پانچ فروری کو ایک بار پھر دنیا بھر میں پاکستانی اور کشمیری باشندوں نے یوم یکجہتی کشمیر منایا۔ خصوصی اجتماعات منعقد ہوئے، جلوس نکالے گئے، احتجاجی مظاہروں کا انعقاد ہوا، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر زنجیریں بنائی گئیں، اور یہ عہد دہرایا گیا کہ کشمیر کی آزادی تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر‘ دونوں ایک بار پھر حریت کے نعروں سے گونج اٹھے۔ بھارتی استبداد کے سامنے نہ جھکنے کا جذبہ گلی گلی اور کوچے کوچے کو دہکا گیا۔ یہ دن پہلی بار 1989ء میں اس وقت منایا گیا تھا، جب پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی حکومت تھی۔ نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے، اور قاضی حسین احمد ان کے دستِ راست سمجھے جاتے تھے، یا یہ کہیے کہ قاضی صاحب کا دستِ شفقت و محبت ان کے سر پر تھا۔ بے نظیر بھٹو وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھیں اور بھارت میں راجیو گاندھی اپنے نانا اور والدہ کی گدی پر براجمان تھے۔ دونوں وزرائے اعظم سے توقعات لگائی جا رہی تھیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کو معمول پر لے آئیں گے۔ دونوں کا تعلق نئی نسل سے تھا، دونوں آکسفورڈ میں پڑھے تھے، دونوں کو سیاست اور اقتدار ورثے میں ملا تھا۔ راجیو کی والدہ اندرا گاندھی اپنے ہی محافظ کی گولی سے ہلاک ہوئی تھیں، جبکہ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جلاد نے تختۂ دار پر لٹکایا تھا۔ غیر فطری اموات نے دونوں کی اولاد کو دکھ کے رشتے میں باندھ رکھا تھا۔ مسز اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش کے قیام میں جو شرمناک کردار ادا کیا، وہ اپنی جگہ ناقابلِ فراموش اور ناقابلِ معافی ہے، لیکن جنگ کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انہوں نے شملہ معاہدے پر دستخط کر کے امن کے راستے پر آگے بڑھنے کا جو عندیہ دیا، اُس نے حالات کو ایک نیا رخ دے دیا تھا۔ مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے اعلان کے بعد ایک بار پھر امیدیں جاگ اٹھی تھیں۔ جنگی قیدی واپس آئے، بھارتی فوجوں نے پاکستانی علاقے خالی کیے، اور دہلی اور اسلام آباد میں سلسلہ جنبانی شروع ہو گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ مارشل لا نے الٹا تو مسز اندرا گاندھی کو امرتسر میں دربار صاحب پر چڑھائی کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ پاکستان نے جنرل ضیاء الحق کے طویل اقتدار کا مزہ چکھا، تو بھارت میں راجیو گاندھی پائلٹ سے وزیراعظم بن گئے۔ راجیو گاندھی کے دور میں پاک بھارت تعلقات خرابی کی انتہائی سطح کو چھونے لگے، جنگ کا خطرہ منڈلا رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے جے پور میں ہونے والے پاک بھارت کرکٹ میچ کو دیکھنے کے لیے بھارت جانے کا فیصلہ کیا۔ راجیو گاندھی ان کا استقبال کرنے کو تیار نہ تھے، لیکن طوعاً و کرہاً ایسا کرنا پڑا، اِس دوران جنرل ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کے کان میں ایٹمی حملے کی سرگوشی اس طرح کی کہ ان کے ''چھکے‘‘ چھوٹ گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے اس چھکے نے بہت کچھ بدل ڈالا۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو راجیو گاندھی ان کے رابطے میں تھے۔ وہ پاکستان آئے تو دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ کیا، اس کے ساتھ ہی سیاچن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کو مامور کر دیا۔ طے پا گیا کہ سیاچن سے دونوں ممالک کی فوجیں واپس ہو جائیں گی، اور یوں خوش گوار تعلقات کے نئے سفر کا آغاز ہو گا، لیکن راجیو گاندھی پیش رفت نہ کر سکے، اپنی فوجی قیادت کے سامنے ان کی پیش نہ گئی... یہ ایک اور کہانی ہے... ذکر ہو رہا تھا، پانچ فروری کا۔ پنجاب کی اسلامی جمہوری اتحادی حکومت نے قاضی حسین احمد کی تجویز پر 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر، راجیو رابطوں نے شکوک و شبہات کی فضا پیدا کر رکھی تھی، کشمیر پر سودے بازی کا الزام لگانے والے حرکت میں تھے، یوں سمجھئے کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو زچ کرنے کے لیے دھوم دھام سے یہ دن منایا گیا کہ بھارت سے دوستانہ فضا پروان نہ چڑھ سکے۔ بے نظیر بھٹو بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں، انہوں نے آگے بڑھ کر اس دن کو اپنا لیا اور یوں 5 فروری قومی اتفاق رائے سے یوم یکجہتیٔ کشمیر کے طور پر منایا جانے لگا۔ 33 سال گزرنے کے باوجود یہ پورے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے، اور ایک روز پہلے بھی منایا گیا ہے۔
ان برسوں میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کئی موڑ مڑے۔ دوستی کا دریا ٹھاٹھیں مارتا بھی نظر آیا اور مرنے مارنے کی گردان بھی سنائی دی۔ راجیو اور بے نظیر بھٹو سے لگی امیدیں بر نہ آ سکیں تو بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد، نواز شریف اور واجپائی نے ایک دوسرے کی طرف اعتماد سے دیکھا۔واجپائی دوستی بس پر بیٹھ کر لاہور آئے اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے واضح اشارے دیے۔واپس پہنچے تو جنرل پرویز مشرف نے کارگل میں ہاتھ دکھا دیا۔ اگر ان کی خود سری آڑے نہ آتی تو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا تھا، دونوں ملک آج جانے کہاں کہاں، اور کس کس طرح فراٹے بھر رہے ہوتے۔پرویز مشرف نے خود اقتدار سنبھالا تو پھر مذاکرات کا ڈول نئے سرے سے ڈالا۔واجپائی سے مراسم بحال ہوئے، مگر نتیجہ خیز نہ ہو سکے۔ من موہن سنگھ برسر اقتدار آئے تو ان کے ساتھ بہت کچھ طے پا گیا۔ اُس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری باقاعدہ کتاب لکھ کر اس کی تفصیل بیان کر چکے ہیں، لیکن پرویز مشرف کا اپنا اقتدار ڈانواں ڈول تھا۔ عدلیہ بحالی تحریک نے انہیں بے حال کر دیا، اور مسئلہ کشمیر جوں کا توں رہا۔
نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو نریندر مودی سے رابطہ بحال ہوا۔وہ اپنی تحریک پر افغانستان سے نئی دہلی جاتے ہوئے لاہور ٹھہرے، جاتی عمرہ پہنچے، مسکراہٹوں کا تبادلہ لیکن مہنگا پڑ گیا۔ نواز شریف پروپیگنڈے کی زد میں آ گئے،ان کی حب الوطنی پر سوالات اٹھانے والوں نے دھماچوکڑی مچا دی، اور بھی بہت کچھ ہوا،قصہ مختصر، معاملہ مزید الجھ گیا۔نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں وہ کچھ کرگزرے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔انہوں نے بھارتی آئین کو روندتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حکومت ختم کر ڈالی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں غیر ر یاستی باشندوں کو آباد کرنے کے لیے دھڑا دھڑ جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے جا رہے ہیں۔کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے ارادے باندھ لیے گئے ہیں۔ ان اقدامات کے خلاف بھارت میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ راہول گاندھی سخت الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں لیکن نریندر مودی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے،جو نریندر مودی کے بھارت میں رہنے کو تیار ہو۔ کشمیریوں کے اسی عزم نے اہل ِ پاکستان کا حوصلہ بھی بلند کر رکھا ہے۔ پاکستان کے اہل ِ حرب و سیاست کو کم از کم کشمیر کے معاملے میں ایک ہو کر،ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر،ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہیے۔ کشمیر کو شمشیر سے زیادہ تدبیر کی ضرورت ہے، ناخن ِ تدبیر ہی سے گرہیں کھل سکتی ہیں۔اس کے لیے پاکستانی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور آگے بڑھنا ہو گا۔ عمران خان سے لے کر فضل الرحمن، نواز شریف سے لے کر آصف علی زرداری، اور مریم نواز سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک ؎
اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)