دو رکعت کے امام‘ خاتون پادری اور انگریز پولیس

4۔ تین بہت قیمتی اور طاقتور انجنوں والے موٹر سائیکل چرا لیے گئے۔ جب تجربہ کار چور اِن پر سوار ہو کر ہوا سے باتیں کرنے لگے تو افسران بالا نے پولیس کو اس بنیاد پر چوروں کا تعاقب کرنے سے روک دیاکہ چوروں نے حفاظتی ہیلمٹ نہیں پہن رکھے۔ اس لیے خطرہ ہے کہ اگر وہ تعاقب کے دوران گر گئے تو متوقع حادثہ میں اُن کے زیادہ زخمی ہو جانے کا امکان ہے۔ 5۔ برطانوی پولیس میں کام کرنے والے جاسوس اپنی شناخت کو خفیہ رکھنے کے لیے اُن بچوں کے نام پر پاسپورٹ بنواتے ہیں جو بچپن میں ہی وفات پا جائیں۔ وفات پا جانے والے بچوں کے برتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا تو پولیس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘ مگر ان کی بدولت جعلی شناختی کاغذات اور پاسپورٹ تیار کرنے کا غیر قانونی کام پولیس خود کرتی ہے۔ …………………………… میری ڈائری یہاں تک پہنچی تو مجھے یاد آیا کہ میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا ہوا یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ وُولچ میں حال ہی میں انگریز فوجی کے قتل کا جو واقعہ ہوا اُس کا ردِ عمل کیا تھا؟ مذکورہ بستی میں سکھوں کی بڑی تعداد رہتی ہے (اگرچہ اُتنی بڑی ہر گزنہیں جو مغربی لندن میں سائوتھ آل نامی بستی میں) سکھ بہت گھبرائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ واردات مسلمان کریں اور سزا ہمیںملے۔ نیویارک میں نائن الیون کے بعد ایک سکھ کو انتقاماً قتل کر دیا گیا تھا ۔ پچھلے سال امریکہ میں ایک گوردوارہ کو آگ لگا دی گئی تھی جس میں کافی زیادہ جانی نقصان ہوا؛ چنانچہ سکھوں نے جائے واردات پر پھولوں کی بارش کر دی۔ مقتول کی یاد میں احتراماً خاموشی سے کافی دیر دوزانو بیٹھے رہے اور اپنے واہگورو سے رو رو کر دُعا مانگی کہ وہ مٹھی بھر انگریز نسل پرست غنڈوں کو دہشت گرد مسلمانوں اور امن پسند سکھوں کے درمیان فرق جان لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ …………………………… وولچ میں ایک انگریز سپاہی کے قتل پر نسل پرستوں کو غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنے کا بہترین موقع ملا۔ پرانے زمانے کی بات ہے جب خوراک کی حفاظت کے لیے گھروں کے برآمدے میں چھینکے لٹکائے جاتے تھے۔ وہ ٹوٹ کر گر پڑیں تو سمجھ جائیں کہ بلی کے بھاگ جاگ پڑے۔ یہی حال برطانیہ اور یورپ کے تمام ممالک ’خصوصاً سویڈن جسے ہم لوگ بے حد مہذب ملک تسلیم کرتے چلے آئے ہیں‘ کا ہے۔ میں برطانیہ کی سب سے سرسبز و شاداب کائونٹی کینٹ کی سرحد پر رہتا ہوں۔ اب پتہ چلا کہ اس گلستان میں خار زار کتنے ہیں؟ کینٹ اور اسکس میں پولیس نے مسجدوں پر حملے کرنے‘ ان کے شیشے توڑنے اور نمازیوں کو ہراساں کرنے کے جرم میں دو قانون شکن انگریز نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔ لندن سے ڈیڑھ سو میل شمال میں بولٹن میں مسجد کے باہر توہین آمیز جملے لکھے پائے گئے… اقبالؔ کا زمانہ گزر گیا جب شوخ طبع افراد مسجدوں کی محر ابوں پر عالمانہ اور فکر انگیز بات مصرع کی صورت میں لکھ دیتے تھے۔ اب اسلام دشمن لوگ مسجدوں کے باہر نہایت غیر شاعرانہ اور غیر مہذب باتیں لکھ رہے ہیں۔ سویڈن میں ہونے والے نسل پرست اور اسلام دشمن ہنگاموں کی مثال تو یوں ہے جیسے ایک ساکن تالاب میں پڑا پتھر پھینک دیا جائے۔ پچھلے سال میں دُنیا کے سب سے لمبے پل پر سفر کرتا ہوا ڈنمارک سے سویڈن گیا تاکہ ایک خوبصورت ساحل پر شہر کی سیر کر سکوں۔ خوشی کے مارے لمبی سیر تیز تیزقدموں سے کی۔ ان ہنگاموں کی تفصیل پڑھی تو گمان گذرا کہ میں ایک ڈرائونا خواب دیکھ رہا ہوں اور خواب ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ …………………………… آپ کے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہم آپ کو برطانیہ کے چوتھے صوبہ ویلز لیے چلتے ہیں۔ یہ لندن سے دو سو میل کے فاصلہ پر ایک تاریخی گائوں ہے۔ چھوٹا سا نام ہے Hay اور وہ چھوٹے سے دریا کے کنارے صدیوں سے آباد ہے۔ دریا چوڑائی میں پاکستان کی نہروں کا چھوٹا بھائی لگتا ہے۔ دریا تو بہت چھوٹا ہے مگر اس کے کنارے آباد گائوں میں علم کی اتنی بڑی ندی بہہ رہی ہے کہ سارے برطانیہ کو سیراب کرتی ہے۔ اس گائوں میں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی سینکڑوں دُکانیں ہیں۔ جدھر بھی دیکھیں کتابیں ہی کتابیں اور اُن کے خریداروں کا ہجوم۔ ہر سال اس گائوں میں ادبی میلے بھی منعقد ہوتے ہیں۔ جب کلنٹن صدر نہ رہے اور خود سیکنڈ ہینڈ ہو گئے تو وہ بھی اس گائوں کے ادبی میلہ میں شریک ہوئے اور اپنی پسند کی سیکنڈ ہینڈ کتابیں خریدنے لگے۔غالباً یہ دیکھنے آتے تھے کہ کہیں اُن کی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والی خودنوشت سیکنڈ ہینڈ ہو کر Hay کی دُکانوں کی زینت تو نہیں بن گئی؟ اب سنیے کہ ماضی قریب میں کیا ہوا؟ پرنس چارلس اپنی بڑھیا بیوی… سرکاری نام ہے Duchess of Cornwall‘ کے ساتھ Hay جانے کا سفر اپنے ہیلی کاپٹر سے کر رہے تھے کہ وہ اتنی بڑی فنّی خرابی کا شکار ہو گیاکہ اسے کسی قریبی ہوائی اڈہ پر جلد از جلد اُتار کر حادثہ سے بچا لیا گیا۔ پرنس چارلس اور ان کی زوجہ بالکل پر سکون رہیں اور پریشان ہوئے بغیر بقیہ سفر کار سے مکمل کیا۔ دونوں اپنی منزل پر کافی دیر سے پہنچے مگر ان کے مداحوں کا جم غفیر صبر سے ان کا انتظار کرتارہا۔ افسوس کہ میں اس سال Hayنہ جا سکا۔ ورنہ چارلس کے مداحوں کی تعداد میں ایک فرد کا اضافہ ہو جاتا۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں