جمہوریت کی کہانی… کچھ نئی‘ کچھ پرانی

لارڈ ایرک ایوبری (Lord Avebury) 38سالوں سے میرے اتنے قریبی دوست ہیں کہ روایتی بھائیوں جیسا رشتہ ہے۔ نہ صرف کہ ہاؤس آف لارڈز (پارلیمنٹ کا ایوانِ بالا) کے 45 سال سے رکن ہیں بلکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی برائے حقوق انسانی کے گزشتہ 35 سال سے صدر ہیں اور تاحیات رہیں گے۔ میری دعوت پر وہ پاکستان کے چار دورے کر چکے ہیں جہاں مجھے‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ میری پاکستان سے واپسی سے دوسرے ہی دن انہوں نے پارلیمنٹ میں ہونے والی ایک تقریب میں مجھے مدعو کیا۔ اس تقریب کا مقصد 1832ء میں منظور ہونے والے پہلے اصلاحی بل کی منظوری کی یاد کو تازہ کرنا تھا۔( اور اسی بہانے بہترین مشروبات کی مدد سے جشن منانا بھی)۔ 22اپریل 1831ء کو وزیرِ اعظم سر رابرٹ پیل (Robert Peel)نے بھی مجوزہ اصلاحی بل کی مخالفت میں تقریر کی ۔ اس پارلیمانی بل کا مقصد آبادی کے ایک بڑے حصہ کو ووٹ کا حق دینا تھا۔ جمہوریت کی شاہراہ پر برطانیہ کا یہ تاریخی قدم تھا جس سے سلطانی جمہور کے دور کا آغاز ہوا۔ ہاؤس آف لارڈز میں بل کے حامی اور مخالفین ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے کرتے آپس میں گتھم گتھا ہو گئے اور انہیں بمشکل ایک دوسرے سے الگ کیا گیا۔ دارالعوام کے اراکین ہیجانی حالت میں ایوان بالا کی طرف دوڑ پڑے۔ اس فقید المثال ہنگامہ کی خبر بادشاہ سلامت تک پہنچی تو اس نے فیصلہ کیا کہ خود پارلیمنٹ جا کر دیکھیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ ولیم نامی بادشاہ دہلیز پر پہنچا تو خدام نے دروازہ کھول دیا۔ حیرت زدہ بادشاہ نے اپنے لارڈ چانسلر (جو ہاؤس آف لارڈز کی صدارت کر رہا تھا) سے پوچھا کہ اتنا شوروغل کیوں مچایا جا رہا ہے؟ جواب ملا’’ پارلیمنٹ کے اراکین ایک متنازعہ بل پر بحث کر رہے ہیں‘‘۔ یہ تسلی بخش جواب سن کر بادشاہ اپنے محل واپس چلا گیا۔ 1831ء کے برطانیہ میں پوری آبادی میں صرف تین فیصد لوگوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ بل منظور ہو گیا تو تناسب بڑھ کر پانچ فی صد تک جا پہنچا۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس ہیجانی دور میں ایک برطانوی وزیراعظم (Spencer Perceval) کو دورانِ اقتدار قتل کر دیا گیا۔ اس کے بیٹے نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اصلاحات کے حامی خدا کا عذاب نازل ہونے کے ذمہ دار ہیں اور ہیضہ کی وبا کی صورت میں خدا انہیں ان کے گناہوں کی سزا دے رہاہے۔ یقین کیجیے کہ 1832ء تک برطانیہ کے چار بڑے شہروں (برمنگھم‘ مانچسٹر‘ شیفیلڈاور لیڈز) کا پارلیمنٹ میں ایک بھی رکن نہ تھا۔ لیکن ایک گلے سڑے انتخابی حلقہ (جو ایک ویرانہ پر مشتمل تھا) سے چنے جانے والے اراکیں پارلیمنٹ کی تعداد دو تھی۔ پولنگ کئی کئی دن جاری رہتی۔ خفیہ ووٹ دینے کا کوئی تصور نہ تھا۔ رشوت دے کر ووٹ کھلم کھلا خریدے جاتے اور کوئی بازپرس نہ تھی۔ (ایسا نہ ہو کہ اس احوال سے آپ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ برطانیہ میں قریباً دو سو سال قبل بھی الیکشن کمیشن کے صدر جناب فخرالدین جی ابراہیم تھے)۔ تین خوش نصیب ملاحوں کا جہاز ووٹ ڈالنے کے دن لنگرانداز ہوا تو انہیں آج کے حساب سے پندرہ ہزار پاؤنڈ فی کس کے حساب سے رشوت دی گئی تاکہ وہ ایک بہت بدنام مگر بہت امیر شخص کو ووٹ دے کر کامیابی دلا سکیں۔ 13مئی2013ء برٹش پارلیمنٹ کی یاد گار تقریب میں انتخابی نظام میں پہلی اصلاح کا سہرا شہریوں کی ایک تنظیم (برمنگھم پولیٹیکل یونین) کے سر باندھا گیا۔ اس جماعت کے سربراہ Thomas Attwoodکو خصوصی خراج عقیدت پیش کیا گیا جب اس کی شہرۂ آفاق تقریر کا یہ جملہ بلند آواز میں دہرایا گیا۔ ’’اس ہجوم میں کوئی ایساشخص ہے جو حق و انصاف کی خاطر جدوجہد میں میرا ساتھ دے گا؟‘‘ تو سامعین نے بلند آواز سے بیک زبان جواب دیا۔ ’’ہم سب۔ ہم سب‘‘ جس دور (انیسویں صدی کا ابتدائی حصہ) کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے وہ بڑی عہد ساز تبدیلیوں کا دور تھا۔ برطانیہ کے ہر حصہ میں ہر شخص کی زبان پر تبدیلی کا لفظ تھا (آج کے پاکستان کی طرح)۔ برسٹل (BRISTOL)کے عوام کا غصہ ایک بڑے فساد کی شکل اختیار کر گیا جس میں چار سو افراد مارے گئے۔ ان میں بڑی تعداد شراب کے نشہ میں مدہوش ہو کر خود اپنے ہاتھوں جلائی جانے والی آگ میں جل کر مر جانے والوں کی تھی۔ تبدیلی کی لہر جب اور بلند ہوئی تو تبدیلی کی مخالف قدامت پسند (ٹوری) پارٹی نے پسپائی اختیار کی۔ مزاحمت کی بجائے مفاہمت کا راستہ اپنایا گیا۔ بادشاہ بادلِ نخواستہ بل پر دستخط کرنے پر مجبور ہوگیا۔ (آج بھی ہر بل کی منظوری کیلئے ملکہ برطانیہ کی رسمی منظوری لازمی ہے) ………………………… یورپ کی تہذیب اور معاشرت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک نہایت روشن‘ دوسرا نہایت تاریک۔ ایک طرف بدترین بربریت‘ سفاکیت اور ظلم و ستم مگر دوسری طرف حق وانصاف‘ قانون کی حکمرانی‘ حق گوئی اور بیباکی۔ برطانیہ جیسا مہذب ملک گذشتہ دس سالوں میں عراق میں جتنے بڑے پیمانے پر وحشیانہ طور پر لاکھوں بے گناہ افراد کے قتل عام میں امریکہ کا حصہ دار بنا رہا‘ اس پر سب سے زیادہ احتجاج اور فریاد کی آواز امریکہ اور برطانیہ میں بلند کی گئی۔ عراق پر (دس سال پہلے) کیے جانے والے بے جواز حملے کے خلاف لندن میں دس لاکھ افراد کامظاہرہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ مجھے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس تاریخی جلوس میں حصہ لینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ احتجاجی جلوس دوپہر کو شروع ہوا مگر اس کا آخری کالم جب چند میل کے فاصلہ پر ہائیڈ پارک پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ وہ لوگ جو اس وقت عراق پر حملے کی حمایت کرتے تھے‘ آج اتنے شرمندہ ہیں کہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ وہ قارئین جنہوں نے انگریزی ادب پڑھا ہے‘ یقینا GORGE ORWELLکے کلاسیکی مقام رکھنے والے ناول سے بخوبی واقف ہوں گے۔ برطانیہ میں جارج آرویل کی یاد کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے ہر سال ایک ایسے مصنف کو انعام دیا جاتا ہے جس نے تحقیق و تفتیش کے بعد برطانوی حکومت کے کسی شرمناک راز کو افشا کیا ہو۔ اس ہفتہ سال رواں کا انعام ایک برطانوی یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر A.T.WILLIAMS کو دیا گیا۔ ان کی کتاب کا عنوان ہے A VERY BRITISH KILLINGَ۔ اس طنزیہ عنوان سے ہی کتاب کے مندرجات کی عکاسی ہو جاتی ہے۔ کتاب کا موضوع عراق پر حملہ کے ابتدائی دنوں میں بغداد کے ایک ہوٹل کے بیگناہ ملازم موسیٰ پر انگریز سپاہیوں کے تشدد اور مزید تشدد ( جو موسیٰ کے مرجانے پر ختم ہوا) کی رُلا دینے والی داستان ہے۔ تین ہزار پاؤنڈ کا انعام دینے والی کمیٹی کے تین اراکین میں ایک پاکستانی دانشور خاتون عارفہ اکبر بھی شامل تھیں۔ یورپ کے حال احوال کی پہلی قسط کا آغاز اطالوی سیاست کے ایک باب کے بند ہوجانے سے کیا گیا۔ اختتام پاکستانی سیاست کے اک نئے باب کے کھل جانے کے تذکرہ پر ہوگا۔ اتوار 12 مئی اور سوموار 13 مئی 2013ء کے تمام برطانوی اور یورپین (معیاری) اخبارات نے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کو خبروں اور تبصروں میں نمایاں جگہ دی ۔ آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ میں نے اخبارات کے لفظ کے ساتھ ایک اسم صفت (معیاری) استعمال کیا ہے۔ یورپ میں غیر معیاری اخبارات کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔ پرلے درجہ کے لچر‘ بیہودہ اور ہرقسم کے سکینڈل سے بھرے ہوئے۔ بدقسمتی سے محنت کشوں کی بڑی تعداد تفریح طبع کیلئے ہر روز نیم عریاں خواتین کی تصاویر دیکھتی ہے۔ ان کے سکینڈل پڑھتی ہے۔مگر اس کا دل نہیں بھرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے اخباروں نے پاکستانی انتخابات کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ برطانیہ میں سب سے قابل ذکر ٹائمز‘گارڈین‘ فنانشل ٹائمز اور اکانومسٹ تھے جنہوں نے اچھی‘ باخبر اور ذمہ دار صحافت کے کمالات ایک بار پھر دکھادیئے۔ مجموعی طور پر ان اخبارات کے تبصروں سے برطانیہ اور یورپ کے تعلیم یافتہ طبقہ کے ذ ہن میں پاکستانی عوام اور ان کی اجتماعی دانش کیلئے عزت بڑھی۔ غالباً سب سے اچھا مضمون گارڈین میں ہمارے جانے پہچانے ناول نگار محمد حنیف نے لکھا۔ وہ بی بی سی کے اردو پروگرام سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنے جس انگریزی ناول سے عالمی شہرت پائی‘ اس کا موضوع جنرل ضیاء الحق کی حکومت اور ان کی ڈرامائی موت ہے۔ اس حوالہ سے ان کے ناول کا نام ’’دھماکہ سے پھٹ جانے والے آم‘‘ ہے۔ ان کا بصیرت افروز مضمون ان فکرانگیز سطور پر ختم ہوا۔ ’’ 67 سالوں میں پہلی بار پاکستان میں ایک حکومت نے پانچ سال مکمل کیے اور اقتدار عوام کے چُنے ہوئے نمائندوں تک منتقل ہونے والا ہے۔ وفاق پاکستان کو یہ سفر طے کرنے میں 67 سال لگے۔ یاد رہے کہ وہ عوامل اور وجوہات ہیں‘ جو اس تاخیر کے ذمہ دار ہیں‘ بدستور قائم اور دائم ہیں اور بالکل ختم نہیں ہوئیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں