مہنگائی کو عمران حکومت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جاتا تھا۔ ہمارے دوست فواد چودھری دن رات یہ کہتے دکھائی اور سنائی دیتے تھے کہ ہماری مہنگائی ''امپورٹڈ‘‘ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ہمارا اختیار نہیں ہے‘ بین الاقوامی منڈیوں میں وہ مہنگی ہوتی ہیں‘تو ہمارے ہاں بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ ہمارے پاس تیل کے کنویں ہیں نہ گیس کے( گیس تو بڑی مقدار میں دریافت ہوئی تھی لیکن ہم نے اسے بے دردی سے استعمال کیا‘ اور نتیجتاًاس کے ذخائر کم ہوتے چلے گئے‘اور اب ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں)لیکن اُس وقت کی اپوزیشن ان کی ایک سننے پر تیار نہیں تھی‘تابڑ توڑ حملے جاری تھے‘ مہنگائی کے ہاتھوں ناک میں دم تھا‘لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتے اور غم و غصے کا اظہار کرتے نظر آتے تھے۔ حکومت کے بڑے بڑے بھی جب ''آف دی ریکارڈ‘‘ بات کرتے‘ تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔وہ اقرار کرتے کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ لوگوں کا سامنا نہیں کر پا رہے۔وہ کسی جغادری سیاست دان کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں تھے‘ لیکن بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سامنے ان کی گھگھی بندھ جاتی تھی‘اقتدار حاصل کرنے سے پہلے جو سبز باغ لوگوں کو دکھائے گئے تھے‘وہ ''کالا باغ‘‘ بن چکے تھے‘ حکومت کو کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا تھا۔ ڈالروں کی آمد کم اور رفت زیادہ تھی‘اس مسئلے کا کوئی حل اس کے سوا نہیں تھا کہ آئی ایم ایف کے دروازے کو کھٹکھٹایا جائے۔
یہ ادارہ 1944ء میں قائم ہوا تھا‘ چوالیس ممالک نے مل کر اس کی بنیاد رکھی تھی‘ان ممالک نے بین الاقوامی مالیاتی تعاون کا ایک فریم ورک تیار کر کے ایک دوسرے کی معاونت کا عہد کیا۔اب اس کے ارکان کی تعداد190 تک پہنچ چکی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس کے قیام کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کی نگرانی کی جائے اور ایکسچینج ریٹ کو استحکام دیا جا سکے۔ تجارت کے مواقع وسیع کیے جا سکیں۔جب بھی کسی ملک کو زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہوتا ہے‘ وہ اس کے دروازے پر آ کھڑا ہوتا ہے‘یہ ادارہ اسے بہت ہی کم شرح سود پر قرض تو فراہم کرتا ہی ہے‘اس کی معیشت کی نگرانی کا اہتمام بھی کرتا ہے۔اسے توانا بنانے کے لیے ہدایات جاری کرتااور اپنی شرائط عائد کرتا ہے۔پاکستان1950ء میںاس ''کلب‘‘ کا رکن بنا‘اور اُس وقت سے لے کر 2019ء تک بائیس مرتبہ اس سے قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ایوب خانی مارشل لاء کے دو ماہ بعد‘یعنی دسمبر 1958ء میں ایک خصوصی معاہدے کے تحت پاکستان کا یہ استحقاق تسلیم کر لیا گیا تھا کہ جب چاہے پچیس ملین ڈالر حاصل کر سکتا ہے‘ لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔1965ء اور پھر 1966ء میں البتہ ڈالر حاصل کیے گئے‘اور یوں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تعلق کی باقاعدہ بنیاد پڑی۔ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کے درمیان کوئی اور قدر ِمشترک ہو یا نہ ہو‘ آئی ایم ایف کے درِ دولت پر دونوں بار بار دستک دیتے اور من کی مراد پاتے رہے۔عمران خان کے دورِ حکومت سے پہلے پاکستان نے مجموعی طور پر13.79 ارب ڈالر آئی ایم ایف سے حاصل کیے تھے‘47فیصد پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں‘35فیصد مسلم لیگ(ن) کے عہد میں اور باقی سترہ فی صد آمرانہ ادوار میں لیا گیا۔
عمران خان وزیراعظم بنے تو ان کو بھی یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی۔وہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کو ''گناہِ کبیرہ‘‘ قرار دیتے رہے تھے‘ جب اقتدار سنبھالا تو کرنٹ اکائونٹ خسارے کا پہاڑ سامنے تھا۔ انہوں نے بڑی بھاگ دوڑ کی‘ سپہ سالار کے ساتھ مل کر دوست ممالک سے توقعات لگائیں‘ جو پوری بھی ہوئیں‘ لیکن آئی ایم ایف سے چھٹکارا نصیب نہیں ہوا۔پہلے وزیر خزانہ اسد عمر کی قربانی دینا پڑی‘ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے خزانے کا چارج سنبھالا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا۔اس دوران روپے کی قدر گر چکی تھی اور معیشت پر دبائو میں اضافہ ہو گیا تھا۔بعدازاں عمران خان آئی ایم ایف کے پاس تاخیر میں جانے کو اپنی غلطی قرار دیتے‘اور اس پر کف ِ افسوس ملتے رہے۔آئی ایم ایف جہاں آتا ہے‘ وہاں اس کی شرائط بھی آتی ہیں۔اس ادارے میں امریکہ کا اثرو رسوخ ہے کہ وہ سب سے بڑا حصہ دار ہے‘پاکستان میں اس کی شرائط کو امریکہ کے ساتھ تعلقات سے مشروط سمجھا جاتا ہے۔ یہاں عام تاثر یہ ہے کہ اگر امریکہ بہادر ناراض ہے تو شرائط بھی کڑی ہوں گی اور اگر اس کا موڈ بہتر ہے تو شرائط بھی نرم ہو جائیں گی۔اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا فسانہ‘ اس بحث میں الجھے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کڑی نگرانی کا دعویٰ کرتا ہے‘اس کا خیال ہے کہ اگر اخراجات پر کنٹرول نہ کیا جائے‘ سبسڈیز کو ختم نہ کیا جائے‘آمدنی کو نہ بڑھایا جائے تو پھر اس کے ''بیمار‘‘ کی حالت کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتی‘ وہ ہمیشہ ایڑیاں رگڑتا اور سسکیاں بھرتا رہے گا۔
عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں شرکت کر کے درست فیصلہ کیا لیکن اپنے سیاسی حریفوں کے دبائو سے تنگ آ کر طے شدہ معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کر ڈالی۔روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد مہنگائی کی اٹھتی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسی سبسڈی دینے کا اعلان کر دیا‘قومی خزانہ جس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔تیل کی بڑھتی قیمتوں کا بوجھ لوگوں کو نہ صرف منتقل نہ کیا‘ بلکہ مزید سستا کر کے اپنی ہی کمر کو دہرا کر دیا۔عمران خان حکومت تو ختم ہو گئی لیکن آنے والی حکومت کی مشکلات میں شدید اضافہ ہو گیا۔اگر آئی ایم ایف سے معاہدے کی تجدید نہ ہوتی تو ڈالر قابو میں نہیں آ سکتا تھا۔ دوسرے مالیاتی اداروں حتیٰ کہ دوست ممالک سے بھی معاونت نہیں مل سکتی تھی‘ نتیجتاً دیوالگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔کئی ہفتوں کی اگر مگر کے بعد جو اقدامات کیے گئے ہیں‘ ان کے نتیجے میں ہاہا کار مچ گئی ہے۔پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھی ہیں‘نتیجتاً ہر شے مہنگی ہو رہی ہے۔ یہ مہنگائی اب شہباز شریف حکومت کے در پے ہے‘ان کو عمران خان بنانے کی کوشش زوروں پر ہے۔عمران خان اپنے حریفوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں‘جو ان کے حریف ان سے کرتے رہے ہیں‘اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ وہ دوچار ہاتھ نہیں میلوں آگے بڑھ گئے ہیں۔روس کے ساتھ اپنی مبینہ ڈیل کی دہائی دے رہے ہیں‘جس کے تحت وہاں سے سستا تیل مل جانا تھا‘ اس کا کوئی سراغ ان کے جانشینوں کو مل نہیں پا ر ہا۔ وزیراعظم شہباز شریف البتہ اخراجات کم کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں‘ افسروں کو دی جانے والی مراعات پر نظرثانی کر رہے ہیں لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ پاکستانی معیشت جس حال میں ہے‘ اس کی ذمہ داری کسی ایک حکومت کے سر نہیں ڈالی جا سکتی۔گزشتہ کئی عشروں کی کوتاہیوں کا ازالہ اس طرح ممکن ہے کہ سب سر جوڑ کر بیٹھیں۔معیشت پر سیاست نہ کرنے کا عہد کریں۔عمران خان‘شہباز شریف اور آصف علی زرداری پاکستان کے حال پر رحم کھائیں‘اُس کی خاطر کچھ عرصے کے لیے اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال دیں‘ایک دوسرے کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں‘شوق سے کریں لیکن فی الحال اپنی اپنی سیاست مؤخر کر دیں‘ کچھ عرصے کے لیے بھائی بھائی بن جائیں‘ عارضی بھائی چارہ قائم کر لیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)