اہل مغرب کی مذہبی وابستگی

لفظوں کے معنوں کی طرح بلکہ اُن سے بھی کہیں زیادہ تاثرات کو غلط العام کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے تاثرات کو تعصبات کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ آج ہم اُس تعصّب کا ذکر کریں گے جو پاکستان میں برطانیہ اور دوسرے ہر مغربی ملک کے عوام اور معاشرہ کے مذہب سے تعلق کے بارے میں اس حد تک پایا جاتا ہے کہ اہل وطن ’’راسخ العقیدہ‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو مذہب سے اپنی قربت ،روحانیت اور پاکدامنی پر اتنا ناز ہے کہ شاعرانہ مبالغہ آمیزی کے ساتھ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘۔ جس ملک میں ہر سطح پر کرپشن اپنے عروج پر ہو، دوائیاں اور ڈگریاں جعلی ہوں، خوراک میں ملاوٹ ہو، جھوٹ، بددیانتی اور منافقت کا دور دورہ ہر شعبہ میںہو، ہر قسم کی بدعنوانی، بداعمالی ، لاقانونیت کا عالمی ریکارڈ قائم کیا جا چکا ہو، اُس ملک میں رہنے والے عوام اور اُن کے حکمران دونوں کی اسلام سے گہری وابستگی کا دعویٰ کیا معنی رکھتا ہے؟ اُس کا حقیقت سے کیا تعلق ہے؟ یقینا آپ اُس شخص سے کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں جو 45 سالوں سے وطن عزیز سے چھ ہزار میل کے فاصلہ پر رہتا ہے۔ بات شروع ہوئی اہلِ مغرب کی مذہب سے نزدیکی یا (ہمارے ہاں بطور حقیقت تسلیم کی جانے والی) دُوری سے۔ اب آپ جو سطور پڑھیں گے وہ آپ کے لئے حیرت، یا ممکن ہے سچائی کو ماننے سے انکار والی کیفیت پیدا کرنے کی موجب ہوں گی۔ برطانیہ میں صرف اُسی شادی کوقانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو گرجا گھروں یا رجسٹریشن کے سرکاری دفتروں میں مذہبی رُسومات یا سرکاری قواعد کے مطابق درج کی جائے۔ پیدا ہونے والے ہربچے کے ماں باپ پیدائش سے چند ہفتے بعد بچے کو گرجا گھر لے کرجاتے ہیں جہاںبپتسما یعنی Baptise کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے تاکہ بچہ رسمی طور پر عیسائیت کے دائرہ میں داخل ہو جائے۔بادشاہ ہو یا ملکہ اُسے برطانیہ کے سرکاری مذہب (Church of England ) کا سربراہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ بادشاہ (یا ملکہ )کو نہ صرف برطانیہ کا سب سے بڑا پادری (Archbishop of Canterbury)بلکہ چھوٹے سے لے کر اعلیٰ ترین درجہ کے دوسرے پادریوں کو اُن کے عہدہ پر فائز کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان بالا(House of Lords )میں26 بشپ صاحبان (بڑے درجے کے پادری) کلیسا میں اپنے مرتبہ کی وجہ سے رُکن بنائے جاتے ہیں۔ ان کی تقرری بھی شاہی فرمان سے ہوتی ہے اور وہ قانون سازی میں باقاعدہ حصہ لیتے ہیں۔ عام برطانوی گھروں کی اکثریت میں ہر کھانے سے پہلے اور بعد شکرانہ کی دُعا مانگنا تو اپنی جگہ ایک پکی رسم ہے مگر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہر سرکاری تقریب میں کھانے سے پہلے اور بعد میں بڑے جچے تلے الفاظ میں خشوع و خضوع کے ساتھ رزق دینے والے رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ مجھے بیرسٹر بننے کے لئے نہ صرف کافی امتحانات پاس کرنا پڑے بلکہ ہر سہ ماہی میں اپنی Inn میں کم از کم تین ڈنر کھانے پڑے اور ہر ڈنر میں شکرانہ کی دو دعائیں مانگنے کا خوشگوار فرض بھی ادا کرنا پڑا۔ تقریباً پانچ سو سال پہلے وکالت کی تعلیم و تربیت کا کام جن مدرسوں نے سنبھالا اُنہیں Inn of Court کہتے ہیں۔ ان کی کل تعدادچارہے۔ پاکستان میں سب سے مشہور لنکن ان (Lincoln Inn)ہے چونکہ قائداعظم اس کے رُکن تھے۔ گاندھی اور نہرو Inner Temple اورMiddle Temple نامی Inns سے وابستہ تھے۔راقم السطور اور اُس کے تین بیٹے Gray\'s Inn کے رُکن ہیں۔ہم چاروں اب بھی ایک دفعہ اپنی Inn کے سالانہ ڈنر میں (رسمی لباس کی سخت شرائط پوری کرتے ہوئے) شریک ہوتے ہیں اور نہ صرف اچھی خوراک اور مشروبات ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں بلکہ بیرسٹر بن کر برطانیہ میں وکالت کرنے کے اعزاز پر بھی۔ ……………… 60 سال قبل5 جون کے دن ملکہ ایلزبتھ کی رسم تاجپوشی ادا کی گئی۔ وہ تخت پر ایک سال پہلے بیٹھیں (یعنی بادشاہ کا عہدہ سنبھالا) مگر اپنے والد کی وفات کے بعد احتراماً تاجپوشی کی چکا چوند کر دینے والی بے حد شاندار تقریب (روایت کے مطابق) تخت نشینی کے ایک سال بعد منعقد کی گئی۔ شکرانہ کی تقریب بھی (رسم تاجپوشی کی طرح) برطانیہ کے سب سے بڑے اور اہم ترین گرجا گھر Westminster Abbeyمیں ادا کی گئی۔ ایک ہزار سال سے بادشاہ کے گھر پیدا ہونے والا ہر بچہ اس گرجا گھر میں Baptism کے لئے جاتا ہے۔ اُس کی نماز جنازہ بھی اس گرجا گھر میں پڑھی جاتی ہے اور اگر وہ پیدائش اور وفات کے درمیانی عرصہ میں تخت نشین ہو جائے تو پھر تاجپوشی بھی مذہبی روایات کے مطابق اِسی گرجا گھر میں ہوگی۔ 5 جون کو ہونے والی تقریب میں دعائیہ مناجات اور حمدیں پڑھی گئیں۔ ایک نظم بھی پڑھی گئی جو برطانیہ کے موجودہ سرکاری شاعر(ملک الشعراء جس کی تقرری بھی شاہی فرائض میں شامل ہے) نے لکھی تھی۔ نظم پڑھنے کا اعزاز ایک اداکارہ کے حصہ میں آیا جو الفاظ کی ادائیگی میں اُس طرح کا کمال رکھتی ہیں جیسے ہمارے ہاں ضیاء محی الدین۔ نظم لمبی تھی۔ آپ صرف اس کے آخری حصہ کا آزاد ترجمہ پڑھیں ’’خدائے بزرگ و برتر نے میرے سر پر جو تاج رکھا ہے۔ اُسے ذمہ داریوں کے بوجھ نے بہت وزنی بنا دیا ہے۔ میں دُعا کرتی ہوں (نظم ملکہ کی طرف سے پڑھی جا رہی تھی) کہ مجھے تاج پہننے کا بوجھ اُٹھانے کے قابل بنایا جائے۔ مجھے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت عطا فرمائی جائے۔ میری تمام لغزشوں اور کوتاہیوں کوبکمال مہربانی معاف فرمایا جائے۔ میرا تاج جن ہیروں اور جواہرات سے مرقع ہے اُن کو بھی خوبیاں عطا کی جائیں۔ زمرد کو مستقل مزاجی، نیلم کو دُور اندیشی، یاقوت کو معاملہ فہمی، کوہ نور کو ہمت اور حوصلہ اور مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت، موتیوں کو کردار کی بلندی اور سچائی۔ مجھے اپنی رعایا کے اتنے قریب رکھ کہ میں ان کے دلوں کی دھڑکن بن جائوں۔ میرا نام ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہو جن پر خالق دو جہاں کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ مجھے توفیق دے کہ میں لوگو ں کے دلوں پر حکومت کروں۔ اپنی رعایا کے ہر فرد کی آنکھوں کا ستارا بن جائوں۔ اپنے مفاد کو قومی مفاد پر قربان کر دینے میں کوئی پس و پیش نہ کروں۔ میں اپنی رعایا کے ہر دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہوں۔ جب میرے ملک کے عوام کو کوئی صدمہ سہنا پڑے تو سب سے زیادہ میرادل مغموم ہو۔ جب وہ خوش ہوں تو سب سے نمایاں مسکراہٹ میری ہو۔ میں دست بستہ دُعا مانگتی ہوں کہ مجھے (اور میرے بعد آنے والی نسلوں کو)اپنی رعایا کی بہترین خدمت کرنے کے اعزاز سے محروم نہ کیا جائے۔‘‘ کتنا اچھا ہو کہ وطن عزیز میں بھی ہمارے حکمران بادشاہی مسجد یا فیصل مسجد جا کر حلف اُٹھایا کریں اور ضروری ترامیم کے ساتھ مذکورہ بالا دُعا مانگا کریں اور ہر سال اپنے اقتدار کی سالگرہ پر ایسی دعا کو دہرائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں