"MSC" (space) message & send to 7575

سانحہ جعفر ایکسپریس کے بعد

بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ نے افسردگی اور بے چارگی کی جو فضا پیدا کی تھی‘ ہماری مسلح افواج کی جوابی کارروائی نے اسے یکسر تبدیل کر دیا۔ الحمدللہ‘ کہ ہمارے جوان انتہائی مشکل اور پیچیدہ آپریشن میں کامیاب ہوئے اور جہاں یرغمالی مسافروں کی بھاری تعداد کو بازیاب کرایا‘ وہاں حملہ آور دہشت گردوں کو جہنم رسید بھی کر دیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اسلام آباد میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس یادگار آپریشن کی تفصیلات بیان کیں اور اس سے جڑے متعدد سوالات کے بھی تسلی بخش جوابات فراہم کیے۔ کلیئرنس آپریشن کی وڈیو دیکھ کر اہلِ پاکستان کے سر فخر سے بلند ہو گئے‘ اس میں یرغمالیوں کے دہشت گردوں کے نرغے سے فرار ہونے اور فوج کی جانب سے ریسکیو کیے جانے کے مناظر صاف نظر آ رہے تھے۔ پاک فوج کے سنائپرز نے دہشت گردوں کو جس طرح زد پر لیا اور ہر ہر بوگی کا جس طرح سرچ آپریشن کیا گیا‘ یہ سب کیمرے کی آنکھ سے پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ ایس ایس جی کمانڈوز کی ٹیم بھی وڈیو میں دکھائی دے رہی تھی اور جہنم واصل کیے جانے والے کئی دہشت گرد بھی جدید ترین اسلحے کے ساتھ مٹی کا ڈھیر بنے ہوئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ شہید ہونے والے 26افراد میں سے18کا تعلق فوج اور ایف سی سے تھا۔
بلوچستان میں دہشت گردی برسوں سے جاری ہے‘ اس کی شدت میں کمی یا اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے جو شدت دیکھنے میں آ رہی ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بلوچستان کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے والی شاہراہیں غیر محفوظ بنائی جا رہی ہیں‘ ان پر سفر کرنے والے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گاڑیوں پر بھی کئی حملے ہو چکے ہیں لیکن جعفر ایکسپریس کو جس طرح ہائی جیک کیا گیا اور سینکڑوں مسافروں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی‘ اس نے پورے ملک کو مضطرب کر دیا۔ دہشت گردوں کے بڑھتے حوصلوں نے اہلِ وطن کے حوصلوں کو صدمہ پہنچایا لیکن افواجِ پاکستان کی جوابی کارروائی نے پانسہ پلٹ دیا۔ قوم کا حوصلہ بحال ہوا کہ دہشت گردوں کو کچلنے اور ان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے جوان حدِ امکان سے باہر جا سکتے ہیں اور کمال دکھا سکتے ہیں۔ یہ بھی مقامِ شکر ہے کہ قومی اسمبلی نے اس واردات کی متفقہ طور پر مذمت کی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیا۔ تحریک انصاف اور اس کے خواجہ آصف جیسے ناقدوں کی نوک جھونک کے باوجود اتفاقِ رائے برقرار رہا اور سب ارکان اس عفریت کا سر کچلنے میں پُرعزم نظر آئے۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے انتہائی دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے‘ یہ پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے۔ دہشت گردوں کا نہ تو کوئی سیاسی مطالبہ ہے نہ ہی اسے حقوق کی جنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ دہشت گردوں کو صرف دہشت گرد سمجھا جائے اور ان کا سر توڑنے کے لیے پوری قوم یک آواز رہے۔ جناب بگٹی کی اس بات سے کوئی ذی شعور اختلاف نہیں کر سکتا کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چلائی جا رہی ہے۔ بھارت کی شہ پر افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے ٹکڑے کرنے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستانی سیاست پولرائزیشن کا شکار ہے‘ مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ مکالمے اور مصافحے کی اہمیت کو سمجھنے پر تیار نہیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کو توڑنے کی خواہش رکھنے والوں کے ساتھ نرمی اختیار کی جائے یا انہیں سیاسی کارکن تسلیم کر لیا جائے۔ آئین کے دائرے میں رہ کر ہر جماعت‘ ہر گروہ اور ہر شخص کو اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ کسی ایک صوبے کے رہنے والوں کو اپنی خود مختاری میں اضافے پر زور دینے سے روکا نہیں جا سکتا لیکن اس کا یہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا کہ ہتھیار اٹھانے والوں کو بھی ''آئینی تحفظ‘‘ فراہم کیا جائے۔ جو بندوق کے ذریعے اپنی بات منوانا بلکہ مسلط کرنا چاہتا ہے‘ اس سے بندوق ہی کے ذریعے معاملہ کیا جانا چاہیے۔ بلوچستان میں جو شورش برپا ہے‘ اس میں بار بار ''مِسنگ پرسنز‘‘ کا حوالہ بھی آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کئی افراد کو من مانے انداز میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے‘ یہ غیر قانونی حراستیں جذبات کو مشتعل کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس بیانیے کو بار بار دہرا کر مظلومیت کی دہائی دی جاتی ہے لیکن یہ بات پیش نظر نہیں رکھی جاتی کہ ''مِسنگ پرسنز‘‘ کی وجہ سے حالات خراب نہیں ہوئے‘ ان کا وجود حالات کی خرابی کا سبب نہیں‘ اس کا نتیجہ ہے۔ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ہر وہ شخص جو لاپتہ ہو جاتا ہے‘ وہ قانون نافذ کرنے والوں کی تحویل میں ہوتا ہے۔ ایسے کئی افراد مسلح جدوجہد کرنے والوں کا شکار ہو جاتے ہیں‘ کئی ان کا حصہ بنے ہوئے ہیں‘ کئی ایک کو جہادی شوق بیرونی ممالک میں لے جاتا ہے۔ اس کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک خود مختار کمیشن کام کر رہا ہے‘ بڑی تعداد میں ایسے افراد کا پتہ لگایا اور انہیں بازیاب کرایا جا چکا ہے۔ متعدد شکایات زیر سماعت ہیں۔
پاکستان کے ہر ادارے‘ ہر جماعت اور ہر شخص پر یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ اگر مگر‘ چونکہ چنانچہ کا وقت نکل چکا ہے۔ واضح اور دوٹوک انداز میں دہشت اور طاقت کے خلاف کھڑے ہونا ہو گا۔ کسی بھی جواز‘ دلیل یا بہانے کو بنیاد بنا کر طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ طاقت پر صرف اور صرف ریاست کی اجارہ داری تسلیم کرنا ہو گی۔ کسی غیر ریاستی عنصر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بندوق اٹھائے۔ پاکستان کو توڑنے کی کوشش کرنے والوں کے ہاتھ توڑنا ہوں گے۔ انہیں کسی بھی طرح کا تحفظ فراہم کرنے والا انہی میں شمار ہو گا اور انہی کے حشر سے دوچار کیا جائے گا۔ اتحاد اور یکجہتی کی فضا کو مستحکم کرنے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے یک جا ہوں۔ شکوے سنے جائیں اور شکایتوں کا ازالہ کیا جائے۔ تحریک انصاف اور اس کے مخالفین کے درمیان جاری کشمکش بھی منطقی انجام تک پہنچنی چاہیے۔ جو سیاسی رہنما اور کارکن گرفتار ہیں ان کے ساتھ حسنِ سلوک روا رکھا جائے۔ ایک پارلیمانی کمیٹی سیاسی افراد کے خلاف درج مقدمات کا جائزہ لے‘ جن کے خلاف مقدمات واپس لیے جا سکتے ہیں واپس لیے جائیں اور جو واپس نہیں لیے جا سکتے ان کے بارے میں عدالتی کارروائی کو تیز اور نتیجہ خیز بنایا جائے ؎
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں