میاں محمد اظہر مرحوم کی تعزیت کے لیے ان کی وسیع رہائش گاہ پہنچا تو بڑے دروازے کے ساتھ ہی ٹی وی کیمروں کا جمگھٹا تھا‘ چند قدم کے فاصلے پر ایک بڑے میز پر ''مائیکوں‘‘ کا ڈھیر پڑا تھا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اظہارِ خیال کر رہے تھے‘ ان کے ساتھ مرحوم کے بیٹے اور جی دار سیاستدان حماد اظہر کھڑے تھے‘ اردگرد کارکنوں کا ہجوم تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بیرسٹر اعتزاز احسن بولے: ''میں اب نرم ہو جاؤں گا۔ میں نے فوراً کہا: جناب‘ میں تو آپ کو گرم دیکھنا چاہتا ہوں۔ (آپ پروا نہ کریں‘ گرمتے اور گرماتے رہیں)‘‘۔ بیرسٹر صاحب سے کسی کو جو بھی اختلاف ہو اس بات کا انکار تو نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک جرأت مند قانون دان اور سیاسی رہنما ہیں۔ عمر کا بڑا حصہ پیپلزپارٹی میں گزارا‘ جب1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو وہ پنجاب کے وزیر اطلاعات تھے۔ تحریک کے دوران ہی انہوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا‘ بعدازاں تحریک استقلال میں شامل ہوئے اور ایئر مارشل اصغر خان کے ہم نوا بن گئے۔ پیپلز پارٹی کی یاد نے ستایا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد میں لوٹ آئے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کو جنرل پرویز مشرف نے برطرف کیا تو ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اس تحریک میں جن وکیلوں نے جان ڈالی اور جان لڑائی‘ ان میں وہ نمایاں تر تھے۔ پرویز مشرف ان کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج سجانے پر تیار تھے لیکن اعتزاز نے اس طرف دیکھنا تو کیا تھوکنا بھی گوارا نہیں کیا۔ ریاست کو ماں جیسی بنانے کے لیے سرگرم رہے۔ اپنے شعروں اور نعروں سے ماحول کو ایسا گرمایا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کو ان کے رفقا سمیت بحال کرنا پڑا۔ پرویز مشرف ایوانِ صدارت سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ تحریک بحالیٔ عدلیہ کے دوران اعتزاز نے آصف علی زرداری کی پیچ دار سیاست کا دم بھرنے سے انکار کیا۔ اب بھی وہ پیپلز پارٹی میں ہیں لیکن ان کا دِل عمران خان کے لیے دھڑک دھڑک اٹھتا ہے۔ زمان پارک میں وہ خان کے ہمسائے رہے لیکن ان کی سیاست انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کر پائی۔ جب سے جنابِ خان پر اَفتاد پڑی ہے‘ اعتزاز ان کا دم بھرنے لگے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں شامل ہیں لیکن اندھیرے اُجالے تحریک انصاف کے حق میں آواز لگا کر گزرتے ہیں۔ میاں محمد اظہر مرحوم کے حوالے سے بھی وہ پُرجوش تھے کہ بات کہیں اور نکل گئی۔ جہاں تک تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا معاملہ ہے‘ اس پر وہ سب لوگ مضطرب ہیں جو پاکستان میں جمہوری عمل کو توانا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اعتزاز احسن رخصت ہوئے تو حماد اظہر کے ساتھ ڈرائنگ روم کا رُخ کیا‘ یہاں فواد چودھری‘ سینیٹر طارق چودھری‘ شوکت بسرا‘ حافظ فرحت اور تحریک انصاف کے درجنوں جیالے موجود تھے۔ برادرم وحید چودھری اور عزیزم عثمان شامی میرے ساتھ تھے۔ سب نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے اور پھر میاں اظہر کی باتیں شروع ہو گئیں۔
مرحوم لاہور کے میئر رہے‘ پنجاب کے گورنر بنے‘ شریف برادران کے ساتھ گاڑھی چھنتی رہی۔ راستے الگ ہوئے‘ مسلم لیگ (ق) کے بانیوں میں جگہ بنائی لیکن چودھری صاحبان کی رفاقت راس نہ آئی‘ صحرا نوردی نصیب ہوئی۔ تحریک انصاف نے پر پُرزے نکالے تو اپنے ہونہار بیٹے حماد اظہر سمیت اس کی نذر ہو گئے۔
میاں محمد اظہر مرحوم پکے لاہوریے تھے‘ یہیں پلے بڑھے‘ یہیں سیاست کی‘ آرائیں برادری کے چشم و چراغ تھے لیکن کشمیریوں نے بھی انہیں سر پر بٹھائے رکھا۔ ایک بڑے صنعتکار کے بیٹے تھے‘ لاکھوں کیا کروڑوں‘ اربوں میں کھیلتے رہے لیکن اپنے اطوار‘ اقدار اور مزاج کے اعتبار سے عام آدمی تھے۔ عام آدمیوں میں گھل مل کر رہتے‘ رؤسا کی صحبت میں بے چین ہو جاتے۔ دیانتدار‘ باوقار اور باکردار‘ لاہور ان کا تھا اور وہ لاہور کے تھے۔ ان کے والد سے میاں محمد شریف مرحوم کی گہری دوستی تھی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی بڑی بڑی صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لے کر ملکی معیشت کو تاراج کیا تو اتفاق فونڈری بھی زد میں آ گئی۔ اس پر حکومتی کارندے قابض ہوئے تو میاں محمد شریف مرحوم اور ان کے بھائی خالی ہاتھ کھڑے نظر آئے۔ میاں محمد اظہر کے والد میاں فضل محمد بھی سٹیل کے کاروبار میں نمایاں تھے۔ انہوں نے نئی مل لگانے کے لیے جدید ترین مشینری کا آرڈر دے رکھا تھا۔ اس دورِ ابتلا میں میاں محمد شریف کے پاس پہنچے اور اپنی وہ مشینری ان کی خدمت میں پیش کر دی جو چند روز بعد پاکستان پہنچنے والی تھی۔ میاں محمد شریف نے بصد شکریہ ان کا ''تحفہ‘‘ قبول کرتے ہوئے نئی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ بعدازاں قرض حسنہ ادا تو کر دیا گیا لیکن میاں فضل نے ہمیشہ کے لیے انہیں اپنا بنا لیا۔ وہ ان کے دِل میں بسنے لگے۔ آخر دم تک میاں محمد شریف مرحوم ان کو یاد کرتے اور دعائیں دیتے رہے۔
بے نظیر بھٹو حکومت کی تحلیل کے بعد صدر غلام اسحق خان نے جنرل ٹکا خان کی جگہ نئے گورنر پنجاب کی تلاش شروع کی تو نگاہ میاں محمد اظہر پر ٹھہر گئی۔ میاں فضل علیل تھے کہ میاں محمد شریف نے اپنے بیٹے میاں محمد نواز شریف سے کہا کہ ان کی تیمار داری کے لیے چلنا ہے اور انہیں کوئی تحفہ بھی پیش کرنا ہے۔ سعادت مند بیٹے نے سر تسلیم خم کیا تو تجویز پیش کی کہ میاں محمد اظہر کو گورنر پنجاب بنا دیا جائے۔ باپ‘ بیٹا میاں فضل صاحب کے پاس پہنچے اور انہیں یہ خبر سنائی تو وہ ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ آنکھیں نم ہو گئیں اور ہاتھ دعا کے لیے اُٹھ گئے۔ میاں محمد اظہر نے چند روز بعد گورنر کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔ میں نے اس واقعے کا ذکر اپنے ٹی وی پروگرام ''نقطہ نظر‘‘ میں کر دیا‘ جو حماد اظہر نے سن رکھا تھا۔ انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ نام غلام اسحق خان نے بطور میئر ان کی کارکردگی سے متاثر ہو کر پیش کیا تھا۔
اس بحث میں الجھے بغیر کہ میاں محمد اظہر کا نام کس نے تجویز کیا تھا‘ یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ میاں محمد اظہر اور میاں محمد نواز شریف میں گاڑھی چھنتی تھی‘ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے‘ یہ محبت انہیں اپنے اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی لیکن پھر یہ ہوا کہ دونوں کے راستے الگ ہوئے۔ اقتدار کی سیاست میں کئی بار ایسا ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوں گے لیکن یہ سانحہ بھی پیش آیا‘ کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ شریف فیملی اور میاں اظہر فیملی کے درمیان جو دوریاں ہوئیں‘ وہ کوئی راز نہیں۔ میاں محمد اظہر اپنے ڈھب اور اپنے انداز سے سیاست کی بازی کھیلے۔ ان کے بیٹے حماد اظہر بھی اپنا نقش جمائے ہوئے ہیں۔ ان پر درجنوں مقدمات درج ہیں‘ ان میں ایسے بھی ہیں کہ جن میں ایک ہی دن انہیں مختلف شہروں میں ہنگامے برپا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ وہ ایک عرصہ روپوش رہے۔ ان کے اردگرد ایسے کئی افراد موجود تھے جو اپنی اپنی ابتلا کی کہانی سنا رہے تھے کہ پولیس نے کس طرح انہیں نشانہ بنایا‘ گھروں پر چھاپے مارے‘ بچوں تک کو حراست میں لیا‘ چار دیواری کا تقدس پامال کیا‘ یہ سب سن کر کلیجہ منہ کو آ رہا تھا اور دِل سے دعا نکل رہی تھی۔ اے کاش‘ ہمارے اہلِ سیاست ایک دوسرے کا جینے کا حق تسلیم کر لیں۔ لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں اور اقتدار کے کھیل کو کرکٹ کی طرح کھیلیں‘ اسے پاک بھارت جنگ نہ بنائیں‘ میاں اظہر کی طرح وضع داری نبھائیں‘ سب کی عزت کریں اور سب سے عزت کرائیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)