اس بات سے کوئی بھی شخص اختلاف نہیں کر سکتا کہ عمران خان پاکستان کی ایک انتہائی مقبول شخصیت ہیں۔ ان کے مداح اندرونِ ملک موجود ہیں اور بیرونِ ملک بھی۔ اوورسیز پاکستانیوں میں ان کا وسیع حلقہ ہے‘ بھاری تعداد میں لوگ ان کی محبت میں سرشار ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے مخالفین بھی بھاری تعداد میں موجود ہیں‘ان کے اسلوب‘گفتار اور اطوار سے وہ بیزار ہیں اور سخت الفاظ میں اس بیزاری کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان کے مخالف حلقوں میں سب سے اہم شخصیت سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے رہبر نواز شریف کی ہے۔ وہ اگرچہ کھل کر اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ ان کے معالجین کے نزدیک وہ پاکستان کا سفر نہیں کر سکتے‘انہیںلندن ہی میں بیٹھ کر اپنی صحت کو مکمل طور پر بحال کرانا اور پھر واپسی کی راہ لینا ہے‘اس کے باوجود پاکستانی سیاست ان کے اشارے پر کروٹیں لیتی اور رنگ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) ہی نہیں‘ اس کی اتحادی جماعتیں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتیںاور ان سے صلاح مشورے کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔سابق صدرِپاکستان آصف علی زرداری سے ماضی میں ان کے جو بھی اختلافات رہے ہوں‘اس وقت دونوں ''ہم نوالہ‘‘ اور ''ہم پیالہ‘‘ سمجھے جاتے ہیں‘ سینکڑوں میل دور بیٹھ کر بھی ایک دوسرے کو قریب محسوس کرتے اور سرگوشیوں میں مشورے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ عوامی سطح پر عمران خان کو نواز شریف سے پالا پڑا ہوا ہے تو نواز شریف کو عمران خان کا چیلنج درپیش ہے۔دونوں کے حامی بھی اس سے انکار نہیں کرتے اور آئندہ انتخابات میں یہی دو شخصیات برسر پیکار دکھائی دیتی ہیں۔
نواز شریف تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن ان کا اقتدار دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ قومی اسمبلی میں انہیں اکثریت کی حمایت حاصل تھی‘ ان کے خلاف کوئی قرارداد عدم اعتماد منظور توکیا ہوتی‘پیش بھی نہیں ہوئی تھی‘اس کے باوجود منصب ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ سپریم کورٹ کے ایک حکم نامے نے انہیں چلتا کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا کہ ایک منتخب وزیراعظم آئین میں درج واضح طریق کار اختیار نہ کرنے کے باوجود ایوانِ اقتدار سے رخصت ہو گیا۔ اس معاملے پر بحث جاری رہی ہے اور جاری رہے گی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے انہیں محرومِ اقتدار ہونا پڑا۔ نواز شریف کو اب بھی متعدد مقدمات کا سامنا ہے‘ جب تک حتمی عدالت سے ان کا فیصلہ نہیں ہو جاتا وہ قومی سیاست میں براہِ راست کردار ادا نہیں کر سکتے‘انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے اور زمامِ اقتدار سنبھالنے کا تصور نہیں کر سکتے۔ قانونی الجھنوں کے باوجود ان کی مقبولیت اور محبوبیت اپنی جگہ ہے‘ان کے حامی ان کے نعرے لگاتے اور وزیراعظم شہباز شریف انہیں برملا اپنا قائد کہتے اور سمجھتے ہیں۔ جب تک ان کی اپیلوں کا فیصلہ نہیں ہوتا یہ الجھائو موجود رہے گا‘حکومت کو ان کے خلاف کارروائیوں کو کالعدم قرار دینے کا آئینی حق حاصل ہے لیکن یہ کب اور کس طرح استعمال ہو سکے گا‘ اس کی نوبت آئے گی یا نہیں‘ اس بارے میں کچھ کہنا اِس وقت ممکن نہیں ہے۔ نواز شریف کی قیادت اور سیادت اپنی جگہ مسلم ہے‘عوام کے ایک بڑے حصے کے دِلوں میں زندہ ہیں اور ان کے حریف ِ اول عمران خان وہاں سے اُنہیں نکال نہیں پا رہے۔
عمران خان نے1996ء میں سیاست میں حصہ لینے کا آغاز کیا‘یوں ان کی سیاسی زندگی ربع صدی کو محیط ہے‘نواز شریف1970ء کی دہائی کے آخر میں سیاست میں متحرک ہوئے‘80 ء کے عشرے میں صوبائی وزیر بنے‘ان کا عرصہ سیاست چاردہائیوں سے زیادہ ہے۔ دونوں سابق وزرائے اعظم اپنے اپنے نشیب اور اپنے اپنے فراز سے گزرے ہیںکہ وہ اٹھ کر گرتے اور گر کر سنبھلتے رہتے ہیں۔ نواز شریف تین بار وزارتِ عظمیٰ کی بہاریں دیکھ چکے جبکہ عمران خان کو ایک ہی بار اس کا مزہ چکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کو آئین میں درج طریق کار کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش کر کے سبکدوش کیا گیا۔ جو کچھ ہوا کھلے میدان میںہوا۔ اس کے باوجود ان کا ردعمل بہت شدید تھا۔ انہوں نے اسے امریکی سازش کا شاخسانہ قرار دیا اور اپنے مخالفین کو میر جعفر اور میر صادق قرار دینے لگے۔ وہ اقتدار سے اپنی محرومی کو کھیل کا حصہ سمجھنے پر تیار تھے نہ ہیں۔ احتجاجی لانگ مارچ بھی کرگزرے ہیں‘ان کی ضد ہے کہ فوراً نئے انتخابات کرائے جائیں‘ اور ان کی جگہ لینے والوں کو تنکوں کی طرح اڑا دیا جائے۔
عمران خان نے اپنے اقتدار کے رخصت ہوتے ہی قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا‘ یا یہ کہیے کہ اپنے آپ کو پارلیمانی اکھاڑے سے نکال باہر کیا‘ لانگ مارچ کے ذریعے نئے انتخابات کی تاریخ وہ حاصل نہیں کر پائے۔ بیس لاکھ افراد کو اسلام آباد میں جمع کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔ ان کی مخالف حکومت کے مونچھیلے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ان کا راستہ روک کر دکھا دیا ہے۔ انہیں اسلام آباد پہنچ کر دھرنے کا پروگرام ختم کرنا پڑا‘ وہ اب نئی احتجاجی لہر اٹھانا چاہتے ہیں لیکن اس نکتے کا ادراک نہیں کر پا رہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے رہنما ہیں‘ان کے پرستار ان کو ووٹ دے سکتے‘ان کیلئے نعرے لگا سکتے ہیں لیکن شدید گرمی میں‘ کھلے آسمان کے نیچے‘ بے سرو سامان لیٹنا‘ بیٹھنا یا اچھلنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ انہیں اس آزمائش میں مبتلا کرنا ایسا ہی ہے جیسے کبڈی کے کھلاڑیوں کو جنگ کے میدان میں دھکیل دیا جائے۔ سیاسی رہنمائوں کو بے چارے سیاسی کارکنوں سے وہی توقعات رکھنی چاہئیں جو سیاست کے دائرے میں آتی ہوں‘جو کرتب ان کے بس میں نہ ہوں‘ انہیں دکھانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ انسان بندر ہوتے ہیں نہ ریچھ‘ ان سے انسانی توقعات ہی قائم کرنی چاہئیں۔ ہمارے مقبول رہنمائوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانا ہی ان کی قیادت کو ''دوام‘‘ بخش سکتا ہے۔ بیک وقت کئی محاذ کھولنا‘ اپنی اور اپنے کارکنوں کی توانائیوں کو اِدھر اُدھر جھونکنا منزل کو دور تو کر سکتا ہے‘قریب نہیں۔ عمران خان ہوں یا انکے مخالف‘سو فیصد نمبر حاصل کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ رہنمائی کے ہر دعویدار کو اکھاڑے کے اندر رہ کر اپنے حریف کو چت کرنا ہے‘جو بھی دائو پیچ لڑانے ہیں‘ لڑائے جائیں‘ گڑھے کھودے جائیں گے تو ان میں گرنے والا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
محبتیں ہیں بہت......
نسیم شاہد اور ملتان میرے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ملتان کا تصور آتے ہی وہ سامنے آن کھڑے ہوتے ہیںاور ان کے سامنے آتے ہی پورا شہر ملتان آنکھوں کے سامنے جگمگانے لگتا ہے۔ ملتان اولیاء کی سرزمین ہے‘نسیم شاہد کو اگرچہ دعویٰ ولایت نہیں ہے لیکن ان کی کرامات سے انکار ممکن نہیں۔ ملتان میں پلے‘ بڑھے‘زمانۂ طالب علمی میں برف کا پھٹہ لگایا‘ مونگ پھلی بیچی لیکن شہر علم میں جم کر بیٹھے رہے۔ استاد بنے‘ نوجوانوں کا آئیڈیل رہے‘انہیں دیکھ کر اور ان کے راستے پر چل کر سینکڑوں نوجوان آگے بڑھے اور اب مختلف شعبوں میں ان کی بخشی ہوئی روشنی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ نسیم شاہد شاعر ہیں‘ افسانہ نگار ہیں‘کالم نگار ہیں اداریہ نویس ہیں‘ گویا گل نہیں گلدستہ ہیں جس میں رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ وہ ہر رنگ میں ممتاز ہیں۔ روزنامہ ''پاکستان‘‘ سے ان کی طویل رفاقت کے دوران مجھے ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے‘ انہیں پڑھ کر اور سن کر ''مسافتوں کی تھکن‘‘ غائب ہو جاتی ہے کہ ان کی شاعری کا تیسرا مجموعہ اسی عنوان سے شائع ہوا ہے۔ بے ساختہ ان کا یہ شعر زبان پر آ رہا ہے ؎
ہمارے پاس کہاں وقت نفرتوں کے لیے
محبتیں ہیں بہت اور زندگی کم ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)