پاکستانی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ انتخابات کی تاریخ دی جا چکی ہے لیکن بے یقینی کے بادل ہیں کہ چھٹنے کا نام نہیں لے رہے۔بیرون ملک ہو یا اندرون ملک جہاں دو‘ چار پاکستانی اکٹھے ہوتے ہیں‘ یہی سوال زیرِ بحث رہتا ہے کہ انتخابات کب ہوں گے؟جو کچھ نظر آ رہا ہے‘ اُس پر یقین کرنے کو کم لوگ تیار ہوتے ہیں اور جس پر وہ یقین کا اظہار کررہے ہوتے ہیں‘ وہ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔ پاکستان اگر ایسا ملک ہوتا جو اپنے قیام کے بعد سے اب تک ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہوتا‘ اندھیروں میں سر ٹکرا رہا ہوتا تو پھر سوچنے کا انداز مختلف ہو سکتا تھا‘ اپنی تعمیر میں خرابی کو مضمر دیکھنے والوں کی بات مانی جا سکتی تھی اور یقین کیاجا سکتا تھا کہ آگے بڑھنا اور کوئی کار نمایاں کر دکھانا ہماری قسمت میں نہیں لکھا لیکن یہاں تو معاملہ یکسر مختلف ہے۔ پاکستان قائم ہوا تو مشکلات اور مصائب کے پہاڑ کھڑے تھے۔ نئی مملکت کے وسائل کم تھے اور مسائل زیادہ‘ کوئی حکومتی ڈھانچہ ہی موجود نہیں تھا۔ یونین آف انڈیا تو صدیوں سے قائم تھی‘ برسوں سے اس کی راجدھانی دہلی تھی لیکن پاکستان نام کا ملک دنیا کے نقشے پر نیا ابھرا تھا۔ اس سے پہلے اس نام کا کوئی خطہ کہیں دیکھا نہ پایا گیا۔ دو بڑے صوبے جو پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ تھے‘ بنگال اور پنجاب‘ تقسیم کیے گئے اور خونریز فسادات کے بعد لاکھوں افراد نئی مملکت میں دھکیل دیے گئے۔
تقسیمِ ہند کے منصوبے میں آبادیوں کی نقل مکانی کا کہیں ذکر تک نہ تھا‘ انڈیا کے مسلمانوں کو وہیں رہنا تھا اور پاکستانی علاقوں کے غیر مسلموں کو بھی نئے ملک کو اپنانا تھا لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے نتیجے میں جو کچھ ہوا ‘ وہ آج بھی عالمی تاریخ کا ایک انتہائی دردناک بلکہ شرمناک باب ہے۔ مغربی محققین و مصنفین تک یہ کالک برطانوی حکومت کے چہرے پر مل چکے اور لارڈ مائونٹ بیٹن کی حکمت عملی کو اس کا ذمہ دار قرار دے چکے کہ جس کے نتیجے میں نئی مملکتوں کی تخلیق کا اعلان تو پہلے کرکے برطانوی راج ختم کر دیا گیا لیکن دونوں ریاستوں کی جغرافیائی حد بندی کا اعلان بعد میں ہوا۔ نتیجتاً فسادات پھوٹ پڑے تو اُن سے نبٹنے والی مرکزی حکومت موجود نہیں تھی جو کئی دہائیوں سے اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے تھی۔
پاکستانی ریاست کو مہاجرین کے جس مسئلے کا سامنا کرناپڑا‘ وہ اپنی نوعیت اور حجم کے اعتبار سے اُس سے کہیں بڑا اور زیادہ تھا جو دہلی کی حکومت کے سامنے تھا۔کم وسائل رکھنے کے باوجود پاکستانی ریاست کے کارپردازوں نے تن من اور دھن کی بازی لگا کر اپنا ڈھانچہ استوار کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نئی مملکت چوکڑیاں بھرنے لگی۔ پاکستان نے اپنے آپ کو منوایا اور عالمِ اسلام میں ایک نئی توانائی پیدا ہوگئی۔
پاکستان نے ایک اسلامی جمہوری مملکت کے طورپر اپنا تشخص قائم کیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ اسلامی اقدار کے مطابق ایک ایسا معاشرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے جہاں جمہوری اقدار کی بھی بالادستی ہو۔ اس کے تمام شہری مذہب‘ رنگ اور نسل کی تمیز کے بغیر آگے بڑھنے کے یکساں مواقع اور استحقاق رکھتے ہوں۔ پاکستان کے دستور نے اس کی ضمانت فراہم کی اور نئی مملکت ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی طرح محسوس کی جانے لگی۔ ترقی کرتے اور آگے بڑھتے پاکستان کو کس کی نظر لگ گئی اور یہ کس طرح پٹڑی سے اُترا ‘ اس بارے میں ہر ایک کی رائے اپنی ہو سکتی ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان میں آگے بڑھنے اور اپنا آپ منوانے کا جوہر موجود نہیں ہے۔
پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اُس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مملکت کو چلانے والے جوں جوں طاقت پکڑتے گئے‘ اپنے آپ کو ریاست یا ریاست سے بالاتر قرار دیتے گئے۔ اُن کے نزدیک قانون طاقت نہیں رہا ‘طاقت قانون بن گئی‘نتیجتاً ہم ایک دوسرے کے ساتھ اُلجھ گئے۔ ہم نے اپنے نظمِ اجتماعی کو اس طرح تار تار کیا کہ ایک دوسرے کو سبق سکھاتے سکھاتے اپنی توانائیاں ضائع کر دیں۔دستوری راستے سے انحراف کرکے تیزی سے تعمیر و ترقی کے خواب دیکھے اور دکھائے گئے‘ نتیجتاً ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔ آج بھی جو مشکلات ہمارا راستہ روکے ہوئے ہیں‘ ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کوئی شارٹ کٹ ہمارے کام نہیں آئے گا جو بھی ہو اور جیسا بھی ہو‘ ہمیں اپنے آئین پر عمل کرنا ہوگا۔ تمام شہریوں کے وہ حقوق تسلیم کرنا ہوں گے جو آئین نے اُن کو دیے ہیں۔ حکومتی ڈھانچہ اسی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا جو آئین نے فراہم کی ہے۔ پاکستانی ریاست کی بنیادرکھنے والوں نے جو قراردادِ مقاصد منظور کی تھی اور آئین کی ابتدا جس سے ہوتی ہے‘ اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ مملکت کا نظام عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلایا جائے گا‘ اس کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا‘ اس کے نتیجے میں تباہی آئے گی۔ ووٹ کی طاقت سے انکار نے ہمیں ماضی میں بھی سبکی سے دو چار کیا ہے اور آئندہ بھی اسی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ جو بیج کر گندم اور گندم بیج کر جو کی فصل نہیں کاٹی جا سکتی‘ ووٹ کی عزت کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص مادر پدر آزاد ہے‘ جو چاہے کرے اور جو چاہے کہے۔ ہر شہری کے اگر حقوق ہیں تو فرائض بھی ہیں۔ اگر فرائض کی ادائیگی کا احساس نہ رہے تو حقوق کا مطالبہ بھی بے وزن ہو جاتا ہے۔ سیاسی رہنمائوں اور جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اپنے پیروکاروں کو فرائض کا پابند بنائیں قانون کے دائرے میں رہ کر ہی ایک دوسرے سے معاملہ کیا جا سکتا ہے‘ ایک دوسرے کا انکار کر کے کسی طور جمہوریت کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ جن سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں پر مختلف الزامات کے تحت کارروائیاں کی جا رہی ہیں اُن پر لازم ہے کہ قانون کے مطابق قائم عدالتوں میں ان کا سامنا کریں‘ احتجاج کرنا ہے تو قانون کے دائرے میں رہ کر کریں‘ قانون کو ہاتھ میں لینے والے بالآخر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں چھاپہ مار تنظیمیں نہیں ہوتیں‘ اُنہیں مملکت کے اداروں کے ساتھ الجھنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اداروں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی چھتری سب پر تان کر رکھیں‘ سب کے ساتھ یکساں سلوک کریں اور کسی بھی طور فریق بننے کا تاثر گہرا نہ ہونے دیں۔
پاکستانی سیاست بار بار پٹڑی سے اتری ہے لیکن صبر اور تحمل سے اسے پٹڑی پر واپس لایا گیا ہے۔ اب بھی فروعی معاملات میں اُلجھنے کے بجائے‘ مشکلوں میں اضافہ کرنے کے بجائے بنیادی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ انتخابات کا انعقاد بہر حال یقینی بنایا جائے۔ کوئی سیاستدان اپنے آپ کو ناگزیر سمجھے نہ سمجھائے‘ اپنی مشکلات کو کم کرنے کی تدبیر تو کرے لیکن انہیں قوم کی مشکلات نہ بننے دے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرے اور اجتماعی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھنے دے‘ جمہوریت صرف اپنے نام کا نعرہ لگانے کا نہیں‘ دوسروں کے نعرے برداشت کرنے کا نام ہے۔ سب ایک دوسرے کے لیے زندہ باد کا نعرہ لگا کر دیکھیں ماحول یکسر بدل جائے گا۔
یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔