"MSC" (space) message & send to 7575

ایک موقع اور

یہ خبر پاکستانی قوم کو عید کا تحفہ بن کر موصول ہوئی کہ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول کا معاہدہ ہو گیا ہے۔اب اگلے نو ماہ کے دوران پاکستان کو تین ارب ڈالر ملیں گے‘ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے اور پاکستانی معیشت استحکام کے راستے پر چل نکلی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے جو کوشش کی‘وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے رابطہ ٹوٹنے نہیں دیا۔اُن سے ملاقاتیں کیں‘اور بار بار ٹیلی فون کئے‘ یوں ناقابل ِ حصول نظر آنیوالے ہدف کو حاصل کر لیا۔وزیراعظم نے عید سے اگلے روز پنجاب کے گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا تو اُن کے دائیں بائیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو دیکھا جا سکتا تھا۔گورنر انجینئر بلیغ الرحمن بھی اپنی پاکیزہ مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھے۔ چینی حکام سے ''مسٹر سی پیک‘‘ کا لقب پانے والے احسن اقبال البتہ نہیں تھے‘ وہ وزیر منصوبہ بندی کے طور پر شہباز شریف کی معاشی ٹیم کا ایک اہم حصہ ہیں‘ لیکن شاید اپنے انتخابی حلقے نارووال میں عید منانے کے سبب ان کیلئے لاہور آنا ممکن نہ ہوا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دوست ممالک کے تعاون کا شکریہ ادا کیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی کاوشوں کا بھی اعتراف کیا۔ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ حاصل ہوا‘وہ ٹیم ورک کے بغیر ممکن نہیں تھا۔گویا انہوں نے اپنے سر سے سہرا ہٹا کر اپنے تمام رفقاکے سر باندھ دیا۔حکومت کے مخالفین بھنا رہے تھے۔ملکی معیشت کے استحکام کو وہ اپنی سیاسی ضرورتوں کیلئے زہر ِقاتل سمجھتے ہیں‘ سو ان کا اضطراب ناقابل ِ فہم نہیں تھا۔ وزیراعظم نے بھی ان کے خوب لتّے لیے‘ اور دعویٰ کیا کہ ان کی کوششوں کے علی الرغم معاملہ طے پایا‘ اور پاکستانی معیشت کو سکون کا سانس نصیب ہو گیا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے کئی ناقدین ان پر برس رہے ہیں کہ گزشتہ نو مہینے کے دوران لیت و لعل سے کام لے کر انہوں نے معیشت کو نقصان پہنچایا‘ جبکہ وہ پریس کانفرنس میں بھی اصرار کر رہے تھے کہ اگر آئی ایم ایف سے معاملہ نہ ہوتا تو پلان بی تیار تھا۔پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکالا جا سکتا تھا۔ ان کی اس بات سے اتفاق کرنیوالوں کی تعداد اگرچہ کم ہے تاہم جو کچھ حاصل کیا گیا ہے‘اس کے کریڈٹ میں ان کو بھی شریک کرنا پڑے گا کہ معاشی ٹیم کی سربراہی انہی کے پاس ہے۔ کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کی بحث سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے نے پاکستانی معیشت کو بے یقینی کی دلدل سے نکالا ہے۔ آئندہ نو ماہ میں زرِمبادلہ کی جو بھی ضروریات ہیں‘ انہیں پورا کرنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کا تعاون حاصل رہے گا اور ضروری اصلاحات کرنے کیلئے درکار وقت مل جائے گا۔
پاکستانی معیشت کے جو بھی مسائل ہیں‘ وہ ایک دن میں پیدا ہوئے ہیں نہ ایک دن میں حل ہو سکتے ہیں۔1972ء کی نیشنلائزیشن کے اثرات سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔ سرکاری تحویل میں لیے گئے ادارے سینکڑوں ارب کا خسارہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ہماری آمدنی اخراجات کے مقابلے میں کہیں کم ہے‘ ہمیں آمدنی بڑھانا پڑے گی یا اخراجات کم کرنا ہوں گے۔مسلسل قرض لے کر ایک توانا ریاست بننے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ہمارا ٹیکس کی وصولیوں کا نظام بھی بوسیدہ ہے۔جی ڈی پی کا دس فیصد کے قریب ٹیکس اکٹھا کر پاتے ہیں جبکہ دنیا کے کئی ممالک اس سے دوگنا بلکہ تین گنا تک ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں۔امیروں کو چھوٹ ملی ہوئی ہے‘ اور غریب پِس رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ محصولات کی وصولی کو یقینی بنایا جائے تاکہ مملکت اپنے وسائل سے استفادہ کرے اور اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے۔
پاکستان کی آبادی بڑھتی چلی جا رہی ہے‘ قومی ترجیحات میں اسے روکنے کا کوئی مؤثر پروگرام شامل نہیں ہے۔زراعت کا شعبہ دگر گوں ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو کوئی ترغیب ہے نہ اندرونی سرمایہ کاری پر توجہ دی جا رہی ہے۔سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے منصوبے بنانے سے فرصت نہیں ہے۔ ہم شاید دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کیساتھ بات کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ہر آنیوالی حکومت جانیوالی حکومت کی پالیسیوں کو تبدیل کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ میثاقِ معیشت کی باتیں ہوتی ہیں لیکن عملاً اس طرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ اب سیاسی اور فوجی قیادت نے مل کر ایک سرمایہ کاری کونسل کی بنیاد رکھی ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ''ون ونڈو آپریشن‘‘کی سہولت مہیا کی جا سکے۔اگر یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو پھر کایا پلٹ سکتی ہے‘ لیکن اس کیلئے مسلسل کام‘ کام اور کام کرنا پڑے گا۔زبانی جمع خرچ سے قومی خزانہ تو کیا کسی ایک فرد کا بھی پیٹ نہیں بھر سکتا۔
آئی ایم ایف کیساتھ معاہدے نے ہمیں ایک بار پھر موقع دیا ہے کہ اپنے گھر کے معاملات درست کریں۔ یہ ہماری چوائس نہیں مجبوری ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کے گریبانوں سے اُلجھتے رہے‘ تو پھر کسی کا بھی گریبان سلامت نہیں رہے گا۔ایک زمانہ تھا کہ ہم جرمنی اور جاپان کہ ہم پلہ تھے‘ اگر نت نئے تجربات میں نہ اُلجھتے تو آج ہماری یوں بھدّ نہ اُڑ رہی ہوتی۔ دستور کو ہم نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے‘ ہمارے مقتدر اداروں نے شخصیات اور ان کی ذاتی ضروریات کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دی ہے۔ہمارے بڑے بڑے تو کیا چھوٹے چھوٹے بھی جو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں ہیں اور جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔اس روش کو تبدیل نہ کیا گیا تو پھر ہمارے ساتھ وہ ہو گا جو ایسی قوموں کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔رَّبنا وقنا عذاب الّنار۔
چین کے سو سال
ممتاز دانشور‘ محقق‘ مصنف اور کالم نگار قیوم نظامی ایک زمانے میں پیپلزپارٹی کی سیاست پر تن من اور دھن سے فدا تھے۔ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا اعتماد ان کو حاصل تھا۔لیکن پھر یہ ہوا کہ انہوں نے کوچہ ٔ سیاست سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو تحقیق و تصنیف کیلئے وقف کر دیا۔ قوم کو جھنجوڑتے رہتے ہیں اور سب کچھ بدل دینے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔انکی جاگو تحریک لوگوں کو جگانے میں لگی ہے لیکن انہوں نے سیرتِ نبویؐ‘ قائداعظمؒ اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے‘اُس نے انہیں قومی سطح پر نمایاں و ممتاز کر دیا ہے۔ان کی تازہ کتاب ''چین کے سو سال‘‘ کو محیط ہے‘انہوں نے اسے چین پر اردو زبان میں پہلی مکمل کتاب قرار دیا ہے۔مائوزے تنگ سے لے کر شی جن پنگ تک کا چین اس میں سمٹ آیا ہے۔ اس کا مطالعہ پاکستانی اہل ِ سیاست اور صحافت کیلئے یوں لازم ہے کہ چین میں وہ سب کچھ کر کے دکھا دیا گیا ہے‘جس کی ہمارے ہاں خواہش ظاہر کی جاتی رہتی ہے۔ چین نے غربت کا خاتمہ ہی نہیں کیا‘اپنے آپ کو اقوام عالم کی پہلی صف میں بھی لا کھڑا کیا ہے۔دوسری عالمی طاقتیں چین کی ہیبت سے کپکپا رہی ہیں۔چینی رہنما لکیر کے فقیر نہیں بنے۔اجتہادی بصیرت سے کام لیتے ہوئے سوشلسٹ معیشت میں نجی سرمایہ کاری کا کامیاب پیوند لگایا ہے۔ بقول ڈنگ سیائو پنگ‘ بلی اگر چوہے مار رہی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا رنگ کالا ہے یا سفید۔ہمارے کھوکھلے نعرے اب مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔عمل سے کوسوں دور نفسیاتی خواہشات میں ڈوبی اشرافیہ دھرتی کا بوجھ بن چکی ہے‘کوئی تو اسے سمجھائے کہ تبدیلی لانے کیلئے سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا پڑتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں