"NLC" (space) message & send to 7575

کشمیر: سفارت کاری کی حدود

پیشہ ور اور مؤثر ڈپلومیٹک کور (Corps)قومی مفادات کے حصول اور بیرونی حملوں کی صورت میں دفاع کے لئے ہراول دستے کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ایک مسلسل محنت طلب اور ڈیمانڈنگ ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے ایسے متنوع علوم اور مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی بھی دوسرے پیشے کی نسبت کہیں زیادہ چیلنجز کا سامنا کرسکے ۔ سفارت کاروں کو عالمی سیاست، عالمی قوانین، عالمی سٹریٹیجی، عالمی معیشت‘ رابطہ کاری اور مذاکرات کرنے میں مہارت کی بہتر تفہیم درکار ہوتی ہے۔ پھر جہاں ان کی تعیناتی ہو اس خطے یا کسی ایشو کے بارے میں معلومات اور تفصیلات پر ان کی گہری گرفت ہونی چاہئے۔ ایک چیلنجنگ مگر ساتھ ساتھ اطمینان بخش تجربہ ان کے ملک اور خود ان کے اپنے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی رہی ہے کہ اس کے پاس خارجہ پالیسی چلانے والے کئی پروفیشنل اکابرین موجود تھے‘ جو عام بیوروکریسی سے ہٹ کر اپنے پیشے میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔
کوئی بھی ادارہ اسی وقت بہترین کارکردگی دکھا سکتا ہے جب اس کے پاس سیاسی اتھارٹی کی طرف سے مضبوط پالیسی ڈائریکٹوز موجود ہوں جبکہ معاملے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے دیگر متعلقہ کوارٹرز کی طرف سے صرف مشاورتی تجاویز ہی آئیں۔ ہماری بدقسمتی کہ پاکستان کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں رہی۔ دوسری اہم بات جو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کو موجود عالمی، سیاسی‘ معاشی اور تزویراتی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ہی بروئے کا ر لایا جا سکتا ہے۔نیز یہ کہ اسے ارباب اقتدار کی وضع کردہ حدود تک یا ان کے ارد گرد ہی توسیع دی جا سکتی ہے۔ سفارت کاروں کے لئے یہ بھی از حد ضروری ہے کہ جب فیصلہ سازوں اور ان پر عمل درآمد کرانے والوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے اور ان کی سوچنے سمجھنے کی استعداد کیلئے مصنوعی رکاوٹیں پیدا کرنے کے وہ مختلف آپشنز پرغور کررہے ہوں توانہیں دنیا کی تازہ ترین تکنیکس (ہائبرڈ) سے بھی آگاہی ہو۔ 
یہ بحث اس لئے ضروری تھی کہ ہم کشمیرپر اپنی خارجہ پالیسی اور ڈپلومیسی کی استعداداور حدود کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں‘ نیز یہ کہ یہ حقیقی طور پر کیا کچھ حاصل کر سکتی ہے؟ ہم اکثر ان قانونی، سیاسی‘ سفارتی اور متحرک آپشنز کا ذکر سنتے رہتے ہیں جو پاکستان اس مسئلے کے حل کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ اب یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ہمارے پاس مزید آپشنز بھی بچ گئے ہیں؟ یہ ایک جائز سوال ہے جس پر پوری احتیاط اور استدلال کے ساتھ سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلا فیکٹر‘ جو کسی قومی کوشش کے نتائج کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے‘ ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان ہم آہنگی اور کوارڈی نیشن ہے۔ سفارت کاری ان میں محض ایک ستون ہے۔ اگر عالمی اور داخلی فضا کو ہموار کئے بغیر صرف کسی عسکری انسٹرومنٹ کو ہی بروئے کار لایا جائے اور اس کی سفارتی اقدامات کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہ ہو تو اس کا انجام یقینا ناکامی ہوگا۔ قومی مقاصدکے حصول کیلئے تمام سیاسی، معاشی، عسکری اور سفارتی اقدامات میں مکمل ہم آہنگی ضروری ہے۔ہم باربار اپنی اسی کمزوری کامظاہرہ کرتے آئے ہیں‘مگر اب بہت ہو چکا!
ہم کشمیر کے معاملے میںکس طرح کی سفارتی کوششوں کی توقع کرسکتے ہیں؟اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی کیا صلاحیت ہے اور یہ مسئلہ کشمیرکے حل میں کس حدتک معاون ہوسکتے ہیں؟
موجودہ سیاسی‘ معاشی عالمی فریم ورک اور عالمی اداروں پر بڑی طاقتوں کا اثرورسوخ ‘اقوام متحدہ اوردیگر عالمی فورمز پر مودی کے رویے میںکسی بڑی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بدقسمتی سے ہم بطور ریاست علاقائی اوردیگر بلاکس میں اپنا کوئی ایساسیاسی ‘معاشی اور تزویراتی اثرورسوخ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیںجو ہمارے موقف میں وزن پیدا کر سکے۔ صرف چین ہے (وہ بھی زیادہ تر چین کی اپنی کوششوں کی بدولت) جس کے ساتھ ہماری تزویراتی مفاہمت پائی جاتی ہے‘ ورنہ ہم صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر تکیہ کرکے اپنے تمام مواقع ضائع کرتے رہے ہیں۔ روس اورایران بار بار ہم سے رجوع کرتے رہے اورہم نے ہر بار اپنی سردمہری سے انہیں حیران کیا۔کوئی بڑی تبدیلی سیاسی فیصلے کے نتیجے میں ہونی چاہئے، ہم فارن آفس کو اس کے لیے مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے‘ سوائے اس کے کہ ان کی طرف سے مزید ٹھوس ان پٹ Input آنی چاہئے تھی۔ ہو سکتا ہے ہمارے مغرب پرست اور امریکہ نواز عناصر مشرق کی سمت دیکھنے کی ہماری پالیسی کے خلاف بطور بیرونی آلہ کار کام کر رہے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ افسوسناک ہے۔ تمام قومی اداروںکوان عناصر سے پاک کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پہلاقدم آرمی نے اٹھایاہے۔
عالمی سیاسی اورسفارتی منظر نامے بالکل واضح ہیںاور موجودہ حالات میں ہماری خواہشات کے برعکس کام کررہے ہیں۔ ہمیں پورایقین ہے کہ ستمبر کے آخرمیں وزیر اعظم عمران خان یواین جنرل اسمبلی میں زبردست تقریرکریں گے‘ مگرسوائے واہ واہ کے کشمیر کے مسئلے پر ہمیں اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔اس وقت تک بھارت اپنے ملٹری ایکشن کے پہلے فیز کا کام مکمل کرچکا ہوگا اور وہ ہے نوجوان قیادت ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو کمزور کرنا۔ اس کے بعد بھارتی افواج اپنی بندوقوںکا رخ پوری طرح ایل او سی اور بین الاقوامی بارڈر کی طرف کر چکی ہوں گی؛ چنانچہ محض سفارت کاری کے میدان میں کی گئی سرمایہ کاری اور کوششوںسے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکیں گے۔ فوری مطلوبہ مقاصد یہ ہیں۔
1۔کرفیو کا فوری خاتمہ‘ 2۔بھارتی مظالم کا تعین کرنے کیلئے تحقیقاتی ٹیم کی روانگی‘ 3۔مقامی لوگوںکی انٹرنیٹ سمیت تمام ذرائع ابلاغ تک رسائی‘4۔عوام‘ خصوصاً بچوں کو خوراک اور ادویات کی فراہمی‘ 5۔زیر حراست تمام افراد کی رہائی اور شہدا اور زیادتی کی شکار خواتین کی فہرست کی تیاری۔
ایک اچھی بات جو مثبت نتائج دے رہی ہے‘ عالمی سول سوسائٹی، سوشل میڈیا اور تارکین وطن کی طرف سے چلائی جانے والی آگہی مہم ہے۔ اس سے نیشن سٹیٹس پردبائو بڑھے گا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نتیجے میں کشمیری عوام کی زبوں حالی کے بارے میں اپنے لاتعلقی اور بے حسی کے رویے پر نظرثانی کریں گی‘مگر ہنوز دلی دور است؛ چنانچہ سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا، آگاہی مہم اور عالمی سطح پر کشمیر کاز کیلئے نکلنے والے جلسوں جلوسوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ جہاں ایک طرف یہ تمام کوششیں مسئلہ کشمیرکو عالمی سطح پراجاگر کریں گی‘ وہیں یاد رہے کہ اس سے بھارتی حکومت اور افواج کے رویے میںکوئی تبدیلی آئے گی نہ یو این او سے کوئی نئی اور موثر قرارداد پاس ہونے کی توقع ہے؛ تاہم اس سے ایک ایسی فضا پیدا ہوجائے گی‘ جس میں پاکستان سیاسی اور عسکری میدانوں میں بعض دیگر اقدامات کر سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی سفارت کاری، میڈیا اور آگہی مہم کو سیاسی، قانونی اور عسکری اقداما ت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرتے تو سب کچھ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
سیاسی، معاشی اور عسکری میدانوں میںوہ کون سے شعبے ہیں جن میں ہمیں ابھی سے کام کرنے کی ضرورت ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ہونے والے جنگی جرائم کے خلاف ہم عالمی عدالت انصاف میں جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے چاہئے کہ وادی میں ایک تحقیقاتی ٹیم بھیجنے پر اصرار کریں۔ ہمیں چین، روس، ترکی وغیرہ پر مشتمل سیاسی، معاشی اور عسکری بلاکس میں جانے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں چین کے ایک ملٹری وفد کا پاکستان کا دورہ ایک اچھی سیاسی پیش رفت ہے۔ ہم یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی سرپرستی میں کشمیر کے آزاد علاقوں میں استصوابِ رائے کا اہتمام کرے اور پھر مستقبل میں جب ممکن ہو اسے بھارتی مقبوضہ کشمیر تک بھی توسیع دی جا سکتی ہے چونکہ بھارت متعدد بار شملہ معاہدہ کی بھی خلاف ورزیاں کر چکا ہے اس لئے اسے منسوخ کرنے کے بارے میں بھی سوچا جا سکتاہے۔
چونکہ مقبوضہ کشمیر میں کوئی حقیقی بھارتی حکومت وجود نہیں رکھتی اس لئے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ کشمیری تارکین وطن یا دوست ممالک کی وساطت سے ایک جلا وطن حکومت بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ ان تمام تجاویز پر غوروخوض اور بحث کی ضرورت ہے تاکہ ان کا نفع نقصان دیکھا جا سکے‘ مگر انہیں عجلت میں مسترد کرنے سے گریز کیا جائے۔ ہمیں کشمیری اور پاکستانی نوجوانوں کو متحرک کرنے اور ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مادر وطن کے دفاع کے لئے مسلح افواج کے دست و بازو بن سکیں یا ضرورت پڑنے پر ایل او سی کے پار ہمارے بے بس بھائی بہنوں کی مدد کے لئے بھی جا سکیں۔ ہمیں اسی طرح کے بعض فوری اورشارٹ ٹرم اقدامات کرنے چاہئیں۔ہمیں ایٹمی صلاحیتوں سمیت اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اچھا بچہ بننے اور مہذب اپروچ اپنانے کے چکر میں (جس سے ہمیں اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا) ہم اپنے جائز قومی مفادات کو ترک نہیں کر سکتے؛ چنانچہ صرف پاور پوٹینشل کے تمام عناصر کا احاطہ کرنے والی ایک جامع اور متحدہ اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے جو کشمیر کی تحریک مزاحمت کی مددگار ثابت ہو۔ اس سے ایسا ماحول پیدا ہو گا جو مودی کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرے گا اور اسے مذاکرات کی میز پر لائے گا۔ انشااللہ انہیں بات چیت کرنا پڑے گی بشرطیکہ ہمیں سفارتکاری کے محدود دائرہ کار اور عالمی اداروں کی کمزوریوں کا بخوبی ادراک ہو جن کی وجوہ سب پر اظہر من الشمس ہیں۔ہمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قومی قوت کے تمام عناصر کو دانشمندی مگر جامع انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی کمزوریوں کے نام پر موجودہ غیرفعالیت یا جزوی فعالیت ہمارے دشمنوں کے مذموم ناگزیر عزائم کو ملتوی نہیں کر سکتی۔
اپنے ذہن بنالو۔ واقعات کے کھلنے کا انتظار کرو اور جواب دینے میں تاخیر کردو یا پھر اپنے ستاروں کی گردش کو درست طریقے سے پڑھ لو اور دشمن کے عزائم کو ناکام بنا دو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں