انصاف :پا ر لیمان، حکو مت اور عد لیہ

منصفا نہ نظام کی ناکامی پورے ریاستی ڈھانچے کی ناکامی ہوتی ہے ۔ نا کام ریاستیں قائم تو رہتی ہیں لیکن قانون کی حکمرانی ناپید ، سماجی وانتظامی نظم و ضبط ختم اور ہر کوئی اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہو تا ہے ۔ ناکام ریا ستی ڈھانچہ اور منتشر سماج بار بار انگر یز ناول نگا ر تھامس ہارڈی کی کہانیوں کے کردار اور واقعات پیدا کرتے ہیں جن کے تحت سانحوں کی کوک سے بربریت، افراتفری اور کج فہمی جنم لیتی ہے ۔بے انصافی کے نظام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ عناصر اور ادارے بھی بے انصافی کاشکار ہو جا تے ہیں جو بذات خود بے انصافی کے پھیلاؤ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں ۔اس لیے ، منصفانہ ماحول کا قیام پار لیما ن ،حکومت اور عد لیہ تینوں سما جی اداروں کی اجتما عی ذمہ دا ری ہو تی ہے ۔ان میں کوئی ایک ادارہ دیگر دو اداروں کو موردِ الزام اور خو د کو مبراقرار نہیں دے سکتا کیو نکہ ریا ستی ڈھا نچے کی نا کا می میں سب شا مل ہو تے ہیں ۔ تا ہم مستحکم جمہو ریتوں میں انصاف کی فرا ہمی بنیا دی طو ر پر منتخب حکو مت کی ذمہ دا ری سمجھی جا تی رہی ہے ۔اکیسویں صدی کی شروعات غیر معمولی واقعات سے ہو ئیں جس کے بعد پار لیمان کوانصاف کی فر ا ہمی کی مرکزی ذمہ داری سو نپی جا نے لگی ۔اس سے قبل پا ر لیمان کا کام صرف قانون سا زی تھا ۔حکو مت اس کو نافذ کر تی اور اس پر عمل درآ مد کرا تی جبکہ عد لیہ اس کی تشریح کر تی تھی ۔بیسو یں صدی کے آخری عشرے تک حکومت کسی نہ کسی حو الے سے پارلیما ن پر سبقت رکھتی تھی ۔لیکن نوے کی دہائی میں پا ر لیما ن کے ضا بطہ کار و انصرام میں بنیا دی تبدیلیاں شروع ہو ئیں ۔ اب پا ر لیما ن کو حکومت کے احتساب اور اس کی کا ر کردگی کی نگرا نی کا بھی فریضہ سو پنا گیا ہے۔ آج پا ر لیما ن صرف قا نو ن ساز نہیں بلکہ نگران ادارہ کہلا تا ہے۔ خو د ا حتسا بی کے مر بو ط نظا م کے تحت وزیراعظم ،صدر یا گو ر نر جنرل اقتدار اعلیٰ کا واحد نمو نہ نہیں بلکہ وہ ایک قابل ا حتساب اور عوام کو جو اب دہ نما ئندہ ہوتا ہے ۔ سوویت یو نین کی تحلیل کے بعد جمہو ریت کی تیسر ی لہرنے پو ری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ لیکن اس کے بعد پارلیمان کے فرائض کا بھی تعین کیا گیا ۔اگر پارلیمان منصفا نہ قانو ن بنا نے اور حکو مت کا ا حتساب کر نے میں نا کام رہتی ہے تو اس کو بدلا جا سکتا ہے ۔ اس کی خود مختا ری غیر مشروط نہیں رہی ۔ اس طرح حکو مت منصفا نہ اور بر ا بری کا نظام مہیا نہیں کر سکتی تو منتخب حکومت کو بھی اقتدار میں رہنے کا کو ئی حق نہیں ۔ اس تناظر میں انصاف اور مساوات کو یقینی بنا نے کی جتنی بڑی ذمہ دا ری پار لیما ن اور حکومت پر عائد ہو تی ہے اتنی عد لیہ پر نہیں ہو تی کیو نکہ عدد اور وسا ئل کے اعتبار سے پا ر لیما ن اور حکومت کو عد لیہ پر سبقت حاصل ہو تی ہے۔ لیکن افسو س ناک با ت یہ ہے کہ غیر مستحکم جمہوریتوں میں پا رلیما ن اور حکو مت اپنی یہ ذمہ دا ری صرف عدلیہ پر ڈال دیتی ہیں ۔حال ہی میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ جہاں پرانصاف کی فرا ہمی میں عدلیہ کی آ زا دی اہم ہو تی ہے وہا ں اس کی کا ر کر دگی بھی اہم تر ین سمجھی جا تی ہے ۔اگر عدلیہ زیر سما عت مقدمات جلد نمٹائے گی تو ملک میں انصاف ہوگا اور امن و عا مہ کا ما حو ل ٹھیک ہو جائے گا۔عدالت عظمیٰ نے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران غالباً وزیراعظم کے بیان پر اپنی را ئے دیتے ہو ئے کہا ہے کہ ملک میں انصاف کی عدم فراہمی حکو مت کی نا اہلی کو ثابت کرتی ہے کیو نکہ کمزور تفتیش، بدنیتی پر مبنی مقدمات کا اندراج اور عدا لتوں میں حتمی چا لا ن کی پیشی میں غیر ضرو ری التوا مقد مات کو فو ری نمٹانے میں بڑی رکا وٹ ہیں۔ 17لاکھ زیر سما عت مقدمات کونمٹانے کے لئے 24سو جج تعینات ہیں ۔ جب بھی حکو مت کو ججز کی تعیناتی کے لئے کہا جا تا ہے تو جواب ملتا ہے کہ وسا ئل کی کمی ہے ۔ اگر حکو مت کے پا س انصا ف کی فر ا ہمی کیلئے وسا ئل نہیں تو اس کی تر جیحا ت کو ئی اور ہیں ۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ یہ حکومت نا اہل ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس کو اپنی ذمہ دا ریوں کا احساس دلا یا جائے ۔
دستو ر پا کستان کے تحت عدالت عظمیٰ صرف قا نو ن کی تشریح کر نے وا لا ادارہ نہیں بلکہ یہ پا ر لیما ن اور حکو مت کی کا ر کر دگی کی نگرا نی کر نے وا لا اہم ترین ادارہ ہے جس کے معاون پار لیما ن ، 
حکو مت اور ملکی سلامتی کے ادارے ہوتے ہیں ۔علاو ہ ازیں جمہوریہ میں آسان ، فو ری اور سستا انصاف پا ر لیمان کی کمیٹیاں اور ایوان فراہم کر تے ہیں ۔ شہر یوں کے وو ٹ سے اقتدار میں آنے وا لے اداروں کی بنیا دی ذمہ دا ری عوام کو مطمئن کر نا ہے ۔ مغر بی جمہو ریتوں میں شہر یو ں کی پا ر لیما ن کی کا ر روا ئیوں میں شمو لیت کی حو صلہ افزا ئی کی جا تی ہے ۔ پا ر لیما ن میں اٹھا ئے گئے سوا لا ت نقطہ اعتراض اور عوامی درخو ا ستیں انصاف کی فراہمی کا مو ثر تر ین ذر یعہ ہیں ۔بر طا نیہ، جس کی آ با دی 8کروڑ ہے ، کی پارلیمان میں سا لا نہ 10سے12لا کھ عو ا می در خو ا ستیں، شکایات مو صول ہو تی ہیں جن پر قا نو ن کے تحت فیصلہ کیا جا تا ہے ۔پا کستان کی پارلیما ن کے قوا ئد میں بھی عوام کو سستا انصاف فراہم کر نے کا بنیا دی ڈھا نچہ مو جو د ہے ۔ایک رکن ایک دن میں کسی بھی 8معاملات کو ایوان میں اٹھا سکتا ہے ۔ اگر ہما ری پا ر لیما ن کے آدھے اراکین بھی اپنی قومی ذمہ داری پو ری کریں تو ہر روز کم از کم 2ہزارحل طلب معاملات کواٹھا یا جا سکتا ہے ۔ لیکن پا ر لیما ن عد م دلچسپی کا یہ عا لم ہے کہ اس میں یو میہ ایک سو سے بھی کم سوال کیے جا تے ہیں۔ پچاس فیصد کا حکو مت جواب دینا گوا را نہیں کر تی ،چا لیس فیصد سوا لات سے متعلق وزراء غیر حاضر ہو تے ہیں ۔ بقیہ دس فیصد سوالات ، خواہ ان کے جواب میں کتنی بڑی بے انصافی کی 
نشاندہی نہ کی گئی ہو ، پرکو ئی کا رر وا ئی نہیں ہو تی۔ بالکل اس طرح رولز آف بزنس 1973ء میں منصفانہ اور فعا ل نظام کو یقینی بنا یا گیا ہے ۔مگر ما تحت محکمے اس پر عمل درآمد نہیں کر تے جس سے ریاستی ڈ ھا نچہ نا کا م ہو تا ہے اور بے انصا فی کو فرو غ ملتا ہے ۔ 
اگر پا ر لیما ن کے ارا کین ، اس کے ا نتظا می شعبے اور سرکاری ادا رے اپنے اندر بہتر طر ز حکمرا نی ، شفا فیت اور احتساب کو یقینی بنا نے میں اپنا دستوری ، قا نو نی اور قو می فر یضہ ادا کر یںگے تو ملک میں بے انصا فی کے ما حو ل میں کمی آئے گی ۔ مزید برآں ، اگر حکو مت یہ محسو س کر تی ہے کہ عد لیہ مستعدی سے کا م نہیں کر رہی تو یہ عدا لتی نظام کو انتظامی اصلا حات کے ذریعہ بہتر کر سکتی ہے ۔ ججوں کے احتساب کا نظام مو جو د ہے ۔ جوڈیشل کو نسل میں وفا قی اور صو با ئی حکو متو ں کو بھی نما ئندگی حاصل ہو تی ہے ۔ اگر وفا قی حکو مت خو د کو انصاف کی فر ا ہمی میں بے بس اور مجبو ر سمجھتی ہے تو وفا قی وزارت انصاف و قا نون کس مر ض کی دو ا ہے ۔ صو بو ں میں انصاف و داخلہ کے محکموں کے پا س جتنے اختیارات ہیں، اتنے تو صوبوں کی اعلیٰ عدالتوں کے پا س بھی نہیں ۔وزیراعظم کا عدا لتوں پر الزام نا قا بل سمجھ ہی نہیں بلکہ اپنے ہی پا ؤ ںپر خود آپ ہی کلہا ڑا مارنے کے مترا دف ہے ۔ ہما رے جمہو ری اداروں اور منتخب حکو مت کو سمجھ لینا چاہیے کہ منصفا نہ نظام کا ریا ستی ڈھا نچہ نا کام ہو چکا ہے تو اس کا سب سے زیا دہ نقصان خو د ان کو بر دا شت کر نا ہوگا ۔ جمہو ری نظاام کی کا میا بی کا خمیا زہ جمہو ری اداروں اور طا قتوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں