دو رکعت کے امام‘ خاتون پادری اور انگریز پولیس

دریائے ٹیمز کے کنارے جنوب مشرقی لندن میں ایک بستی کا نام ہے وُولچ (Woolwich)۔ پچھلے دنوں وہاں ایک فوجی مبینہ طور پر دو مسلمان دہشت گرد نوجوانوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو برطانیہ میں کہرام مچ گیا۔ منافقت، تعصب اور بددیانتی کی یہ آخری حد اور بدترین مثال ہوگی۔ عراق اور افغانستان میں لاکھوں بے گناہ افراد‘ جن میں گھریلو خواتین اور معصوم بچے بھی شامل تھے‘ برطانوی فوجیوں کی جارحیت سے ہلاک ہوئے مگر اس پر نہایت معمولی‘ نہ نظر آنے والا اور نہ سنائی دینے والا احتجاج ہوا۔ ایک فوجی جو افغانستان میں برطانوی فوج کی طرف سے کیے جانے والے قتل عام میں حصہ لے چکا تھا‘ مارا گیا تو برطانوی حکومت‘ پارلیمنٹ‘ اخبارات اور عوام ہر سطح پراور ہر جگہ صف ماتم بچھ گئی۔ آپ کو یہ خبر غالباً ناقابل یقین لگے گی کہ جب ملزموں کا ایک دوست بی بی سی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں یہ انکشاف کر کے سٹوڈیو سے باہر نکلا کہ برطانوی خفیہ ادارے قتل کے دونوں ملزموں کو اپنا جاسوس بنانے کی ناکام کوشش کر چکے تھے تو اُسے بھی دہشت گردوں کا ساتھی ہو جانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس پر بی بی سی نے بہت شور مچایا مگر بے سود۔ ابھی تک ملزموں کا یہ دوست پولیس کی حراست میں زیر تفتیش ہے۔ برطانیہ میں مسجدوں کے وہ امام اور دینی جماعتیں جنہوں نے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے ہزاروں بے گناہوں کی ہلاکت پر کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی‘ ایک فوجی کے قتل پر اُن کی آنکھوں سے آنسو اس طرح بہنے لگے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ اُن کی آہ و بکا سن کر اعتبار نہیں آتا کہ اُن کا تعلق مغربی سامراج کی جارحیت کا شکار ہونے والی ستم زدہ اور مظلوم قوم سے ہے۔ اس صورت حال پر پنجابی کا وہ ناقابل ترجمہ محاورہ یاد آتا ہے کہ ’’جب حفاظت پر مامور کتا ہی چوروں کا ساتھی بن جائے تو گھروالے کیا کریں‘‘۔ بقول غالبؔ اگر وہ مالی استطاعت رکھتے ہوں تو اپنے ساتھ پیشہ ور نوحہ گر رکھ لیں۔ مشرق و مغرب کے ہر اسلامی ملک اور وہاں برسر اقتدار قیادت کا جب یہ حال ہو تو برطانیہ میں مسلمان اقلیت کی مسجدوں کے امام صاحبان اور دینی راہنمائوں سے کیا گلہ اور کیا شکایت؟ اقبال ؔنے بہت سال پہلے یہ شعر لکھ کر ہمارے زخمی دلوں پر تعزیت کے انداز میں ایک پھاہا رکھا تھا : ؎ قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام ایران کے بعد ترکی، مصر اور تیونس میں دینی رہنمائوں نے صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھ لیا تو وہ مسجدوں کی امامت کی سطح سے بلند ہو کر اپنی قوم کی قیادت اور رہبری کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔ ………………………… بات شروع ہوئی تھی برطانیہ میں مسلمانوں کے دینی رہنمائوں سے جو برطانوی حکومت اور عوام کی خوشنودی اور فیاضانہ سرپرستی حاصل کرنے کی خاطر مصلحت اور منافقت کو اُصول پرستی اور ضمیر کی آواز سننے پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ان کا تذکرہ مجھے اپنی ڈائری سے ہٹا کر دور لے گیا۔ آیئے اب واپس لوٹ چلیں۔ برطانیہ کا سرکاری مذہبی ادارہ چرچ آف انگلینڈ آپ کی توجہ اور دلچسپی کا مستحق ہے۔ بیس برسوں سے چرچ کے ایوانوں میں گرما گرم اور تند و تیز بحث جاری ہے کہ عورتوں کو بھی پادری بن کر عبادت گذاروں کی امامت کا حق ہونا چاہیے۔ پچھلے سال عورتوں کو پادری بنانے کی تجویز کے حق میں اکثریت نے ووٹ نہ دیا تو معاملہ التوا میں چلا گیا۔ اب اس انقلابی تجویز پر دو سال بعد یعنی 2015 میں پھر ووٹ پڑیں گے۔ ووٹ دینے کا حق گرجا گھروں میں باقاعدگی سے عبادت کرنے والوں کو دیا جائے گا۔ آثار نظر آتے ہیں کہ اب اس تجویز کو اکثریت کی تائید سے منظور کر لیا جائے گا۔ 1993 ء میں دو خواتین کو پہلی بار پادری بننے کا شرف حاصل ہوا۔ عیسائیت کی 2013 ء سالہ طویل تاریخ میں پہلی بار‘ دو سال قبل مجھے مانچسٹر میں ایک خیراتی ڈنر میں مجھے ایسی ہی ایک خاتون پادری کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ شراب نوشی تو کُجا وہ گوشت خوری سے بھی پرہیز کرتی تھیں۔ میرا ساتھ دینے کے لیے اُنہوں نے کباب اور تکوں کی بجائے مسور کی دال بڑے شوق سے کھائی اور سارا وقت مجھے سچا اور اچھا مسلمان بن جانے کی تلقین کرتی رہیں تاکہ میں ایک غیر مذہبی برطانوی معاشرے میں اُن اعلیٰ اقدار کی حفاظت کر سکوں جو اسلام اور عیسائیت میں مشترک ہیں۔ ڈنر ختم ہوا تو جاتے جاتے یہ بات شکایت آمیز لہجہ میں کہی کہ مجموعی طور پر اسلام اُن کے مذ ہب (عیسائیت) کے مقابلہ میںیہودیت کے زیادہ قریب ہے۔ ………………………… اِن دنوں برطانوی پولیس کی کافی شامت آئی ہوئی ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب کوئی نیا سیکنڈل منظر عام پر نہیں آتا۔ مناسب ہوگا کہ ان کو باری باری گنوایا جائے: 1۔ وُولچ(Woolwich) (جو میرے گھر سے صرف تین میل کے فاصلہ پر ہے اور وہاں ٹریفک بند ہونے سے میری روزانہ سفر کی زحمت کئی گنا بڑھ گئی) میں مذکورہ قتل کی واردات کے دونوں ملزموں کو پولیس آٹھ برسوں سے جانتی تھی‘ اُن کی مشکوک حرکتوں کو اور ان کے دہشت گردی کے رجحانات کو بھی‘ مگر وہ اُنہیں ارتکابِ واردات سے روکنے میں ناکام رہی۔ 2۔ پولیس کا وہ خصوصی گروپ جو مسلح ہوتا ہے (90 فیصد پولیس کو کسی قسم کا ہتھیاررکھنے کی اجازت نہیں) جائے واردات پر بیس منٹ بعد پہنچا ۔ برق رفتاری کے دعوے خاک میں مل گئے۔ 3۔ گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آئیں تو پتہ چلا کہ وزیر داخلہ ( جن کی تقرری کے احکامات رسمی طور پر بادشاہ سلامت جاری کرتے ہیں )کے حکم پر پولیس اپنے ہی بادشاہ کی فون پر ہونے والی گفتگو کو خفیہ آلات کی مدد سے سنتی تھی۔ یہ بادشاہ موجودہ ملکہ برطانیہ کا چچا تھا۔اُنہیں ایک امریکی (اور بدصورت) مطلقہ خاتون مسزسمپسن سے شادی کرنے کا غیر آئینی فیصلہ کرنے کے جرم کی پاداش میں بادشاہت سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں