سابق وزیراعظم عمران خان جب سے اقتدار سے الگ ہوئے ہیں ان سے تبادلہ ٔ خیال ممکن نہیں ہوا۔وہ میڈیا پرسنز کے مختلف گروپوں سے ملتے رہے اور ان کے سامنے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرتے رہے‘ان ملاقاتوں کی تفصیل بھی(کسی نہ کسی حد تک) معلوم ہوتی رہی‘آن دی ریکارڈ جو کچھ کہا گیا اس سے تو سب واقف ہیں لیکن ''آف دی ریکارڈ‘‘ بیان کردہ امور بھی نگاہ سے اوجھل نہیں رہے۔ عمران خان گزرتے ہوئے روز و شب کا جائزہ جس طرح لیتے ہیں اور اس حوالے سے اپنی سادگی اور دوسروں کی طراری کا جو بھی تذکرہ کرتے ہیں‘وہ اپنی جگہ وزن رکھتا ہے۔کوئی اس سے اختلاف کرے یا اتفاق‘عمران خان پاکستان کے ایک انتہائی طاقتور اور مقبول عوامی رہنما ہیں۔ان کی سیاست کسی گملے میں نہیں اگائی گئی‘ان کی جڑیں زمین میں ہیں اور دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ربع صدی کے دوران انہوں نے بھرپور محنت کی ہے‘ آرام کو اپنے لیے حرام سمجھا ہے‘اپنی پارٹی کو پھیلایا ہے اور ہزاروں کیا لاکھوں بلکہ اس سے بھی زیادہ دلوں میں گھر بنایا ہے۔ انتخابات کے میدان میں شدید ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ مایوس ہو کر بیٹھ نہیں رہے۔ایک وقت تھا کہ قومی اسمبلی میں وہ اپنی جماعت کی تنہا آواز تھے‘پھر وہ وقت آیا کہ ان کے ٹکٹ یافتگان کا ایک بڑا گروہ وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ خیبرپختونخوا پر ان کا پرچم لہرانے لگا اور ان کی جماعت نے یکے بعد دیگر دو انتخابات وہاں سے جیت کر ریکارڈ قائم کیا کہ اس صوبے کی روایت یہ رہی ہے کہ ایک بار حکومت قائم کرنے والا دوسری بار اس کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اپنا نقش جمایا اور اقتدار کے ذریعے اپنی طاقت میں شدید اضافہ کر لیا‘وہاں نوجوانوں کیا بزرگوں کی بڑی تعداد کے دل بھی ان کے ساتھ اب تک دھڑک رہے ہیں۔ عمران خان 2018ء میں مرکزی اور پنجاب حکومت کو بھی اپنا بنانے میں کامیاب ہوئے تو ان سے قائم کی جانے والی توقعات میں اضافہ ہو گیا‘ مرکز اور پنجاب میں ان کی حکومتیں ختم ہو چکی ہیں۔دونوں جگہ عدم اعتماد کی تحریکیں اس کا سبب بنیں۔پنجاب میں تو ابھی معرکہ جاری ہے‘حمزہ شہباز تحریک انصاف (اور مسلم لیگ ق) کے امیدوار کو اس وقت تک تو روکے ہوئے ہیں لیکن یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ راستہ کب تک رُکا رہے گا۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے اس بنیاد پر مسلم لیگ(ق) کے10ووٹوں کو شمار نہیں کیا کہ اس کے صدر چودھری شجاعت حسین نے انہیں یہ خط لکھ کر بتایا تھا کہ انہوں نے اپنے ارکان کو اپنی جماعت کے امیدوار (چودھری پرویز الٰہی) کے بجائے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔جب مسلم لیگ(ق) کے سب ارکانِ اسمبلی نے اس ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا ووٹ چودھری پرویز الٰہی کے حق میں ڈال دیا تو ڈپٹی سپیکر نے جو سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق انتخابی عمل کی نگرانی کر رہے تھے‘ان ووٹوں کو مسترد کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو کامیاب قرار دے دیا۔ڈپٹی سپیکر کا کہنا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک گزشتہ فیصلے کے مطابق یہ اقدام کیا ہے۔چودھری پرویز الٰہی اپنے زخم لے کر فی الفور سپریم کورٹ پہنچ گئے‘ سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ نے حمزہ صاحب کے اختیارات محدود کر دیے ہیں‘اب سوموار کو سماعت ہو گی‘ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر اس سوال کا جواب دیں گے کہ سپریم کورٹ کے کس فیصلے کے کس حصہ سے یہ نتیجہ اخذکیا گیا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایت کی خلاف ورزی پر کسی سیاسی جماعت کے ارکان کے ووٹ نہیں گنے جائیں گے۔جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا اس پر عمران خان نے احتجاج کی کال دے دی ہے‘ان کے حامی پرجوش ہیں۔اس سے پہلے مرکز میں ان کی حکومت جس طرح ختم کی گئی اس پر بھی ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔وہ اسے امریکی سازش قرار دیتے ہیں اور پاکستان میں موجود ''میر جعفروں اور میر صادقوں‘‘ کی طرف بھی انگلی اٹھاتے ہیں‘ان کے نزدیک ان کی حلیف سیاسی جماعتوں کو ان سے علیحدہ کرنے کے لیے سازش کی گئی‘انہوں نے اپنے حامیوں میں جوش و جذبہ بھر رکھا ہے۔ دنیا بھر میں ان کی آواز سنی جا رہی ہے اور پاکستان کے ایوان اور میدان بھی اس سے گونج رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے20حلقوں کے ضمنی انتخابات میں15نشستیں جیت کر انہوں نے اپنے بیانیے کو مستحکم کیا ہے اور ایک نئے اعتماد سے سرشار ہوئے ہیں۔
گزشتہ جمعہ کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے دو گھنٹے پہلے برادرم سہیل وڑائچ کے ہمراہ عمران خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ڈیلی ٹائمز کے شہریار تاثیر اور کاظم خان بھی تشریف فرما تھے۔ عمران ریاض‘ عدنان عادل اور منیر احمد خان کے علاوہ برادرم فواد چودھری‘حماد اظہر‘ فرخ حبیب اور تحریک انصاف کے متعدد ممتاز رہنما بھی موجود تھے۔ زمان پارک کی نوتعمیر شدہ رہائش گاہ میں یہ ان سے پہلی ملاقات تھی‘اسی جگہ خان صاحب کا بچپن اور جوانی گزری‘ یہیں سے انہوں نے سیاست کا آغاز کیا‘ ان سے درجنوں ملاقاتیں ہوئیں‘ایک ایسا تعلق قائم ہوا جسے یکسر توڑ ڈالنا ان کے بس میں ہے نہ ہمارے۔خان صاحب نے اپنا بوجھ ہلکا کیا تو ہم نے اپنی گزارشات پیش کیں۔ انہوں نے پوری توجہ سے انہیں سنا اور اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ نتیجہ خیزی کے لیے ضروری اقدامات سے گریز نہیں کیا جانا چاہیے۔نئے انتخابات‘قومی معیشت اور نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے اہل ِ سیاست کو ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ ٔ خیال پر تیار ہونا چاہیے۔یہ بھی عرض کیا گیا کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اس حوالے سے کردار ادا کر سکتے ہیں اور اگر عمران خان صاحب انہیں اس حوالے سے خط لکھیں تو نامناسب نہیں ہو گا۔سیاسی رہنمائوںکو اِدھر اُدھر دیکھنے اور کسی کی انگلی پکڑ کر چلنے کی عادت ترک کر دینی چاہیے۔انہیں اپنے مسائل آپ حل کرنے کے لیے کوشاںہونا ہو گا‘جو مسائل انہوں نے ایک دوسرے کے لیے پیدا کیے ہیں‘ وہ بھی‘جو اپنے لیے پیدا کیے ہیں وہ بھی اور جو پوری قوم کے لیے پیدا کیے ہیں‘وہ بھی حل کرنے کے لیے غور و خوض کا آغاز کرنا ہو گا۔پاکستان ہم سب کا ہے یہ مضبوط ہو گا تو سب مضبوط ہوں گے‘یہ کمزور ہو گا تو اقتدار کے عظیم الشان قلعے کا بوجھ کیسے اٹھائے گا؟عمران خان اور ان کے مخالفین دونوں اپنا اپنا حلقہ رکھتے ہیں‘دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنے کا سلیقہ سیکھنا ہو گا۔ دستور کے دائرے کے اندر رہ کر ہی حالات کو سنبھالا اور سنوارا جا سکتا ہے‘ ع موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ عمران خان کو اللہ تعالیٰ نے جو استعداد‘ جو صلاحیت‘ جو جرأت اور جو بے باکی عطا کی ہے‘وہ قومی سرمایہ ہے‘اس کے ذریعے قوم کی تعمیرنو کی جانی چاہیے۔ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکمت عملی تیار کریں‘ محض جذبات کے اندھا دھند اظہار سے مشکلات کو ختم تو کیا کم بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ایک گھنٹے کے بعد ہم نے اجازت طلب کی تو ہمارا دامن خالی نہیں تھا۔چائے کی گرما گرم پیالی کے ساتھ بسکٹ بھی پیش کیے گئے تھے اور خان صاحب کے لہجے اور الفاظ نے مستقبل کی صورت گری کو بھی اس قدر مشکل نہیں رہنے دیا تھا جس قدر مشکل دور سے دکھائی دیتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)