گھنٹیوں والے وزیراعظم کی موت اور سفید ملکہ

گیارہ مئی کی صبح طلوع ہوئی تو میں اور میرا پیارا ملک دونوں اپنی اپنی منزل کی جانب محو ِپرواز ہوئے۔میں برطانیہ کی طرف اور وطن عزیزجمہوری سفر کے ایک نئے اور روشن سنگِ میل کی طرف۔ لندن پہنچا تو پہلی خبر یہ ملی کہ میری برطانیہ سے مختصر غیر حاضری کے دوران GIULIO ANDREOTTIچل بسے۔ 94برس عمر پائی۔یورپ کے چوٹی کے سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے۔ اٹلی کے تین بار وزیرِ اعظم بنے۔ اتنی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے کہ اگر مجھے ان میں اور ان کی ہم وطن خوبصورت اداکارہ صوفیہ لورین میں سے ایک کے ساتھ شام گذارنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑتا تو میں یقینا ان کا انتخاب کرتا (چاہے بعد میں کف افسوس ملتا) آنجہانی ANDREOTTI نے 1940ء سے لے کر مرتے دم تک جو تقاریر کیں‘ ان ڈراموں کے مکمل متن‘ جو دیکھے۔ ریستورانوں میں ان کھانوں کی فہرست‘ جو کھائے۔ عجائب گھروں میںان قابل دید اشیاء کی تفصیل‘ جو دیکھیں۔ جن جن شہروں کی سیر کا موقع ملا‘ ان کے نقشے ۔اور زندگی بھر میں اکٹھی کی جانے والی دستاویزات ۔ اُن سب کو اکٹھا کیا گیا تو فائلوں کی تعداد دس ہزار تک جا پہنچی۔ یہ وسیع ذخیرہ معلومات روم میں ان کی یاد میں قائم کیے جانے والے ادارے کے حوالے کر دیا گیا ماسوائے ایک چیز کے جو آنجہانی نے کسی کو نہ دی اور ہمیشہ اپنے پاس رکھی۔ سونے کے جس کمرہ میں وفات پائی‘ اسکے باہر شیشے کے شیلف کے اوپر رکھی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں۔ 1972ء اور 1989ء کے درمیانی سترہ برسوں میں وہ تین بار وزیرِ اعظم بنے۔ اطالوی روایت کے مطابق ہر وزیرِ اعظم کو ایک گھنٹی دی جاتی ہے جسے بجا کر وہ کابینہ کے اراکین کو خاموش کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کے سپیکر کو بھی گھنٹی دی جاتی ہے جسے ایوان میں نظم و ضبط قائم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آنجہانی 89سال کی عمر میں سینٹ کے رکن بنے تو انہیں ایک دن کیلئے صدارت کا اعزاز دیا گیا۔ اٹلی میں گھنٹیاں اقتدار اور اختیار کی علامت ہیں اور طرح طرح کی گھنٹیوں نے عمر بھر ان کا ساتھ دیا۔ وہ پیدا ہی گھنٹیوں کے شور میں ہوئے۔ روم میں گرجا گھروں کی تعداد 900سے زیادہ ہے جہاں سارا دن بڑی بڑی گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ عیسائیوں کے رومن کیتھولک فرقہ کا سر براہ پوپ بھی روم میں رہتا ہے۔ آنجہانی کو بچپن میں پوپ سے ملنے کا اتناشوق تھا کہ وہ بھیس بدل کر پوپ تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ہر پوپ کو سیاسی مشورہ دینا اُن کے فرائض منصبی میں شامل رہا۔ وہ اتنا مذہبی میلان رکھتے تھے کہ ہر روز صبح سات بجے گرجا گھر جا کر عبادت کرتے تھے۔ گرجاگھر سے نکلتے وقت گداگروںکو خیرات دینے میں کبھی ناغہ نہ کیا۔ وہ ہر گداگر سے ذاتی طور پر واقف تھے اور ہر ایک کا نام لے کر بلاتے تھے۔ اپنے دفتر میں پردوں کے پیچھے خوراک کا ذخیرہ رکھتے تھے کہ اگر کوئی ضرورت مند آجائے تو خالی ہاتھ نہ جائے۔ اُن کے دو مقولوں کو عالمی شہرت ملی۔ اول ’’اگر آپ دوسرو ں کیلئے برا سوچتے ہیں تو آپ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں مگر آپ کی بری رائے اکثر درست ثابت ہوتی ہے۔دوئم ’’اقتدار صرف ان لوگوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے جو اس سے محروم ہوتے ہیں‘‘۔ ان کایہ مقولہ ہالی وڈ کی مشہور فلمGOD FATHER کا حصہ بناتو اور مشہور ہوا۔ وہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کے اہم کردار تھے۔ امریکہ اور پوپ کی سلطنت VATICAN کمیونسٹوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں مگر ہر دھڑے سے سودے بازی میں ہمیشہ کمربستہ‘ چاہے وہ مافیا کے خطرناک غنڈے کیوں نہ ہوں۔ 1978ء میں اس وقت کے سب سے مشہور دہشت گروپ RED BRIGADEنے ان کے قریبی ساتھی آلڈو مورو ALDO MOROکو اغوا کر لیا مگر انہوں نے زندگی میں پہلی بار سودے بازی سے انکار کر دیا اور ان کے ساتھی کو دہشت گردوں نے قتل کر دیا۔زندگی بھر ان کے اردگرد ماتمی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ سب سے قابل ذکر AMBROSOLI کا قتل تھا جو مافیا کی مدد اور سرپرستی کرنے والے بینکوں کی تفتیش پر مامور کیا گیا تھا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آنجہانی پر مافیا کے ساتھ قریبی روابط رکھنے کے الزام میں مقدمہ چلا اور وہ سزا پانے سے بال بال بچے۔ اطالوی اخبارات میں وہ مکڑی کا جال بُننے والی روایتی مکڑی کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ وہ اطالوی سیاست کے بے شمار ناقابل یقین رازوں کے امین تھے جو ان کے ساتھ دفن ہو گئے۔ اطالوی لوگوں کی عادت کے برعکس وہ گفتگو میں اپنے ہاتھوں کو بالکل ساکن رکھتے تھے۔ انہوں نے ساری عمر اپنے چہرے پر نقاب ڈالے رکھا اور موت آنے تک انہیں یہ نقاب اتارنے کی توفیق نہ ہوئی۔ مگر بوقت ضرورت اپنی چھوٹی سی گھنٹی بجا کر اپنے اہل وطن کو ہمیشہ یاد دلانے کے اہل رہے‘ جس طرح بقول غالبؔ ’’بنا ہے عیش تجمل حسین خان کیلئے۔‘‘ یعنی اقتدار کی کرسی ان کیلئے بنائی گئی ہے۔ اُن کی (بروقت) وفات سے اطالوی تاریخ کا ایک سیاہ‘ پراسرار اور شرمناک باب بند ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت بڑی برائیوں کا سرچشمہ تھے۔ ان کابُنا ہوا جالا اقتدار کے ایوانوں میں اس حد تک پھیلا ہوا ہے کہ ان کی بجائی ہوئی گھنٹیوں کی بازگشت اطالوی تاریخ میں دیر تک سنائی دے گی۔ اس اخبار کے قارئین کو آنجہانی کے سیاسی کردار کو ہماری اپنی تاریخ کے حوالے سے سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ مشتاق احمد گورمانی(سابق وزیرداخلہ اور سابق گورنر مغربی پاکستان)۔ ملک غلام محمد (سابق وزیر خزانہ اور سابق گورنر جنرل )اور جنرل سکندر مرزا(سابق وزیرداخلہ اور سابق گورنر جنرل اور پہلے صدر مملکت ) کا مجموعہ تھے۔ اول الذکر دونوں کو مبینہ طور پر لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر نے ہمارے پہلے آئین کو پامال کرنے اور پہلا مارشل لاء لگانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اگرچہ پاکستان میں سیاست کے گورکنوں کی فہرست بنائی جائے تو وہ قبروں میں دفن کیے جانے والوں سے زیادہ لمبی ہوگی مگر مذکورہ تینوں افراد کے نام سرفہرست ہوں گے۔ اٹلی میں ان تینوں کا ہم منصب (COUNTER PART) ایک ہی شخص تھا جسے آج آپ سے متعارف کرایا گیا اور وہ بھی بعد از مرگ۔ ………………………… ہمارے ناظرین ٹیلی وژن پر پاکستان کے انتخابی ڈرامہ کو دیکھ دیکھ کر تھک گئے ہوں گے۔ اب انہیں چاہیے کہ منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے BBC TVپر چلنے والا ایک دلچسپ ڈرامہ دیکھیں جسکا نام ہے ’’سفید ملکہ‘‘ (The White Queen)۔ آپKateکے اس کارنامہ سے تو واقف ہونگے کہ کیک بنانے والے ایک عام شخص کی عام سی لڑکی نے چند برس پہلے ملکہ برطانیہ کے پوتے شہزادہ ولیم کو اپنے دام محبت میں اسطرح گرفتار کر لیا کہ نوبت شادی تک پہنچی۔ (شہزادی بہت جلد ماں بننے والی ہے)اس ڈرامہ کا موضوع یہ ہے کہKATE MIDDLETONنے جو کمال کر دکھایا وہ 500سال سے زیادہ عرصہ پہلے بھی برطانوی قوم دیکھ چکی تھی۔ 1464ء میں ایک ایسی خاتون جسکا نام ایلزبتھ تھا‘ عمر 27برس‘ نہ صرف بیوہ بلکہ دو چھوٹے بچوں کی ماں بھی۔ اس نے انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ چہارم( جو عمر میں پانچ برس چھوٹا تھا) کی ملکہ بن گئی۔ سارا دربار مخالف‘ بادشاہ کی والدہ روایتی ساس سے بھی کہیں زیادہ بہو کی دشمن نمبر ایک۔عوام اس وقت (آج کے پاکستان کی طرح)کسی گنتی شمار میں نہ تھے ورنہ وہ شاید اپنے طبقہ کی ایک مسکین‘ بے یارومددگار لڑکی کی ضرور حمایت کرتے۔ آیئے ہم اس غیر متوقع طور پر غیر معمولی خوبیوں کی مالک ملکہ برطانیہ کی بہادری کی تعریف کریں جس نے بقیہ عمر شیر کے کچھار میں بہادری سے گذاری۔ دریا میں رہی اور مگر مچھوں کے بیر کا مقابلہ ساری عمر کرتی رہی۔ یہ سطور پڑھ کر قارئین میں سے اُن خواتین کا حوصلہ بلند ہوگا جن کے موجودہ حالات گذرے وقتوں کی ایک بھولی بسری ملکہ سے ملتے جلتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں