پاکستانی فلمی صنعت‘برطانوی پارلیمنٹ اور احتساب

جمعہ کی رات دیر تک لکھنے پڑھنے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ میں ہفتہ کی صبح معمول سے دوگھنٹے دیر سے یعنی 9 بجے جاگتا ہوں۔ ابھی کچھ اور سو لیتا مگر سرہانے گارڈین رکھا ہوا تھا۔ برطانیہ کا سب سے قابل احترام روزنامہ۔ ایک آنکھ بند تھی اور ایک کھلی کہ اُس کی ورق گردانی شروع کر دی۔ اخبار کے وسط میں جہاں بین الاقوامی خبریں شائع ہوتی ہیں، ایک بڑی تصویر پر نظر پڑی جو سلطان راہی مرحوم جیسے ایک فلمی ہیرو کی تھی، بڑی بڑی مونچھیں اور غضبناک نظریں۔ ہدایت کار کا نام تھا عجب گل۔ حیرت کے مارے دوسری بند آنکھ بھی کھل گئی۔ پورے صفحہ کا مضمون پاکستان کی قریباً بے جان فلمی صنعت میں زندگی کے نئے آثار پیدا ہونے کے موضوع پر لکھا گیا تھا۔ موضوع بھی ایسا جس پر چند سطریں بھی اس پایہ کے برطانوی اخبار میں چھپ جائیں تو اظہار خوشی کے لئے ذیابیطس کے مریض کو بھی ایک گلاب جامن کھانے کی اجازت مل سکتی ہے۔ بقول اقبالؔ فصل خزاں میں ڈالی شجر سے ٹوٹ جاتی ہے۔لیکن اہم بات ٹوٹ کر گر جانا نہیں بلکہ بہار میں سحاب ِ بہار سے پھر ہرا بھرا ہو جانا ہے۔ کمال یہ ہے کہ جو عمل ہماری قومی سوچ، اجتماعی شعور اور سیاسی رُجحانات میں نمایاں طور پر جاری و ساری ہے، وہ (تبدیلی کی خواہش کا عمل) پھیلتے پھیلتے فلمی صنعت تک بھی جاپہنچا۔ 65 سالوں سے سوکھا ہوا درخت جب سرسبز و شاداب ہونے لگے تو اُسکی ہر ٹہنی کے ہر پتہ پر نظر آنے والی زردی اور آزردگی غائب ہونے لگتی ہے۔ ہم نے صد ہزار انجم کا خون دیکھا تو اقبالؔ نے یہ کہہ کر ہماری ڈھارس بندھائی کہ یہی کارروائی ایک نئی سحر پیدا ہونے کی نوید سناتی ہے۔ مذکورہ بالا منطق کا اطلاق نہ صرف ہماری سیاست کے نئے دور پر ہوتا ہے۔ بلکہ ہماری فلمی صنعت پر بھی جس پر گارڈین میں چھپنے والا مفصل تبصرہ ایک نیم خوابیدہ شخص کو آناً فاناً جگانے میں کامیاب ہو گیا۔ مضمون نگار نے ہمیں بتایا کہ نئی فلمیں بنانے کا سہرا اُن نوجوانوں کے سرباندھا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے ٹیلی ویژن کے لئے واشنگ پائوڈر سے لے کر مشروبات کے مقبول عام اشتہارات بنا کر جو رقم کمائی اُسے مل جل کر اب نئی فلمیں بنانے پر خرچ کر رہے ہیں۔اُن بلند ہمت اور ذہین نوجوانوں کا مقابلہ بمبئی کی فلم انڈسٹری سے ہے جس پر ہر سال دو ارب پائونڈز کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ کئی سنیما گھروں کے مالک ندیم مانڈوی والا(Nadeem Mandvi Walla) نے کہا کہ 30سالوں کے تعطل کے بعد اب فلمی صنعت کو پھر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے بہت محنت کرنا ہوگی۔ ’’بول‘‘ پہلی پاکستانی فلم تھی جس نے دس لاکھ ڈالر کمائے۔ ایک انگریزی روزنامے کے ثقافتی مبصر ندیم پراچہ کی رائے میں جو پاکستانی فلمیں بھارتی فلموں کا چربہ ہوں گی، اُن کی ناکامی یقینی ہے۔ پاکستانی فلم سازوں کو فرنگ یا بھارت کے فلمی شیشہ گروں کے احسان اُٹھانے کی بجائے سفالِ پاک سے اپنے منفرد جام پیدا کرنے پڑیں گے۔ یہ کام بے حد مشکل ہے مگر کرنا یہی پڑے گا۔ …………………… نئے پاکستانی پارلیمنٹیرینز کے عزم نو کو صیقل کرنے کے لیے برطانوی پارلیمنٹ کی ایک روایت لکھ رہا ہوں۔شاید وہ بھی متاثر ہوجائیں۔برطانوی پارلیمنٹ کے بڑے حروف میں لکھے ہوئے ایک قانون کے مطابق ہر رُکن پارلیمنٹ کو اپنی آمدنی کے تمام ذرائع سپیکر کے پاس رکھے ہوئے رجسٹر میں لکھنے پڑتے ہیں۔ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ کوئی رُکن کسی بھی تجارتی یا غیر تجارتی ادارہ یا کسی ملک یا کسی تنظیم کے حق میں اپنے ساتھی اراکین کی تائید، خوشنودی یا حمایت کرنے کے لئے معاوضہ وصول کرے تو مذکورہ بالا رجسٹر میں اور کچھ لکھے نہ لکھے مگر یہ انکشاف ضرور کرے۔ پارلیمانی زبان میں اسے Lobbying کہتے ہیں۔ جس طرح کی خفیہ کارروائی سے نیوز آف دی ورلڈ نامی اخبار نے ہماری کرکٹ ٹیم کے تین اہم کھلاڑیوں (رُسوائے زمانہ کپتان بھی ان میں شامل تھا) کو رشوت لے کر سپاٹ فکسنگ کے سیکنڈل میں پھنسایا تھا۔ ایک برطانوی T.V نے بھی وہی چال چلی۔ ایک رُکن پارلیمنٹ (سابق فوجی افسر اور ٹوری یعنی قدامت پسند پارٹی کا جانا پہچانا رہنما) کو چار ہزار پائونڈ دے کر Lobbyingپر رضا مند کر لیا۔ ٹیلی ویژن پر سے یہ پروگرام نشر ہونا باقی ہے مگر پارلیمنٹ کے سخت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اس بدنصیب شخص کی جگ ہنسائی اور رُسوائی کا باعث بنی۔ اُس نے خود اپنی پارٹی کی رُکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور اعلان کیا کہ وہ آئندہ الیکشن میں حصہ نہ لے گا۔ رجسٹر میں چار ہزار پائونڈ وصول کرنے کا نہ ذکر کرنے کی یہ کم از کم سزا تھی جو اعتراف جرم کرنے والے شخص نے اپنے آپ کو دے دی۔ یقینااُس کی باقی کی عمر پارلیمنٹ اور برطانوی قوم سے معافیاں مانگنے میں گزر جائے گی۔ مگر جو دھبہ لگ گیا وہ شاید کبھی نہ مٹ سکے گا۔ اسے کہتے ہیں احتساب اور شفافیت۔ یہ اچھے طرزِ حکمرانی کی اولین شرط ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ وطن عزیز کی وفاقی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی اس قابل تقلید روایت کو اپنا لیں۔ سپیکر کے پاس رکھے ہوئے رجسٹر میں ہر رُکن اپنے پورے کوائف لکھے۔ ذرائع آمدنی کون کون سے ہیں؟ ٹیکس کتنا دیا؟اثاثے کتنے ہیں اور کہاں ہیں؟ یہ سطور لکھی جاچکی تھیں کہ ایک اور سیکنڈل منظر عام پر آیا جس نے برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان ِ بالا (ہائوس آف لارڈز) کے تین اراکین بھی مذکورہ بالا جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ان بددیانت افراد کو اب ذلیل و خوار ہونے کے لئے ذہنی تیاری کر لینی چاہئے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں