجیے، نئے آنے والے کے سامنے کورنش بجا لائیے، اور بس پاکستان کا امریکہ بنا ڈالیے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ وزیر اعظم ہائوس خالی ہو جائے گا، یوں اسے یونیورسٹی بنانے کا وعدہ پورا کرنے میں آسانی ہو گی۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔وزیراعظم کا صدر بنا ڈالا جائے گا، اور صدر کو آئین اور ایوانِ صدر سے باہر نکالا جائے گا،تو خرچہ بھی کم ہو گا۔ صدر اور وزیراعظم الگ الگ قومی خزانے کے ساتھ جو کرتے ہیں، اب صرف صدر ہی کر پائے گا،ایک ہی ہلّے میں اربوں روپے بچا لیے جائیں گے۔
ہر ٹی وی چینل پر بحث جاری ہے۔ نامی گرامی اینکر صدارتی اور پارلیمانی نظام کی کشتی کرانے میں مصروف ہیں۔ماہرین آئین و قانون کی ڈھنڈیا پڑی ہے۔ ایک ایک کو بلا کر ایک سے ایک سوالات کیے جا رہے ہیں۔سیاست دانوں کو بھی اسی بہانے پچکارا جا رہا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں کے زعما ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں،اس شوشے کی ایجاد ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔اور تو اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دھواں دھار تقریریں ہو رہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے تو باقاعدہ قرارداد جمع کرا کر دِل کا غبار نکال ڈالا ہے۔ یہ خبر لائے ہیں کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے یا ان سے نظر ہٹانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑ رہی ہے،لوگوں کو اس لایعنی بحث میں الجھا کر حکومتی کمزوریوں پر انگلی اٹھانے سے روکنا مقصود ہے کہ انگلی اگر ایک طرف مصروف ہو گی تو دوسری طرف اطمینان سے وہ کچھ ہوتا رہے گا،جو ہوتا رہا ہے،یا ہو رہا ہے۔حکومت اپوزیشن پر برہم ہے،عزیزم فرخ حبیب باقاعدہ پیچ و تاب کھا رہے ہیں،آگ بگولہ ہوئے جا رہے ہیں کہ حکومت نے اکانومی کو سنبھال لیا ہے‘ شرخ نمو میں اضافہ کر دیا ہے،قرضوں کا بوجھ کم کر دیا ہے،لوگوں کی آمدنیاں بڑھنے کے امکانات گرج چمک رہے ہیں،اپوزیشن اس گھن گرج سے توجہ ہٹانے کے لیے صدارتی نظام کا ڈھول پیٹ رہی ہے ۔لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کرتب دکھائے جا رہے ہیں، حکومت کی کامیابیوں پر نظر ٹکنے نہیں دی جا رہی، نظام کی بحث چھیڑ کر ہماری قادرالکلامی میں خلل ڈالا جا رہا ہے۔لوگوں کی جوجیبیں بھاری ہو رہی ہیں، بازاروں میں جو چہل پہل دیکھنے میں آ رہی ہے،اس سے محظوظ ہونے کا موقع ضائع کرنے کے لیے اپوزیشن اوچھے ہتھکنڈوں پر اتری ہوئی ہے۔ صدارتی نظام سے ہمارا کیا لینا دینا؟ جب پارلیمانی نظام کے ذریعے ہی ہم نے جو کرنا تھا،وہ بڑی حد تک کر دکھایا ہے،جو نہیں ہو سکا، وہ آئندہ چند ماہ میں کر لیا جائے گا،تو ہمیں کیا بائولے کتے نے کاٹا ہے، کہ نظام کو تلپٹ کریں۔صدارتی نظام کا راگ الاپنا شروع کر دیں، لوگوں کو کنفیوز کریں، اپنے سے بدگمان کریں، ان کو ملنے والی ریلیف کا مزا خراب کریں،امنڈنے والی آسانیوں کو دور بھگا دیں، اڑا دیں۔
اگر حکومت بھی مطمئن ہے کہ اس نے پارلیمانی نظام کے تحت ملک کی تقدیر بدل ڈالی ہے، اور مسلم لیگ(ن) کی ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کر دیا ہے،اور اپوزیشن کا بھی دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے دورِ حکومت میں پاکستان کو امن کا گہوارہ اور پہلوانوں کا اکھاڑہ بنا ڈالا تھا۔ شرح نمو چھ فیصد کو چھو رہی تھی۔ افراطِ زر بہت کم تھی، شرح سود کم ترین تھی، سی پیک کے تحت صنعتیں لگائی جانے والی تھیں، ملک فراٹے بھر رہا تھا تو پھر نظام پر بحث کیوں ہے؟ اگر دونوں کے دعوے مان لیے جائیں تو پھر پارلیمانی نظام کو تبدیل کرنے کی بات کون کر رہا ہے؟ اس کا سراغ لگایا جانا چاہیے،اس سے پوچھا جانا چاہیے کہ اُس کے پیچھے کون ہے؟ کون اس کی ڈوری ہلا رہا ہے؟ کون اس کو ورغلا رہا ہے، اور کون حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ڈرا رہا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ ہمارے دستور میں ایسی ترمیم کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی موجودگی میں وفاقی پارلیمانی نظام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟اس مقصد کے لیے ریفرنڈم نتیجہ خیز ہو سکتا ہے یا نہیں، یہ سب کھیکھڑ پالنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ریفرنڈم میں عوام صدارتی نظام کے حق میں ووٹ دے دیں تو بھی آئین خودبخود تو نہیں بدل جائے گا،پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت ہی ایسا کر سکے گی۔اگر یہ مان لیا جائے کہ ریفرنڈم کا نتیجہ صدارتی نظام کے حق میں آیا، تو سپریم کورٹ کے فیصلے غیر موثر ہو جائیں گے۔عوام کی رضا ججوں کی رضا پر غالب آ جائے گی، تو بھی پارلیمنٹ کے پاس تو جانا ہی پڑے گا، آئین میں ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت کی تائید تو درکار ہی ہو گی۔ موجودہ پارلیمنٹ میں تو حکومت اور اپوزیشن دونوں پارلیمانی نظام کے فوائد گنوا رہی ہیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو اس کے ذریعے حالات بدل ڈالنے کا دعویٰ ہے۔ایک ماضی کو گواہ بنا رہی ہے تو دوسری حال کو کٹہرے میں کھڑا کیے ہوئے ہے۔ پیپلز پارٹی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے، وہ آئین کی خالق جماعت ہونے کے حوالے سے اِترا رہی ہے، تو پھر صدارتی نظام کیسے آئے گا؟ اگر دستور سے بالاتر کسی اقدام کے ذریعے گوہر مقصود حاصل کرنا مطلوب ہے کہ ماضی میں بھی یہ نظام آسمانی بلا کے طور پر نازل ہوا تھا، لوگوں کو پوچھے بغیر اس نے انہیں لپیٹ میں لے لیا تھا، تو پھر اب کیوں پوچھا جائے؟ ان کو لفٹ کرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہ بے چارے تو باربار یہ بتا چکے کہ پارلیمانی نظام ہمارے من کو بھاتا ہے۔ صدارتی نظام کی خوبیاں اپنی جگہ، اس کے اوصافِ حمیدہ بھی تسلیم لیکن یہ قبول نہیں ہے۔شتر مرغ کا گوشت لذیذ سہی لیکن ہمیں اپنے گھر میں پلی بڑھی دیسی مرغی کا شوربہ پسند ہے،تو پھر ان کو ایک بار پھر اس مشکل میں کیوں ڈالا جائے؟پوچھا ہی کیوں جائے؟ جو من مانی کرنا چاہتا ہے یا کر سکتا ہے؟وہ جو چاہے کرے لیکن یہ یاد رکھے کہ تاریخ کے صفحات پر یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ دستور بدلنے کی خواہش نے جغرافیہ بدل ڈالا تھا۔تاریخ تو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ مجھے بدلا نہیں جا سکتا، مجھے دہرانے کی کوشش مت کرو۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)