"MSC" (space) message & send to 7575

8فروری کی سفیدی اور سیاہی

8فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پر ایک سال گزر گیا۔ 2024ء کے دوسرے مہینے کی آٹھ تاریخ کو پاکستان بھر میں ووٹ ڈالے گئے تھے اور عوام کو اُن کی مرضی کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کا موقع ملا تھا۔ الیکشن کمیشن نے جن نتائج کا اعلان کیا اُن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے علی الترتیب دوسرا اور تیسرا نمبر حاصل کیا۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے مخالف مل کر اکثریت حاصل کر گئے‘ سو انہوں نے اتحادی حکومت تشکیل کر ڈالی جس کی سربراہی جناب شہباز شریف کے پاس تھی‘ وہ ابھی تک یہ ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں اور آئندہ چار سال کے دوران بھی اس سے سبکدوش ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ پیپلز پارٹی نے کابینہ میں شرکت کیے بغیر شہباز شریف کی حمایت کا فیصلہ کیا اور ریاستی عہدے اپنے لیے طلب کر لیے نتیجتاً جناب آصف علی زرداری ایوانِ صدر میں متمکن ہو گئے‘ چیئرمین سینیٹ کا منصب یوسف رضا گیلانی کی جیب میں ڈال دیا گیا‘ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی گورنری بھی جیالوں کے حصے میں آ گئی۔ فیصل کریم کنڈی اور سردار سلیم حیدر حسبِ توفیق اپنی اپنی صوبائی حکومتوں سے معاملہ کررہے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی تو وزیراعلیٰ گنڈا پور کے پرانے سیاسی حریف ہیں اس لیے اُنہوں نے عملاً قائد حزب اختلاف کا منصب سنبھال رکھا ہے۔ اپنے صوبے کی حکمران جماعت پر ضرب لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ گنڈا پور اُن کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ کنڈی اُن کو پچھاڑ سکتے ہیں‘ اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما رہتے ہیں۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے سردار سلیم حیدر بھی اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں‘ گدگدی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے لیکن بات بڑھنے نہیں پائی۔ فریقین ایک دوسرے کو برداشت کر رہے ہیں‘ وزیراعلیٰ گورنر ہاؤس میں دیکھے جاتے ہیں نہ گورنر صاحب ایوانِ وزیراعلیٰ میں قدم رنجہ فرماتے ہیں‘ دور دور رہ کر دونوں کا گزارا ہو رہا ہے۔ ذکر ہو رہا تھا پیپلز پارٹی کی چابکدستی کا کہ وہ حکومت میں شامل نہ ہو کر بھی مزے میں ہے۔ اقتدار میں ہے بھی اور نہیں بھی۔ حکومتی اقدامات کا بوجھ اپنے اوپر نہیں پڑنے دیتی لیکن میٹھا میٹھا ہپ بھی ہو رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی قیادت عمر ایوب کے نصیب میں تھی‘ جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے اور اُن گوہر ایوب خان کے بیٹے ہیں جنہوں نے سپیکر اور وزیرِ خارجہ کے طور پر وزیراعظم نواز شریف کو ہاتھ دکھائے تھے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت بلا شرکت غیرے پی ٹی آئی کے ہاتھ آئی تو پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی قیادت سے بھی اسے محروم نہ کیا جا سکا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا پرچم لہراتا رہا تو بلوچستان میں وہ بذریعہ سرفراز بگٹی پیش قدمی کرتی نظر آئی‘ اُسے گھڑا گھڑایا وزیراعلیٰ ہاتھ آ گیا سو اُس نے اقتدار کے ایوانوں میں ٹانگیں مزید پسار لیں۔ 2024ء کے انتخابات نے تینوں بڑی جماعتوں کو کچھ نہ کچھ دے دیا۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت بھاری پڑی اور کسی کا احسان اٹھائے بغیر مریم نواز شریف کو اپنا لوہا منوانے کا موقع مل گیا۔ تحریک انصاف دھاندلی کا شور مچاتی جا رہی ہے‘ دعویٰ ہے کہ اُس کا مینڈیٹ چوری کر لیا گیا ہے‘ اگر نتائج بدلے نہ جاتے تو اسے دوتہائی اکثریت حاصل ہوتی اور عمران خان اڈیالہ جیل کے بجائے ایوانِ وزیراعظم میں وہی کچھ کر رہے ہوتے جو 2018ء کے انتخابات کے بعد کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے شور و غوغا میں اب کئی دوسری جماعتیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اپنا کندھا لے کر موجود ہیں تو مولانا فضل الرحمن بھی نئے انتخابات کے مطالبے سے شدید اتفاق ظاہر کررہے ہیں۔ 8فروری کو پی ٹی آئی نے یومِ سیاہ کے طور پر منایا ہے‘ صوابی میں ایک بڑا جلسہ کر دکھایا ہے لیکن شہباز شریف کے زیرِ قیادت 8فروری کو 'یوم تعمیر و ترقی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے معیشت کو سنبھال لیا ہے‘ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے‘ افراطِ زر کم ہو چکا‘ سود کی شرح گر چکی‘ زرِمبادلہ کے ذخائربڑھ چکے‘ اب حکومت نئی اُڑان بھرنے کو ہے۔ آئندہ چار سال کے منصوبے بنا لیے گئے ہیں جن پر عمل کرکے ملک کو طاقتور بنایا جائے گا‘ عوام مطمئن ہوں گے‘ ہر طرف ہریالی ہو گی اور خوشحالی ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) اور اُس کے اتحادی 8فروری کی سفیدی دکھا رہے ہیں‘ اُس سے ابھرتے ہوئے اجالے کی طرف توجہ مبذول کرا رہے ہیں لیکن عمران خان اور اُن کے حامیوں کے پاس سیاہ کاریوں کی لمبی فہرست ہے‘ وہ انتخابی نتائج کو جعلی قرار دینے پر بضد ہیں‘ اُنہیں اعتماد ہے کہ وہ تحریک چلا گزریں گے‘ حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گی‘ نئے انتخابات کرانا پڑیں گے‘ جیل کے دروازے کھلیں گے نہیں تو ٹوٹیں گے۔ عمران خان مردانہ وار باہر آئیں گے اور اپنے سارے مخالفوں کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو وہ اُن کے ساتھ کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے دعووں کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔ عام انتخابات کے حوالے سے شکایات اپنا وزن رکھتی ہیں لیکن پاکستان میں کوئی انتخاب بھی ایسا نہیں ہوا جس پر اُنگلیاں نہ اٹھائی گئی ہوں۔ گزشتہ کئی عشروں سے ہر انتخاب کے بعد ہارنے والے دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اُس کے ہم نوا اسمبلیوں میں موجود ہیں اور انہی اسمبلیوں سے وجود میں آنے والی مخالف حکومتوں کو ماننے سے انکاری بھی ہیں‘ اس تضاد نے ماحول کو آتشیں نہیں بننے دیا۔ الزامات کو معمول سے زیادہ وزن دے دیا جائے تو بھی انتخابات کو یکسر مسترد کر دینے کا معاملہ طاقت نہیں پکڑ پایا۔ اگر پی ٹی آئی اور اُس کے ہم نوا 9فروری 2024ء کو اسمبلیوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیتے اور استعفے دے کر سڑکوں پر نکل آتے تو حکومت سازی کا عمل ہموار نہ رہ سکتا۔ چونکہ ایسا نہیں ہوا‘ اس لیے وہ کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا جو تحریک انصاف اور اُس کے اتحادی چاہتے ہیں۔ یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ جن نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اگر اُن میں بھی (مبینہ طور پر) وہی کچھ ہوا جو 2024ء میں ہو چکا ہے تو پھر کیا ہوگا ؎
اب تو گھبرا کر یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اِس لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ ماضی کا رونا دھونا چھوڑ کر مستقبل پر نظر رکھی جائے‘ تمام سیاسی جماعتیں مل کر قواعد و ضوابط طے کریں‘ عہد کریں کہ ریاستی اداروں کو کسی طور سیاست میں ملوث نہیں ہونے دیں گے‘ اپنے اپنے مفاد کے لیے ''فاؤل‘‘ نہیں کھیلیں گے‘ خفیہ اداروں سے خفیہ سازباز نہیں کریں گے۔ ایک دوسرے کو برداشت کریں گے‘ ایک دوسرے کا حقِ حکومت تسلیم کریں گے تو پھر ''چمن میں آ سکتی ہے چمن سے روٹھی بہار اب بھی‘‘۔ 8فروری میں سیاہی اور سفیدی ڈھونڈنے میں توانائی ضائع کرنے کے بجائے مستقبل کو سنوارا جائے‘ اسے سیاہی سے محفوظ بنایا جائے۔ اگر فریقین سیاہ کاری پر آمادہ رہیں گے تو سیاہی اُن کا مقدر رہے گی‘ کبھی ایک کا منہ کالا ہو گا تو کبھی دوسرے کا۔ حمام کے ننگے اپنا اپنا منہ کالا کرتے رہیں گے تو پھر اُجالا کہاں سے آئے گا اور کیو ں آئے گا؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان ‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں