پہلے حصے میں اس بات کا تذکرہ تھا کہ مسلمان ممالک آپس میں لڑنے کے بجائے دشمن کی چال کو سمجھیں‘ جس نے ہمیں ایک ایک کرکے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اور نسخہ لگ بھگ ایک ہی طرح کا استعمال ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی ہی نظروں میں گراؤ، اسلام کی حقانیت کو مشکوک کر دو، اخلاقی اور معاشرتی گراوٹ کو مذہبی رجحان کے ساتھ منسلک کرو اور مختلف عقیدوں کے متعلق جھوٹی تاویلیں دے کر مسالک میں ٹکراؤ پیدا کرنے کے بعد معاشی اور سیاسی کمزوریوں کی بنیاد پر ان ممالک میں بسنے والے انسانوں اور وہاں کے مادی وسائل پر قبضہ کر لیا جائے۔ اگر کوئی حکمران یا سیاسی نظام اس یلغار کی مدافعت کرے تو اندر سے ان کی مخالفت پیدا کی جائے اور ایسے منفی عناصر کو مکمل سیاسی، نفسیاتی، معاشی اور میڈیا کی مدد فراہم کی جائے اور یوں سیاسی نظام اور معاشرت کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا جائے۔ کمزور اور غیر نمائندہ حکمرانوں کو مسلط کرنے کے بعد من مانے فیصلے کروائے جائیں۔ یہی طریقہ کار بار بار استعمال ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے۔ اس کو نام کچھ بھی دے دیں۔ اس تمام کارروائی کی خوبی یہ ہے کہ تمام کردار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے‘ اور جب تک پورے کھیل کی تصویر سامنے آتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ حق بات یہ ہے کہ اس کہانی کا آغاز ہماری اپنی کمزوریوں اور اندرونی منافرت ہی سے ہوتا ہے۔ دشمن کا کام تو پہلے سے موجود شگاف کو مزید گہرا اور بڑا کرنا رہ جاتا ہے۔
بار بار وقوع پذیر ہونے والے اس گھناؤنے کھیل کو سمجھنے کیلئے ذاتی اور اداروں کے فوائد سے بالا تر ہو کر قومی مفاد کو پیش نظر رکھنے والے اصحاب کا کلیدی عہدوں پر ہونا اشد ضروری ہے۔ اس بحث سے جو بات سامنے آتی ہے‘ وہ اس سمت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایسا سیاسی نظام وضع کیا جائے جس میں لوگ جب اپنے نمائندوں کا چناؤ کریں تو ان نمائندوں کا کردار اور اہلیت روز روشن کی طرح لوگوں کے سامنے ہو۔ یہ بالکل ایک الگ سیاسی بحث ہے‘ اس کو کسی اور تحریر کیلئے اٹھا رکھتے ہیں۔ لیکن اس وقت پیارے پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کا موازنہ ان ممالک کے واقعات سے کیجئے جن پر قیامت گزر چکی یا تیزی سے انہیں اس سمت میں دھکیلا جا رہا ہے۔
اس وقت مختلف تکنیکی حربے (Hybrid) استعمال ہونے کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں:
تمام بڑی سیاسی شخصیات اور پارٹیوں کو متنازع بنا دیا گیا۔ زیادہ تر اسلامی گروہوں کو شدت پسندی اور انتہا پسندی سے جوڑ دیا گیا ہے۔
کلیدی اداروں کے بارے میں ابہام پیدا کئے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی آج یہ باور کروانے کی کوشش کرے کہ پاکستان کے بارے یہ جو مکمل منفی تصویر کشی کی گئی یہ حقیقت نہیں تو اکثر لوگ اس شخص کی ذہنی حالت پر شک کریں گے۔ جھوٹ، منفی پروپیگنڈا، فالس فلیگ آپریشن (False flag operation) مس انفارمیشن (Misinformation)‘ ڈس انفارمیشن (Disinformation) اور معاشی ہٹ مین (Economic Hitman)نے یہ کام کر دکھایا اور ہمارے حکمران اور ادارے اتنے بڑے سانحے سے بے خبر رہے۔
اب کچھ اندرونی سیاسی صورت حال کا جائزہ بھی لے لیں۔ جس قدر تلخی اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کے مابین پائی جاتی ہے، وہ کسی بھی درد مند شہری کو فکرمندکرنے کیلئے کافی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت فقط چند اکثریتی ارکان کی وجہ سے قائم ہے۔ اتحادی جماعتیں جب بھی ناراضگی کا اظہار کرتی ہیں‘ حکومت ہل ہل جاتی ہے۔ کوئی قانون پاس کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ دیکھیے بجٹ کیسے پاس ہوتا ہے؟ پی ٹی ایم تحریک سیاسی رنگ بدل کر عسکریت کی چادر اوڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ ڈنڈا بردار جتھوں کو بندوق بردار گروہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ نیب کے چیئرمین ایک اخلاقی قضیے کا شکار ہو چکے ہیں۔ چاہے وہ جتنی بھی کوشش کریں یہ داغ دھو نہیں پائیں گے اور شاید استعفیٰ ہی ان کا مقدر بنے۔ اس کے بعد حزب اقتدار اور حزب اختلاف کبھی کسی ایک نام پر متفق نہیں ہو پائیں گی۔ اس طرح ملک مزید بحرانوں اور فوج کی نام نہاد سلیکٹڈ ٹیم کا شکار ہو سکتا ہے۔ حکومت کی ناقص کارکردگی کو تقریباً ناکامی کے ساتھ جوڑ کر زبردستی فوج کو سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ سیاستدان اور تجزیہ نگار اس عمل کے گھناؤنے نتائج سے بے خبر‘ بلا کوئی ثبوت فراہم کئے اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے متعلق کچھ ایسا غلط تاثر ابھارا جا رہا ہے جیسے خدانخواستہ وہ غیر جانبدار نہ ہوں۔ اب یہ تمام باتیں کسی بھی سیاسی یا معاشرتی نظام کو تہ و بالا کرنے کیلئے کافی ہیں‘ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اپنی معاشی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتا چلے گا کہ ایسا ملک جو اپنی غذائی ضرورتوں میں خود کفیل، دودھ، پھل اور سبزیوں کی پیداوار میں کئی ملکوں سے آگے، دنیا کے بہترین ڈاکٹر اور انجینئرز پیدا کرنے والا، نوجوانوں کی بڑی آبادی کا علمبردار، معاشی مشکلات کا شکار بنا دیا گیا۔ ملک کو یہاں تک لانے کیلئے اپنوں اور پرایوں نے بہت محنت کی ہو گی۔ لیکن حیرت کی بات کہ نہ کوئی پکڑا گیا اور نہ ہی کوئی بات ثابت ہوئی، سوائے ایک آدھ فیصلے کے کسی کو گرفت میں نہیں لیا جا سکا۔ اپنی اپنی کھال اور لوٹا ہوا پیسا بچانے کیلئے بھائی صاحبان قومی عزت اور سالمیت کو داؤ پر لگانے کیلئے تیار ہیں بلکہ اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں بیرونی عوامل اور اس خطے میں وقوع پذیر ہونے والے دیگر واقعات کی۔ مودی ایک بڑی سیاسی جیت کے بعد دوبارہ اپنے عہدے پہ براجمان ہو رہے ہیں، وہی آرمی چیف وہی زخم خوردہ نیشنل سکیورٹی کے مشیر۔ مقبوضہ کشمیر کی زور پکڑتی آزادی کی تحریک اور ہندوستانی فوج کے بے پناہ مظالم۔ امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم کے معنی خیز تہنیت کے پیغامات۔ امریکی بحری بیڑے کا ایران کے ساتھ کشیدگی کے بہانے بحیرہ عرب میں داخل ہو جانا، اور امریکہ افغان طالبان کے ناکام مذاکرات۔ ان میں سے ایک بھی خبر پاکستان کیلئے خیر کی نہیں۔ خطے کی حالت، معاشی بدحالی اور اندرونی خلفشار کو کس طرح کسی بھی امید کے سہارے تبدیل کرنے کا عندیہ دیا جائے؟ نا امیدی گناہ ہے، لہٰذا ہمیں اس کا مرتکب نہیں ہونا۔ پھر کیا کرنا ہے؟ سرحدوں پر جو کشیدگی ہے اسے تو اپنے ڈیٹرنس کا پر زور اعادہ کرنے سے روکنا ضروری ہو گا۔ مصنوعی معاشی بحران پر اپنے لوگوں کو اعتماد میں لے کر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ بات اس وقت بنے گی جب ہم آپس کی سیاسی، فرقہ واریت پر مبنی، لسانی اور صوبائی منافرت سے باہر نکل کر اور مل کر اپنے ملک کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہو جائیں گے‘ جس کے فی الحال آثار نہیں نظر آ رہے۔ اگر سیاسی اور معاشرتی لیڈرز وقت کی نزاکت کو نہ سمجھیں اور سوشل میڈیا اسی طرح ملکی سالیت کے خلف زہر افشانی کرتا رہا تو بات کہیں ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ دشمن کو تو کوئی دوش نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ دوست کیا کر رہے ہیں ؟ جب پی ٹی ایم کے ڈنڈا بردار جتھے نے شمالی وزیرستان میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کرکے دہشت گردوں کے سہولت کار ملزموں کو دھونس زبردستی سے چھڑوانے کی کوشش کی تو جو جانی نقصان ہوا وہ ایک منطقی لیکن افسوسناک واقعہ تھا۔ لیکن بغض معاویہ میں حزب اختلاف کی تمام بڑی جماعتوں نے آئی ایس پی آر کے بیانیے کو مسترد کرکے پی ٹی ایم کا تقریباً ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ وجہ فقط یہ کہ حکومت کو مزید پریشر میں لایا جائے‘ اور فوج کے اپنے حق دفاع کی مخالفت کی گئی۔ اگر ہمارے طور طریقے یہی رہے تو اللہ نہ کرے رمضان کے بعد پاکستان ایک بڑی بیرونی اور اندرونی جنگ میں دھکیل دیا جائے گا۔ اور اپنی جانیں اور مال بچا کر تمام چور تو بھاگ جائیں گے؛ البتہ اپنے معصوم عوام کو آگ اور خون کے سمندر میں چھوڑ جائیں گے۔ لیکن پھر اللہ اپنی چال چلتا ہے اور بیشک اللہ کی چال سب سے زیادہ زبردست ہوتی ہے۔ انشاء اللہ بیرونی اور اندرونی دشمن منہ کی کھائیں گے۔ لیکن کامیابی کیلئے ہمیں اپنی جنگ خود لڑنا ہو گی اور وہ اندرونی یکجہتی کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے موقع پر اپنی افواج اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے نہ ہونا ناعاقبت اندیشی ہوگی۔ (ختم )